Do Tarah Ke Mazhabi Followers
دو طرح کے مذہبی فالورز
یوں نہیں ہوتا کہ معاشرے اور معاشرے کو تشکیل دیتے افراد مذہب کی ڈھال از خود بنانے لگ جائیں۔ برس ہا برس ایک خاص سوچ کی نشونما کی جاتی ہے۔ چرچ ہو یا سیناگاگ (یہودی عبادت خانہ)۔ مندر ہو یا منبر۔ جن معاشروں میں مذہب کو ذاتی مقاصد اور اقتدار حاصل کرنے یا اقتدار کو دوام بخشنے کی خاطر استعمال کیا گیا وہاں سے خون خرابے، سول نافرمانی یا سول وار اور انارکی کے سوا کچھ خیرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو پائے۔
آپ یورپ کی چار سو سالہ تاریخ دیکھ لیں جب چرچ اقتدار کا مرکز اور پاپائیت بادشاہت سے زیادہ طاقتور تھی۔ آپ اس رائیل کے قیام کے اغراض و مقاصد دیکھ لیں کیسے دنیا بھر سے یہود کو کس سوچ کے زیر اثر ایک جگہ لا بسایا گیا۔ آپ ہمسائیوں میں بجرنگ دل اور بی جے پی کی ہندوانہ ذہنیت سے پھوٹنے والے مسلم کش فسادات کی تاریخ دیکھ لیں۔ آپ افریقہ میں بوکے حرام تا داعش اور الشباب تا سٹوڈنٹس کے فنی کاوشوں پر نظر دوڑا لیں۔ جہاں جہاں مذہب کارڈ ذاتی مقاصد کی ڈھال بنا معاشروں نے جبر، ظلم، قتل و غارت، انارکی اور جنگ کے سوا کچھ نہیں پایا۔
کسی بھی مذہب میں دو طرح کے فالورز پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو وقت پڑنے پر خود کو مذہب کی حقانیت پر قربان کر دیتے ہیں۔ دوسرے وہ جو اپنی ذات پر کڑا وقت پڑنے پر مذہب کو اپنی ڈھال بنا لیتے ہیں۔ عیسائی و مسلم بادشاہوں کی تاریخ دیکھ لیں۔ دونوں جوانب بادشاہوں کا یہی دعویٰ رہا کہ وہ خدا کے چنیدہ اور مقدس افراد ہیں جن کو خدا نے زمین پر اقتدار دیا ہے۔ تمام جنگیں مذہب کے نام پر لڑی جاتیں رہیں یا مذہبی انتہاپسندی ان جنگوں کا اہم حصہ رہی۔ یعنی مذہب کو بطور ڈھال برتا جاتا رہا۔ نتائج یہ برآمد ہوئے کہ اہلیان یورپ چرچ اور پاپائیت سے باغی ہو گئے۔ بھارت میں ہندوانہ سوچ پر کانگریسی سوچ غالب آنے لگی ہے۔ مسلم ممالک میں بستے افراد جہادی تنظیموں سے باغی ہو چکے ہیں اور اب وہ تنظیمیں چھپ چھپا کر زیر زمین آپریٹ کرنے مجبور ہیں۔
ہمارے ملک میں یا ہمارے معاشرے میں سماجیات سے لے کر سیاست تک ہر جگہ مذہبی سوچ کو ایک خاص مقصد کے تحت پروان چڑھایا گیا۔ پہلے روس کے خلاف مقدس جنگ تھی پھر امریکا بہادر کے خلاف لڑنا پڑ گیا۔ ملک کے اندر ہر معاملے کو مذہبی عینک سے دیکھنے کا دستور رہا ہے اور یہ دستور پاکستان کے سنہ 73 کے دستور پر بھی حاوی چلا آتا رہا ہے۔ مذہبی ٹچ نہ سیاست میں نئی بات ہے نہ حکمرانوں نے مذہب کارڈ کا استعمال ترک کیا ہے۔ پاکستان میں جو سیاسی افراتفری یا پولیٹیکل instability ہے وہ دن بہ دن آگے بڑھتے ہوئے مذہبی کارڈ کے دھرا دھر استعمال کی جانب گامزن ہے۔
مثال کے طور پر یہ سمجھ سے بالا ہے کہ کیسے مذہبی جماعتوں کو یکایک سپریم کورٹ کے باہر یعنی ریڈ زون میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ کیسے سپریم کورٹ اپنے فیصلے کو سرنڈر کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ اگر فیصلہ غلط تھا تو اس کو درست کروانے کا طریقہ کار اس سے زیادہ غلط اور افسوسناک صورتحال بن کر سامنے آیا ہے۔
اور پھر کیا کہئیے اس صورتحال پر جہاں آرمی چیف سورہ المائدہ کی آیات تلاوت کرتے ہیں تفسیر میں فساد فی الارض کے بارے آگاہ کرتے ہیں۔ جواباً تحریک انصاف کی جانب سے اور ان کے ایجنڈے یا مشن کو پھیلانے والوں کی جانب سے بھی مذہب کارڈ باہر نکلتا ہے۔ عمران ریاض خان صاحب فرمانے لگتے ہیں" نو اپریل کی رات عمران خان صاحب کی ڈائری دیکھی اس کے پہلے صفحے پر خادمِ مدینہ لکھا ہوا تھا"۔ دو قدم آگے بڑھ کے دیکھیے تو نظر آتا ہے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فرماتے ہیں" نماز باقاعدگی سے ادا کرتا ہوں۔ چالیس سال کی عمر میں حج کر چکا ہوں۔ ہر نماز میں دعا مانگتا ہوں کہ مجھ سے کوئی غلط فیصلہ نہ کروانا"۔
مذہبی جماعتوں کی جانب سے مذہب بطور ہتھیار استعمال کرنے کا گلہ اس لیے کم ہی بنتا ہے کہ ان کی کُل سیاست ہی مذہبی اجارہ داری پر منحصر ہے۔ وہ تو یہی کچھ کریں گے اور چاہیں گے۔ مگر یہ سیاسی لیڈروں، یوتھیوبرز، انفلیونسرز، حکمرانوں، چیف صاحبان کی جانب سے ایسا رویہ سامنے آنا تشویشناک صورتحال کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ یہ سب صاحبان اگر معاشرے کو مذہبی بنیادوں پر مشتعل کرنے کی جانب چل پڑیں تو پھر اناللہ ہی پڑھی جا سکتی ہے۔ میں تو پڑھتا رہتا ہوں۔ آپ کا معلوم نہیں۔
کبھی کبھی بس سوچ کر ڈر سا لگنے لگتا ہے۔ اس سب کا انجام کیا ہے۔ کیا معاشرہ سدھار کی جانب جانے کی بجائے مزید انتشار کی جانب نہیں جا رہا، کیا جتھے قابض ہو کر فیصلے نہیں کروا لیتے۔ کیا یہی طریق ہے جس پر چلتے ہوئے قوم فلاح پائے گی۔ سوال تو بہت سے اُٹھتے ہیں بس دل کو دھڑکا سا یہ بھی لگ جاتا ہے کہ ایسے سوال اٹھاتے کہیں میں خود نہ اُٹھ جاؤں۔