Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Do Nizam

Do Nizam

دو نظام

جو بلوچ یا بلوچ گروہ (فراری) ریاست، آئین اور جمہوری ڈھانچے کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں یا ان کا عملاً مذاق اڑاتے ہیں ان کو تو ریاست وعدہِ وفاداری کے عوض تحریراً سات خون معاف کرکے گلے لگانے پر بھی آمادگی کا اعلان کرتی ہے۔ لیکن جو بلوچ نہ مسلح ہے، نہ علیحدگی پسند ہے، نہ دہشت گردی کی تعریف پر پورا اترتے ہیں انہیں یا تو غائب کر دیا جاتا ہے یا وہ کسی طرح اپنے پیاروں کے واسطے آواز اٹھانے کو اسلام آباد پہنچ ہی جائیں تو ان پر کریک ڈاؤن ہو جاتا ہے۔

دو رخی پالیسی، دو چہرے، دو نظام، اور ایک ہی طرح کی صورتِ حال پر دو موقف انفرادی معاملات میں تو چل جاتے ہیں لیکن ریاست یا ریاستی یونٹ بھی ایسی بدنیتی پر اتر آئیں تو پہلی ہلاکت ریاست اور اس کے اداروں پر عدم اعتماد کی ہوتی ہے۔ جب ریاست بھی بنیادی حقوق و فرائض کے وظیفے کو طاقت کے نسخے سے نتھی کر دے تو پھر اس میں اور لاقانونیت پر یقین رکھنے والے گروہ میں فرق کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے۔

پھر یہ پیغام نیچے تک پھیلتا چلا جاتا ہے کہ جائز مطالبات کو تسلیم کروانے کا راستہ بھی لاٹھی ڈنڈا بندوق تھامے بغیر نہیں کھل سکتا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جو ٹیکس نہیں دیتے وہ تو دندناتے گھومتے ہیں اور جو ٹیکس دیتے ہیں انھیں گدھا فرض کرکے کمر پر مزید ٹیکس لاد دیے جاتے ہیں۔

بلوچستان سے دہشت گردی کی خبر نہ آئے تو قومی میڈیا ویسے بھی اس صوبے کو گھاس نہیں ڈالتا۔ اگر پرامن مظاہروں اور دھرنوں پر پکڑ دھکڑ اور میڈیا بلیک آؤٹ سے بلوچستان میں امن و امان اور احساسِ محرومی بہتر ہو سکتا ہے تو پھر ہم سب کو ریاستی ڈانگ کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔ لیکن ہوتا یوں ہے کہ ایسے ریاستی ہتھکنڈوں سے ریاست بیزار انتہا پسندوں کو نیا خام مال مل جاتا ہے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو ریاست اگر کچھ نہیں دے سکتی تو اسلام آباد کی کڑکراتی سردی میں بلوچ لانگ مارچ کے شرکاء پر تشدد بھی کسی خیر پر انجام نہیں ہو سکتا۔ اگر مسلح بم بارود والے "مجاہدین" کے ساتھ ملوث عافیہ صدیقی کو قوم کی بیٹی بنایا جا سکتا ہے تو ماہ رنگ بلوچ نے آپ کا بگاڑا ہی کیا ہے باس؟

آخر آپ کب تلک بلوچستان یعنی رقبے کے لحاظ سے آدھے پاکستان پر تسلط قائم رکھنے کو وہاں بستے عوام کا جسمانی استحصال کر سکتے ہیں؟ بلوچستان کو میں نے اپنے سفروں میں دیکھا اور وہاں بستی عوام کے المیوں کا عینی شاہد ہوں۔

بلوچ دیہاتی خواتین کیا کچھ نہیں ‌ کرتیں۔ چودہ سال کی عمر میں ‌ شادی کرکے جب یہ پیا گھر سدھار جاتی ہیں ‌ تو گھر کا سارا کام انہی کے ذمے آ جاتا ہے۔ صبح ‌ہوتے ہی یہ کام پہ لگ جاتی ہیں، جو رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ کپڑے کشیدہ کاری کرتی ہیں، کپڑے دھوتی ہیں، کھانا بناتی ہیں، اور ہر صبح پلاسٹک کی گیلن پکڑے آٹھ دس کلومیٹر چل کر پانی لاتی ہیں۔ تیس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے بڑھاپا ان کے گھر کے دروازے پر دستک دے رہا ہوتا ہے۔

اکیسویں ‌ صدی نے کروٹ بدلی پر بلوچ عورتوں کی قسمت نہ بدلی۔ وہی ڈھول، وہی کنواں اور کنویں ‌ سے پانی نکالنے کی مہم جوئی۔ بسا اوقات کنواں خشک ہو جاتا ہے تو پانی کے حصول کے لیے ان خواتین کو دوسرے گاؤں یا کنوئیں کی جانب دس بارہ کلومیٹر کی مسافت پیدل طے کرنا پڑتی ہے۔ سروں ‌ پر بڑی بڑی منجلیں ‌ رکھ کر یا پلاسٹک کی گیلنوں میں گھروں ‌ تک پہنچایا کرتی ہیں۔

جہاں نہ صاف پانی ہو، نہ تعلیم و صحت کا مربوط نظام ہو، نہ معاشی سرگرمی ہو وہاں بلوچ مرد کیا کرے؟ احساسِ محرومی کے سائے میں پھلتی پھولتی ہوئی ایک نسل جوان ہوئی ہے۔ ایک جانب احساس محرومی، غربت اور بنیادی حقوق کی عدم دستیابی تو دوسری جانب تعلیم سے دوری۔ یہ وہ اسباب تھے، جنہوں ‌ نے بلوچ نوجوانوں ‌ کے ذریعہ معاش کا حصول ناممکن بنا دیا۔ بے چینی کی فضا قائم ہوئی۔ ریاست تو انہوں نے دیکھی نہیں تھی سو اپنی ریاست قائم کرنا چاہی۔ وہ ریاست جو پہلے صحت، تعلیم، پانی، بجلی، گیس کی صورت میں نظر نہیں ‌ آئی، اب وہ مقامیوں سے مزاحمت کرتی ہوئی نظر آئی۔ ریاست اور غیر ریاستی قوتوں کے مابین گوریلا جنگ کا آغاز ہوا۔

بلوچستان میں چلنے والی شورش نے ایک تناؤ کی کیفیت پیدا کی۔ طاقت کی اس جنگ میں جہاں ریاستی ادارے اور علیحدگی پسند تنظیمیں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ بسا اوقات ان کا نشانہ چوک جاتا ہے۔ نشانہ وہ افراد بن جاتے ہیں۔ جو اپنا دامن بچائے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جنگ چونکہ مسلط شدہ ہے، اس سے متاثر ہونا ہی ہونا ہے۔ سو اس کا نتیجہ نقل مکانی کی صورت میں نکلتا ہے۔ جنگ و جدل کی اس فضا سے متاثرہ خاندانوں کے خاندان نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔ نقل مکانی کا یہ سلسلہ ایک علاقہ یا ضلع تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے پورے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

بے سروساماں یہ لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ ٹھکانوں کی تلاش میں نکلے۔ بہت سارے آج بھی دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے۔ ان کے زخموں کا نہ مداوا کیا گیا اور نہ ہی انہیں شیلٹر فراہم کیا گیا۔ انہیں آج بھی ایسی صورتحال دکھائی نہیں دیتی جس سے وہ دوبارہ اپنے علاقہ میں آباد ہو جائیں۔ جہاں ان کی بچپن کی یادیں وابستہ ہیں۔

جنگ کی اس فضا میں گاؤں کے گاؤں ویرانے میں تبدیل ہو گئے۔ نقل مکانی کے منفی اثرات ابھی سے واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ جس کا اندازہ حالیہ مردم شماری کی نتائج سے بلوچ اور پشتونوں کی آبادی کے تقابلی جائزے سے لگایا جا سکتا ہے۔

جنگ و جدل کی اس فضا میں زیادہ نقصان وہ طبقہ اٹھا رہا ہے۔ جو جنگی ایندھن نہیں بننا چاہتا، سہانے خواب دیکھتا ہے، خوابوں کو آنکھوں میں سجاتا ہے۔ اپنی کمائی کو بچوں کی تعلیم و تربیت پہ خرچ کرنا چاہتا ہے۔ وہ وہی خواب دیکھتا ہے جو اس ریاست کا ہر باسی دیکھتا ہے۔ وہ ایک اچھے مستقبل کا خواہاں ہوتا ہے۔ وہ روز جینے کی تمنا لے کر اٹھتا ہے۔ لیکن شام ہوتے ہی امیدیں مایوسی سے دامن گیر ہوجاتی ہیں۔ ایک نیا المیہ جنم لیتا ہے۔

جنہوں نے ریاست کا سلوک سنگدل سوتیلی ماں جیسا اور چہرہ مسلح و باوردی دیکھا ہو ان لوگوں سے گلہ ہو تو کیا ہو؟ اور کیسی بدنصیبی پائی بلوچ نے کہ سردار ان کے اشرافیہ کا حصہ، وزیراعظم کاکڑ صاحب ان کے، چیف جسٹس صاحب ان کے اور پھر بھی شنوائی کے واسطے کوئی نہیں۔ ان دھرنا دئیے بلوچوں کے واسطے تو ایک ہی شعر لکھتے لکھتے یاد آیا ہے۔

نہ تیرگی سے نہ کسی روشنی سے پیدا ہوا

جو بس میں ہے وہ میری بے بسی سے پیدا ہوا

اور اپنی بے بسی یہ کہ آج سال کی سب سے لمبی رات تھی، جو بلوچستان کی پرنم یادوں میں جاگتے بیت گئی۔

Check Also

Ye Hath Sirf Likhte Nahi

By Amirjan Haqqani