Dil Ne Sarkar Khudkushi Kar Li
دل نے سرکار خودکشی کرلی
جس ریاست میں بنیادی تعلیم (پہلی تا میٹرک) منافع بخش کاروبار ہو اور جہاں ریاست نے تعلیم کا ٹھیکہ نجی سکولز کو دے رکھا ہو وہاں تعلیمی اداروں کی من مانی اور بدانتظامی کا گلہ کریں تو کس سے کریں؟
ایک اوسط معیار کے پرائیویٹ اسکول میں داخلے سے پہلے ہی ایپلی کیشن اور رجسٹریشن فیس کے نام پر پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپیہ اسکول کی تعلیمی قربان گاہ کے چرنوں میں دان کرنا پڑتا ہے۔ سونے پہ سہاگا کے مترادف سیکیورٹی ڈپازٹ بھی دینا پڑتا ہے۔ حالانکہ یہ ڈپازٹ قابل واپسی بتایا جاتا ہے مگر اسے کئی برس بعد تک یاد رکھنا اور پھر واپس لینا بھی جوئے شیر لانا ہے۔
فیس واؤچر میں عموماً دو ماہ کی ایڈوانس فیس درج ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر چارجز (بھلے کمپیوٹر ہو نہ ہو)، جنریٹر چارجز، پلاٹ چارجز (بھلے کرائے کی بلڈنگ ہو)، سیکیورٹی ارینجمنٹ چارجز (بھلے آٹھ آٹھ ہزار کے دو گارڈز ہی کیوں نہ ہوں)، سالانہ چارجز (جانے کس بات کے؟)، لائبریری چارجز (اللہ جانے چار برس کا بچہ کونسی لائبریری استعمال کرتا ہے) وغیرہ وغیرہ کہیں شامل ہے کہیں نہیں۔
آج فینسی ڈریس شو ہے لہذا آپ کے بچے کو بھالو بن کے آنا ہے (بھالو کا لباس اٹھارہ سو روپے میں فلاں فلاں دوکان سے دستیاب ہے)۔۔ آج سینڈوچ میکنگ ڈے ہے لہذا بچے کو ایک پلاسٹک مگ، پلیٹ، جوس کے ڈبے، بریڈ اور پنیر کے ساتھ بھیجیں۔ آج یہ ہے، کل وہ ہے، پرسوں فلاں ہے، ترسوں چناں ہے۔ لو جی والدین کا ہو گیا کلیان۔۔
اکثر پرائیویٹ اسکول اب کورس کی کتابیں، کاپیاں اور اسٹیشنری تک بہ اصرار خود فراہم کرتے ہیں۔ پہلی کلاس کے بچے کے والدین کو ان اشیا سے بھرے بیگ کے صرف چھ سے دس ہزار روپے ہی تو دینے ہیں۔ اس سے نہ صرف والدین کا قیمتی وقت بچتا ہے بلکہ اسکول کو بطور سپلائیر "معمولی" کمیشن بھی حاصل ہوتا ہے۔
یونیفارم صرف فلاں فلاں دکان پر ہی دستیاب ہے۔ سردیوں کا الگ، گرمیوں کا الگ۔ مگر اس سال یونیفارم کا رنگ لائٹ گرے سے ڈارک گرے کر دیا گیا ہے اور بچے کی قمیض پر کڑھا ہوا اسکولی مونو گرام بھی نیلے سے لال ہو گیا ہے۔ یہ نیا یونیفارم تو خریدنا ہی پڑے گا۔ نہیں خریدا تو ڈسپلن توڑنے کا سوال اٹھ سکتا ہے۔ ہاں ٹھیک ہے کہ آپ دس یا بیس یا تیس یا چالیس ہزار روپے ماہانہ فیس دے رہے ہیں لیکن بچے کے شناختی کارڈ کے تیس روپے اور چھ تصویریں بھی تو آپ ہی دیں گے۔
یقینا کئی پرائیویٹ اسکولوں کا معیار تعلیم سرکاری اسکولوں سے خاصا بہتر ہے اور تعلیمی نتائج بھی حوصلہ افزا ہیں۔ لیکن آمدنی میں سے انفراسٹرکچر پر کتنا خرچ ہو رہا ہے؟ نہ کوئی جاننا چاہتا ہے نہ بتانا۔ کم آمدنی والے علاقوں اور چھوٹے قصبات میں چار سو گز کی کرائے کی رہائشی عمارت کے مرغی خانوں میں انگلش میڈیم تعلیم کی گاجر لٹکا کے جو برائلر نسل تیار ہو رہی ہے وہ کس گراونڈ میں جا کے اپنے ہاتھ پاوں سیدھے کرے؟ والدین اور اسکولوں کے درمیان فیس واؤچر کے رشتے کے علاوہ بنیادی انسانی رشتہ کیسے بنے؟ اس بارے میں کوئی بھی نہیں بتاتا کہ کس کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے۔
جب سے اٹھارویں آئینی ترمیم نافذ ہوئی یہی نہیں معلوم پڑ رہا کہ تعلیم وفاق کی ذمے داری ہے کہ صوبے کی۔ اس کنفیوژن میں نجی شعبہ تاش کھیل رہا ہے۔ پرائیویٹ اسکولز ریگولیٹری اتھارٹی کا کاغذی وجود تو ہے مگر اس میں زندگی کا کوئی وجود نہیں۔ ویسے جو قوانین زندہ ہیں بھی وہ بھی کس کام کے؟ کہنے کو پرائیویٹ اسکولوں کی کارٹیلائزیشن کا معاملہ مسابقتی کمیشن آف پاکستان اور مفاد عامہ کے تحت وفاقی و صوبائی محتسب اعلی کے دائرے میں بھی آتا ہے۔ مگر یہ دائرہ کس کے دائرے میں آتا ہے؟ بوجھو تو جانیں۔۔
جب پچاس فٹ چوڑی گلی میں پانچ مرلے کے پلاٹ کی تین منزلوں میں بنے دس بائی آٹھ کے نو کمروں میں ایک سو سے زائد نونہالوں کو بارہ ہزار روپے ماہانہ پر کام کرنے والی کوئی بچاری مس فرخندہ تعلیم پلا رہی ہو اور اس مکان کے باہر بڑے سے بورڈ پر ہائیڈل برگ پبلک اسکول (آکسفورڈ ایجوکیشن سسٹم سے تسلیم شدہ) لکھا ہو تو کس سے پوچھیں کہ آکسفورڈ ایجوکیشن سسٹم کب ایجاد ہوا تھا؟
پھر بھی شکر کیجیے کہ آپ کا بچہ ان 65 لاکھ نونہالوں میں شامل نہیں جو روزانہ اسکول کو باہر سے دیکھتے گزرتے ہیں اور پھر جون ایلیا کے شعر مافق گزر ہی جاتے ہیں۔۔
اب سنورتے رہو بلا سے میری
دل نے سرکار خودکشی کرلی