Compromise To Karna Parta Hai
کمپرومائز تو کرنا پڑتا ہے
لگ بھگ رات کے بارہ کا وقت ہو گا۔ میرے گھر کے بالکل سامنے والے گھر میں ان کی بیٹی کی منگنی کی تقریب تھی۔ وہ چونکہ ہمسائے بھی ہیں اور میری بیگم کے ساتھ اس لڑکی کی دوستی بھی ہے لہٰذا بیگم اس تقریب میں مدعو تھی۔ یہ گھر کے اندر مختصر سی تقریب تھی۔ چند مہمان تھے۔ رات گئے تقریب ختم ہوئی تو بیگم گھر آتے ہی میرے پاس آئی۔ بولی " وہ ناں آپ میرے ساتھ ذرا سامنے والے گھر چلیں۔ دراصل آنٹی بہت پریشان ہو رہی ہیں۔
ان کی بیٹی ہے ناں جس کی ابھی منگنی ہوئی اس نے پریشان کیا ہوا ہے۔ اس کو سمجھائیں۔ وہ کہتی ہے کہ جس سے منگنی ہوئی وہ بہت موٹا ہے مجھے پسند نہیں آیا حالانکہ ایسی بات نہیں "۔ یہ کہتے ہوئے اس نے لڑکے کی تازہ تصویر مجھے اپنے موبائل پر دکھائی، پھر بولی " یہ دیکھیں اچھا بھلا تو ہے۔ آپ اسے سمجھائیں گے وہ سمجھ جائے گی"۔ میں نے بیگم کو جواب عرض کیا کہ بیگم ان کے گھر کا معاملہ ہے، میں کیوں خوامخواہ سمجھانے کا ٹھیکہ لے لوں؟ اس کے بڑے بزرگ سمجھائیں جنہوں نے رشتہ طے کیا۔
یہ سن کر اس نے کہا کہ بڑے بزرگ کون ہیں ؟ یتیم بچی ہے، صرف آنٹی ہیں یا اس کا ایک بھائی ہے جو دبئی میں برسرِ روزگار ہے۔ آنٹی نے ہی کہا ہے کہ مہدی کو کہو تو ہی آپ کو کہہ رہی ہوں۔ میں پھر بھی نہیں جانا چاہتا تھا مگر اک جانب بیگم کی ضد اور دوسری جانب یہ خیال آیا کہ آنٹی نے اگر کہا ہے تو حقوق ہمسائیگی ادا کر دینا چاہیئے۔ میں نے چلتے ہوئے کہا " بیگم، بات یہ ہے کہ بات زیادہ تم کرو گی۔
میں جہاں سمجھوں گا کہ مجھے کچھ اضافہ کرنا یا کہنا ہے تو کہہ دوں گا۔ وہ لڑکی ہے اس کے مستقبل کا معاملہ ہے لہٰذا میں کوئی زور نہیں ڈالنے والا کہ اب منگنی اگر آنٹی نے کر دی تو لازمی مان جاؤ۔ ظاہر ہے یہ اس کی دلی رضامندی والا معاملہ ہے۔ اگر وہ قائل نہیں ہوتی تو اسے پریشرآئز کرنے کی سوچنا بھی نہ"۔
صاحبو، بس یہیں سے اس کہانی کا آغاز ہوا جس کا انجام میرے لئے دل شکن سا تھا۔ وہاں پہنچے۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھے۔ اب سین کچھ یوں ہے کہ بیگم اور وہ لڑکی آمنے سامنے صوفے پر بیٹھے ہیں اور میں دونوں کے بیچ الگ سنگل صوفے پر، یعنی ایک تکون سے بنی ہوئی ہے۔ اب آپ گفتگو ملاحظہ فرمائیں ان دونوں کی۔
بیگم: دیکھو سائرہ! مجھے اور میرے ہسبنڈ کو تو لڑکا مناسب لگا ہے۔ اس کا وزن کوئی اتنا زیادہ تو نہیں۔ دیکھو! وہ تمہارا ہم عمر ہے شکر کرو۔ مجھے اور ان کو دیکھو ہماری عمر میں کتنا فرق ہے؟ ہاں مانا کہ یہ موٹے نہیں، وہ بھی وزن کم کر لے گا۔ کمپرومائز تو کرنا پڑتا ہے ناں۔ تم بھی کرو۔
سائرہ: مہدی بھائی اور آپ کی عمر کا فرق معلوم بھی نہیں ہوتا بینش باجی، دوسرا مہدی بھائی بولتے بھی کم ہیں۔ وہ تو بول بھی فر فر رہا تھا۔ مجھے ایسے باتونی لڑکے اچھے نہیں لگتے۔ لڑکے کو کچھ تو میچور ہونا چاہیئے ناں مہدی بھائی؟ (میری جانب دیکھتے ہوئے)۔
بیگم: رہنے دو یار! تم کو کیا بتاوں یہ گھر میں کتنا گند ڈالتے ہیں؟ باہر سے آتے ہی کتنا شور کرتے ہیں کہ پانی دو، ٹھنڈا شربت دو، چائے دو وغیرہ۔ اور ان کے کیمرے، ساز و سامان بھی میں ہی سنبھالتی ہوں۔ یہ تو صرف اپنی چیزیں ادھر ادھر پھیلاتے ہیں۔ کہیں موزے، کہیں شوز، کہیں لیپ ٹاپ پڑا ہے تو کہیں کچھ۔ ان کی میچورٹی کو رہنے ہی دو۔
سائرہ: بینش باجی! اتنا سب چل جاتا ہے مگر جس کے ساتھ ساری عمر بسر کرنی ہے وہ کچھ فٹ تو ہو، اوور ویٹ تو نہ ہو اور کم سے کم منگنی پر تو منہ بند رکھے۔ اتنا شوخا انسان اچھا ہوتا ہے کیا؟
بیگم: ارے یار! تم کو کیا پتا مرد کیسے ہوتے ہیں؟ ان کو ہی دیکھ لو یہ کیا کم شوخے ہیں ؟ میں بھی تو رہ رہی ہوں ناں۔ یہ بھی شوخے ہیں۔ جہاں کوئی خوبصورت لڑکی دیکھ لیں وہیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ اسے دیکھتے رہتے ہیں۔ دیکھو کچھ تو کمپرومائز کرنا پڑتا ہے۔ پرفیکٹ انسان تو کسی کو نہیں ملا کرتا ناں۔
سائرہ: بینش باجی! کمپرومائز تو میں کر لوں مگر کچھ دل کو بھی تو لگے۔ نہ اس کی زبان رکتی ہے اور نہ اس کا وزن کنٹرول میں ہے۔ مہدی بھائی آپ بتائیں میں کیا کروں؟
بیگم: زبان کی کیا بات کی۔ یہ جو ہیں یہ مجھے سارا دن چھیڑتے رہتے ہیں۔ ان کی زبان کونسا رک جاتی ہے؟ یہ ایسا ایسا طعنہ دیتے ہیں کہ عام انسان ویسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ مجھے پوچھو کہ ایک رائیٹر کی بیوی ہونا کیسا ہوتا ہے، تم کو کمپرومائز کا کیا پتا؟
سائرہ: بینش باجی جتنا وہ باتونی ہے اور جیسے وہ میرے ساتھ منگنی کے وقت صوفے پر بیٹھا جڑ رہا تھا مجھے لگتا ہے اس کے کئی چکر ہوں گے۔ اس کو اتنی تمیز بھی نہیں کہ تھوڑی سپیس دے کر بیٹھتا۔
بیگم: لو چکروں کی کیا بات کی تم نے۔ مرد ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ان کو ہی دیکھ لو ان کے کوئی کم چکر لگتے ہیں؟ اتنی لڑکیوں کے میسجز و کالز آتی ہیں ان کو۔ ہر وقت یہ موبائل سے چپکے ہوتے ہیں۔ جب دیکھو کسی نہ کسی لڑکی سے چیٹ ہو رہی ہو گی۔
میں ان دونوں کو شٹ اپ کال دینا چاہتا تھا مگر کیا کرتا۔ اک جانب بیگم مجھے ادھیڑے جا رہی تھی دوسری جانب سائرہ اپنا رونا رو رہی تھی جس کو سن کر بیگم اپنا شروع ہو جاتی۔ میں تو وہاں بس کوسنے سننے بیٹھا ہوا تھا۔ مجھے لگنے لگا کہ میری گیسٹ اپیرئنس کس کام کی؟ میں نے بیگم کو ٹوکنا چاہا کہ چلو اب واپس چلیں۔ دل میں سوچ رہا تھا کہ نشست اب ختم ہو۔ منگنی سائرہ کی اور باتیں مجھے۔
بیگم: آپ کیوں اٹھنا چاہ رہے ہیں۔ بیٹھیں ابھی اسے تو سمجھائیں ناں کچھ۔
میں: میرے سمجھانے کو اب کیا رہ گیا ہے بیگم؟ سب اعلیٰ اعلیٰ اور چنیدہ مثالیں تو آپ دے چکی ہیں۔
سائرہ: مہدی بھائی آپ بتائیں میں کچھ غلط کہہ رہی ہوں کیا؟
اس سے قبل کہ میں بولتا، بیگم گونجی۔
بیگم: ان سے کیا غلط صحیح پوچھ رہی ہو؟ میری بات سنو۔ ان کو غلط صحیح کا پتا ہوتا تو یہ گھر کے کاموں میں میرا ہاتھ نہ بٹاتے؟ الٹا یہ گند ڈالتے ہیں۔
سائرہ: بینش باجی مگر میرا دل نہیں مان رہا۔
بیگم: اوہو، ان کو دیکھو۔ جب کا رشتہ آیا اور میری آپی نے مجھے بتایا تو میں ان کی فین تھی۔ ان کو پڑھتی تھی۔ مجھے لگا یہ بہت سلجھے ہوئے انسان ہوں گے۔ اب دیکھو ناں یہ اچھے تو ہیں مگر بچے ہی ہیں۔ ان کو بھی مجھے ہی سنبھالنا پڑتا ہے۔ ہر وقت علامہ اقبال بنے رہتے ہیں۔ خیالوں میں گم۔ جب پوچھو جواب آتا ہے " میں کچھ سوچ رہا تھا"۔ یا میں کچھ لکھ رہا تھا۔
سائرہ: بینش باجی شکر کریں مہدی بھائی ڈیسنٹ انسان ہیں۔ بولتے بھی کم ہیں۔
بیگم: پھر بولنے کی بات کی۔ تم کبھی ان کی گھر میں جلے کٹے طعنے سنو۔ بولتے کم ہیں !
میں: آپ دونوں آپس میں سلسلہ کلام جاری رکھیں۔ مجھے اجازت دیں۔ میں ذرا گھر جا کر آئینے کے سامنے اپنے آپ پر غور کر لوں۔ رات کا 1 بج رہا ہے۔
بلآخر رات ایک بجے نشست تمام ہوئی۔ سائرہ نیم رضامند ہو گئی۔ بیگم اور میں گھر واپس لوٹے۔ میں آئینے کے سامنے کھڑا خود کو دیکھ رہا تھا۔ بیگم مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں نے آئینے سے جڑی اپنی مرحومہ ماں کی تصویر دیکھتے کہا " کیا اتنا برا ہوں میں ماں ؟"۔ بیگم کی آواز آئی " آ ہائے۔ میرے ستارے زمین پر "۔ یہ کہہ کر اس نے مجھے مسکراتے ہوئے دیکھا۔ " اگر میں ایسا نہ کہتی تو وہ کیسے سمجھتی کہ کمپرومائز کر کے ہی زندگی گزاری جا سکتی ہے؟ اس کو احساس تو دلانا تھا کہ کوئی شخص پرفیکٹ نہیں ہوتا "۔
پھر اس نے مجھے ہاتھ تھام کر کہا " آپ میرے لئے پرفیکٹ ہیں۔ میری زندگی کا محور ہی آپ ہیں۔ میرے والدین تو رہے نہیں، اور کون ہے میرا آپ کے علاوہ"۔ رات ڈیڑھ بجے اس نے چائے بنائی، ساتھ بسکٹ لائی۔ اس کا موڈ ایکدم فریش تھا۔ مجھے چائے کا کپ تھمایا، پاس بیٹھی۔
میں نے چائے کی چسکی لی اور کہا "یار ایک دو دن تک وہ عظمت کے ہاں چلنا ہے۔ وہ پھر بھابھی سے لڑ بیٹھا ہے۔ عظمت کو میں سمجھاوں گا کہ بیگم سے کمپرومائز کیا ہوتا ہے؟ تم بس سننا"۔ اس نے سنتے ہی قہقہہ لگایا " ہاں مجھے پتا تھا آپ کسی نہ کسی صورت بدلہ لے کر رہیں گے"۔