Circle Of Life
سرکل آف لائف
زندگی کا دائرہ یعنی سرکل آف لائف کیا ہے؟ کیچوا مٹی کھاتا ہے اور زرخیز بناتا ہے۔ پرندے کیچوا کھاتے ہیں، پرندوں کو شکاری کھا جاتے ہیں۔ چھوٹے شکاریوں کو بڑے شکاری کھا جاتے ہیں۔ بڑے شکاریوں کو بیماری اور زخم چاٹ جاتے ہیں اور پھر ان کو گدھ کھا جاتے ہیں۔ گدھ کو کثرتِ خوراک یا قلتِ خوراک کھا جاتی ہے اور پھر گدھ کا پنجر مٹی کھا جاتی ہے۔ موت سے زندگی اور زندگی سے موت جنم لیتی ہے۔ گویا زندگی کا دائرہ زنجیر سا ہے۔ اگر اس زنجیر میں سے سب سے چھوٹی کڑی کو بھی زنگ لگ جائے تو اس کا اثر بڑی کڑی کو کمزور کردیتا ہے اور یوں پوری زنجیر کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔
لیکن سرکل آف لائف میں معنی اور رنگ کون بھرتا ہے۔ شاید تضاد؟ سیاہ یوں سیاہ ہے کہ سفید سامنے کھڑا ہے۔ سچ کا وجود نہ ہو اگر جھوٹ مدِ مقابل نہ ہو۔ پانی کے بغیر خشکی کیسے سمجھ میں آئے گی؟ دنیا کی پوری آبادی کا آئی کیو لیول ایک ہوتا تو کیا ایسی دنیا ایک انچ بھی آگے بڑھ سکتی ہے؟ بے وقوفی کا وجود نہ ہو تو عقل مندی کو کون پوچھے؟ اگر سب مذکر ہوتا یا سب مونث ہوتا تو دنیا کتنے دن چلتی؟ محرومی نہ ہوتی تو کوشش اور مقابلے کا تصور کیوں پیدا ہوتا۔ مقابلہ نہ ہوتا تو ترقی کیوں ہوتی۔ شاید یہ سب تضادات ہی زندگی کو متحرک اور متوازن رکھنے والے انجن کا پٹرول ہیں۔
ظالم اور مظلوم کی لڑائی کیا یہ اختیار اور بے اختیاری کی لڑائی کے سوا بھی کچھ ہے؟ جب مظلوم غالب اور ظالم مغلوب ہو جاتا ہے تو پھر ایک نیا ظالم کیسے وجود میں آ جاتا ہے۔ کیا تمام انسان کسی ایک ظالم یا ایک مظلوم پر کبھی متفق ہو سکے یا سکیں گے؟ ہر ایک کا باطل اور ہر ایک کا حق، ہر ایک کی سچائی اور ہر ایک کا جھوٹ اتنا الگ الگ کیوں؟ اچھا یہ کیوں کہا گیا کہ بے شک انسان ناشکرا ہے اور یہ کیوں کہا گیا ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے اور پھر یہ کیوں کہا گیا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ شاید تضاد سے پیدا ہونے والی کشمکش ہی زندگی ہے۔
جب کوئی فرد، سیاسی یا مذہبی گروہ یا ریاست قدرتی توازن کو بدل کے اپنی مرضی کا توازن بنانے اور نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اسی دن سے لڑ کھڑانا شروع کردیتے ہیں۔ مگر اس کیفیت سے نکلنے کے لیے بھی سوچ اور عقل کی لاٹھی پکڑنے کے بجائے گھبراہٹ میں ہاتھ پاؤں مارنے کی عادت نہیں جاتی اور پھر بچاؤ کے لیے ہاتھ پاؤں الٹے سیدھے پڑنے کے سبب اپنی ہی بنائی دلدل میں دھنسنے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ زوال اور عروج کا چکر یہی ہے۔
میں شاید لکھنا چاہتا تھا کہ جب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے بائیں بازو کے خلاف اپنی پوری توانائیاں صرف کر دیں تو پھر دائیں بازو کے خلاف کوئی متبادل قوت (کاؤنٹر فورس) یا جوابی نظریہ (کاؤنٹر نیریٹو) باقی نہ رہا۔ یوں وفاقی و سماجی ترازو کے سیاسی و مذہبی پلڑے پوری طرح ایک طرف کو جھک گئے۔ جب اسٹیبلشمنٹ نے پوری قوت لگا کر بائیاں بازو یا لیفٹ کی جماعتوں کو کچل دیا تو پھر کوئی متضاد قوت باقی نہ رہی۔ پھر سی سا جھولے کے ایک جانب صرف دایاں بازو رہا اور دوسری جانب کے پھٹے پر ریاست اور اس کے لوگ بیٹھے ہوا میں معلق رہے۔ خوشی خوشی چڑھ تو گئے تھے۔ اب خوشی خوشی اتارتا کون؟
دائیں بازو کا منشور اقتداری خواہش کا منشور ہوتا ہے۔ ہر حال میں طاقت میں رہنے اور طاقت کو برقرار رکھنے کے ساتھ مسلسل بڑھانے، سماج کو معاشی طبقات میں تقسیم کرکے بااثر طبقات کو اپنے ہمراہ رکھنے، مذہب سے لیکر لوگوں کے نجی و کاروباری معاملات کو کنٹرول کرنے، مخالف کو ہر طرح سے کچلنے، خود کو مقدس اور ان ٹچ ایبل بنانے، اپنے سوا ہر انسان کو درجہ دوم کا سمجھنے کا ہوتا ہے۔
مگر زندگی کا دائرہ جامد تھوڑی ہوتا ہے۔ خدا نے وہ وقت لا دکھلایا کہ ایک دائیں بازو کی جماعت ہی اپنی مرضی کا توازن لانے کے لیے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ٹکر رہی ہے۔ کچھ دوست کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پاکستان میں نارتھ کوریا ماڈل لانے کی طرف جا رہی ہے اور تحریک انصاف ماضی میں فیض کے فیض سے نارتھ کوریا سے مشابہہ صدارتی ماڈل لانے کے منصوبے پر تھی تو دونوں کی سوچ میں فرق کیا ہوا۔ عرض ہے کہ دائیں بازو کو آپس میں سیٹل کرنے دیجئیے۔ اسی معرکے سے حقیقی لیفٹ بھی اُبھر آئے گا۔
بیشک خدا بڑا مسبب الاسباب ہے۔