Cheema Sahib
چیمہ صاحب
کبھی کبھی سفر میں مختصر لمحات کے لیے ایسے انسان ملتے ہیں جن کی چھاپ تادیر رہتی ہے۔ نیوزی لینڈ میں مجھے پاکستانی نژاد ایک چیمہ صاحب ملے۔ دو تین گیس سٹیشنز کے مالک تھے۔ بیس سال سے وہیں سیٹل ہیں۔ اول اول تو سچ پوچھئے میں شرماتا رہا کہ ان سے کیا بات کروں کیونکہ عمر میں کافی فاصلہ تھا مگر جب بات شروع ہوئی تو لگا چیمہ صاحب تو دل سے ٹین ایجر ہیں۔ وہ چائے پر ہونے والی مختصر سی ملاقات تین چار گھنٹوں میں ڈھل گئی۔
عید مبارک کے پیغامات موصول ہونے لگے تو چیمہ صاحب کو خیر مبارک کا جوابی میسج بھیجا۔ پھر میسج آیا کہ نیوزی لینڈ آ جاؤ۔ میں نے کہا چیمہ صاحب اے میرے جڑے ہوئے ہتھ ویکھو۔ میرے کہنے کا مقصد تھا کہ بہت دور ہے لگ بھگ بیس گھنٹے تو جہاز میں لگ جاتے ہیں، دوجا چھٹیاں بار بار تو نہیں ملتیں۔ انہوں نے فوراً جواب دیا "پاسپورٹ نمبر یا فرنٹ پیج کی فوٹو بھیجو میں ٹکٹ بھیجتا ہوں"۔
خیر ان کا معذرت کے ساتھ شکریہ تو ادا کیا مگر کہنے کا مدعا یہ تھا کہ سفر میں آپ کو بڑے اچھے انسان مل جاتے ہیں۔ برے بھی مل جاتے ہیں آخر دنیا ہے مگر بہت کم۔ یا کم از کم مجھے ایسے نہیں ملے۔ اس سے مجھے ان کی داستان یاد آ گئی جو ان کی اجازت سے لکھ رہا ہوں۔ بس ان کو ٹیگ نہیں کروں گا کیونکہ یہ انہوں نے کہا کہ تم نے لکھا تو لوگ میری پروفائل پر آنے لگیں گے اور مجھے یہ نہیں چاہئیے۔
گجرات کے نواح میں ایک گاؤں ہے جہاں انہوں نے زندگی کے پہلے چالیس سال زمینداری میں بسر کیے۔ ایک روز ان کے والد اور بھائی کا کسی معمولی بات پر زبانی کلامی جھگڑا ہوگیا۔ بات آئی گئی ہوگئی مگر مخالف پارٹی نے اس کو نہیں بھُلایا۔ ایک دن ان کے والد، بھائی اور بھائی کے بیٹے کو راہ چلتے قتل کر دیا گیا۔ والدہ پہلے ہی انتقال کر چکی تھیں۔ ایک ہی دن میں ساری فیملی چلی گئی۔ چونکہ خاندانی طور پر یہ مضبوط تھے اس واسطے برادری نے قصاص لینے کا فیصلہ کیا۔ جنہوں نے قتل کیے تھے وہ بھی اب بری طرح پھنس چکے تھے لہٰذا وہ اپنی جان چھڑانے کو کچھ بھی دینے کو تیار تھے۔ لیکن برادری قتل کے بدلے قتل چاہتی تھی دیت نہیں۔
چیمہ صاحب نے یہ صورتحال دیکھی تو گھر بار و برادری کی جہالت پر دو حرف بھیجے۔ پاکستان چھوڑ کر عرب امارات چلے گئے۔ بعد ازاں زمینیں بیچیں اور کسی طرح نیوزی لینڈ پہنچ گئے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا قاتلوں کو معاف کر دیا تھا؟ اگر برادری کا مطالبہ نہیں ماننا تھا تو پھر دیت لینے میں کیا حرج تھا؟ بولے "کیا مل جاتا اس سے؟ میرا گھر تو ختم ہوگیا تھا۔ اگلوں کا بھی ہو جاتا۔ ایک دن ان کی دادی اور اماں (مخالفین کی) اچانک میرے گھر آ گئیں تھیں اور اپنے ڈوپٹے میرے پاؤں میں رکھ دئیے۔ مجھے اس دن بہت شرم آئی اور اسی دن میں نے فیصلہ کر لیا کہ پاکستان نہیں رہنا۔ "
پھر میں نے پوچھا "تو ساری دنیا چھوڑ کر نیوزی لینڈ کیسے دل کو لگا؟" بولے کہ یہ بھی الگ داستان ہے۔ پینتالیس سال کی عمر میں میں نے شادی کی اور وہ یہیں کی تھی۔ جب میں یہاں پہنچا تھا تو وہ میری مکان مالک تھی۔ میری انگریزی نہ ہونے کے برابر تھی بس اتنے ہی جملے یا لفظ بولنا آتے تھے جن سے گزارہ ہو جائے۔ رفتہ رفتہ کچھ زبان کی سمجھ آنے لگی اور کچھ اس نے مجھے سکھایا۔ ہمارا مزاج مل گیا تو بس شادی ہوگئی۔ آٹھ سال قبل اس کا انتقال ہوگیا۔ بچے کوئی ہیں نہیں تو بس گزر رہی ہے اکیلے سکون میں۔ "بیوی کا ذکر کرتے وہ ذرا جذباتی ہو گئے تھے۔ میں کچھ دیر چپ رہا اور کافی پیتا رہا۔
"تو آپ کو کبھی یہ نہیں خیال آیا کہ واپس گاؤں چلا جاؤں؟ وہاں کزن وغیرہ ہیں۔ خاندان ہوگا؟"
قہقہہ لگاتے بولے "بخاری صاحب، وہ میرے بارے یہ کہتے ہیں کہ تم ڈرپوک بزدل ہو۔ تمہاری وجہ سے ہماری ناک مٹی میں مل گئی۔ تم نے زمینیں بھی بیچ دیں اور بھاگ گئے۔ واپس کس کے پاس جانا ہے؟"
میں نے پھر سُن کر توقف کیا۔ پھر پوچھا "تو یہاں جو بزنس ہے آپ کا وہ کون دیکھتا ہے؟ اور آپ کے بعد کیا ہوگا؟" بولے "یہ مجھے سکون ہے کہ میرے بعد یہ بزنس سٹیٹ اون کر لے گی اور اس کی کمائی ویلفئیر کے لیے وقف ہوگی۔ یہی میری will ہے۔ "
باتوں میں کئی گھنٹے بیت گئے تھے۔ مجھے ایک دوسرے شہر ڈرائیو کرکے پہنچنا تھا۔ جب اُٹھنے لگا تو میں نے ہنستے ہوئے کہا "چیمہ صاحب آپ کی داستان پر میں کبھی ناول لکھوں گا۔ جب کبھی دوبارہ آنا ہوا تو تفصیلی نوٹس لوں گا" (میرا مقصد موڈ لائٹ کرنا تھا)۔ ویسے ہی ہنستے ہوئے جواب آیا "آپ کو چار سال سے دیکھ رہا ہوں۔ اپنی کتابوں کے بارے آپ سنجیدہ ہوتے ہی نہیں۔ میرے پر ناول لکھنے کی باری آنے تک آپ نے میری عمر تک پہنچ جانا ہے"۔
شیکسپئیر نے کہا تھا "دنیا ایک سٹیج ہے"۔ ہر روز ایک پردہ اُٹھتا ہے۔ ہر رات گرتا ہے۔ ہر انسان داستان ہے۔ ہر ایک شخص اپنی کہانی کا مرکزی کردار ہے۔ انہی داستانوں میں سانس لیتے دن بیت جاتے ہیں، بیت رہے ہیں۔ زندگی اور موت پوائنٹ اے سے پوائنٹ بی تک کا سفر ہے اور پھر انسان ساری کہانیاں سمیٹ کر مٹی میں اُتر جاتا ہے۔ پردہ گر جاتا ہے۔ میرے واسطے سفر عشق کی داستان ہے۔ ایک رومانس کا تعلق ہے جو بندے کا قدرت سے ہوتا ہے۔
انہی سفروں میں مال و متاع بھی اپنی کمائی کا صرف ہوتا ہے۔ کبھی کبھی میں دلگیر بھی ہو جاتا ہوں۔ کبھی یوں بھی ہوتا رہا ہے کہ کچن کے اخراجات بھی سفر پر لگا کر Suffer کرتا رہا ہوں۔ مجھے بس ایک جگہ جامد نہیں ہونا تھا۔ اور اب جب سب سیٹل ہے، معاش و معیشت کی گاڑی ایک رفتار سے دوڑ رہی ہے تو اب کون رکنا چاہے گا۔ ہاں، کبھی پلٹ کے ماضی کو دیکھوں تو دل ڈوبنے لگتا ہے کہ کیسی کیسی کھٹنائیوں کو عبور کرتا رہا ہوں اور چلتا رہا ہوں۔
جو جسم کا ایندھن تھا
گلنار کیا ہم نے
وہ زہر کہ امرت تھا
جی بھر کے پیا ہم نے
سو زخم ابھر آئے
جب دل کو سیا ہم نے
کیا کیا نہ مَحبّت کی
کیا کیا نہ جیا ہم نے
اور دل سے کہا ہم نے
رکنا نہیں درویشا
یوں ہے کہ سفر اپنا
تھا خواب نہ افسانہ
آنکھوں میں ابھی تک ہے
فردا کا پری خانہ
صد شکر سلامت ہے
پندارِ فقیرانہ
اس شہرِ خموشی میں
پھر نعرۂ مستانہ
اے ہمّتِ مردانہ
صد خارہ و یک تیشہ
اے عشق جنوں پیشہ۔