Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Bhook Ka Koi Mazhab Nahi Hota

Bhook Ka Koi Mazhab Nahi Hota

بھوک کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

آج دفتر سے واپس گھر آتے اپنی رہائشی سوسائٹی سے ذرا باہر ایک چھلی بیچتا بابا نظر آیا تو میں نے بریک لگا لی۔ مجھے بھٹہ ویسے بھی پسند ہے یوں بھی کھائے کافی عرصہ بیت چکا ہے۔ میں نے سوچا گھر لے چلیں۔ بابا جی کو کہا کہ چار عدد بھٹے مصالحہ لگا کر شاپر میں ڈال دیں۔ بابا جی نے دہکتے کوئلوں میں سے بھٹے نکالے اور چھلکے اتار کر ان کو مصالحہ لگانے کی تیاری کرنے لگے۔ اتنے میں ایک موٹرسائیکل سوار آن رکا۔ مرد نے پیچھے اپنی بیوی اور آگے ٹینکی پر تین بچے بٹھا رکھے تھے۔ یعنی فلی لوڈڈ بائیک تھی۔

اس نے پانچ چھلیوں کا آرڈر دیا۔ بابا جی ابھی میرے بھٹے بنانے میں مصروف تھے۔ کچھ لمحوں بعد بائیک والا مرد بولا " پانچ کے کتنے پیسے؟"۔ بابا جی بولے" تین سو روپے"۔ مرد نے کہا " اتنے مہنگے؟" بابا جی بولے " پتر مہنگائی وچ میرا قصور تے نئیں۔ سٹھ روپے دی ویچنا آں۔ "۔ مرد نے شرٹ کی اوپر والی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ کچھ پیسے برآمد ہوئے۔ ان کو گنا اور پھر واپس رکھتے بولا" تین سو نہیں ہیں رہنے دو۔ "۔ بابا جی نے اسے دیکھا" توں پنجاہ روپے دے دے پتر جے نئیں ہے گے۔ ڈھائی سو دے دے"۔ مرد نے پھر انکار کیا اور چلنا چاہا۔ بائیک کی ٹینکی پر بیٹھے تینوں بچے ضد کرنے لگے۔ ایک رونے لگ گیا۔ مرد نے روتے بچے کو چماٹ ماری۔ اسے زور کا جھٹکا دے کر سیدھا کرکے ٹینکی پر فٹ طریقے سے بٹھایا اور گئیر لگا کر چلنا چاہا۔ میں نے اسے بازو سے روک لیا۔

اپنے تین بھٹے جو بابا جی تیار کر چکے تھے وہ اٹھائے اور ان تینوں بچوں کو دینے لگا۔ مرد بولا " بھائی نہیں چاہئیے آپ کو کیا مسئلہ ہے"۔ میں نے اس کا غصہ دیکھتے ہنستے ہوئے اسے کہا " استاد، تینوں تے نئیں دے ریا۔ توں اپنا تے بھابھی دا آپ خرید۔ بچیاں نوں دے ریا اپنی خوشی نال۔ مینوں بچے چنگے لگدے۔ "۔ وہ پھر چپ رہا اور پھر چل دیا۔

میں نے بابا جی کو کہا کہ تین مزید لگا دو۔ بابا جی بولے "مہنگائی نے مار چھڈیا غریب بندے نوں۔ بندہ کی کرے۔ بچیاں نوں روٹی کھوائے کہ چھلی۔ "۔ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا " بابا تیرے وی بچے ہے گے؟ او کی کردے؟"۔ بابا بولا " نہ پتر، میری اولاد کوئی نئیں ہوئی۔ اسی بس دو جی ہے گے۔ کدی چھلی ویچ لئی کدے جامن کدی کُش کدی کُش۔ بس اینج ای عمر لنگ گئی۔ "۔ مجھے بابا جی کو سات چھلیوں کے پیسے دینا تھے۔ ہزار کا نوٹ دیا۔ بابے نے جیبوں سے پیسے نکالے اور گننے لگا۔ دس بیس اور سو کے ایک دو نوٹ تھے۔ بقیہ اس کے پاس نہیں تھا۔ کہنے لگا کہ میرے پاس باقی نہیں ہیں تم ٹوٹے ہوئے دو یا ہزار کا نوٹ تڑوا کے لے آؤ۔ میں اِدھر ہی ہوں۔ یہ دیکھ کر اسے کہا " بابا جی تسی ہزار رکھو۔ میں وی ایتھے ای رہندا آں۔ کل واپسی تے لے لاں گا"۔ حالانکہ میں نے اب اس سے واپس نہیں لینے۔

یہ سڑک کنارے چھوٹی موٹی اشیاء بیچتے بوڑھے لوگ اپنی خوشی سے اس گرمی میں مشقت نہیں کرتے۔ زندگی بہت اوکھی ہے۔ پیٹ کی آگ کے سامنے سورج کی تپش مدھم پڑ جاتی ہے۔ ہمارا مڈل کلاس طبقہ سفید پوشی کا بھرم رکھتا تھا وہ بھی پِٹ چکا ہے۔ ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پچھلے دو سالوں میں ڈیڑھ کروڑ لوگ مزید خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں اور مجموعی طور پر اس ملک کی آبادی کا چالیس فیصد طبقہ خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔ غربت اپنے ساتھ احساس محرومی ہی نہیں لاتی بلکہ ناقابل برداشت غصہ، چڑچڑاپن، جہالت اور جرائم بھی لاتی ہے۔ ایسے معاشروں میں جو اگلی نسلیں تیار ہوتیں ہیں ان کا مذہب صرف چھینا جھپٹی ہوتا ہے۔ بھوک کا اور کوئی مذہب نہیں ہوتا۔

Check Also

Tufaili Paude, Yateem Keeray

By Javed Chaudhry