Bheek Industry
بھیک انڈسٹری
پاکستان میں انتہا درجے کی بے روزگاری ہے۔ جن بے چاروں میں انسانی اسمگلروں یا ویزا ایجنٹوں کے ہتھے چڑھنے کی ہمت باقی ہے، وہ اپنا سارا مال و اسباب اور مستقبل گروی رکھ کے یا تو پار لگ جاتے ہیں یا پھر ڈوب جاتے ہیں۔ جو یہ سب نہیں کرسکتے، وہ اپنے ہی ملک میں جوتیاں چٹخانے کے ساتھ ساتھ کسی شارٹ کٹ کی تاک میں لگے رہتے ہیں۔ چنانچہ حالات یوں ہیں کہ اگر ایک سرکاری نائب قاصد رکھنے کا اشتہار شائع ہوتا ہے تو اس کے لیے اوسطاً پانچ ہزار درخواستیں آنا معمول کی بات ہے اور ان میں سے بہت سے درخواستی ماسٹرز کی ڈگری رکھنے والے بھی ہوتے ہیں۔
ادنی درجے کی بیشتر سرکاری ملازمتیں ممبران اسمبلی کے ہاں گروی یا بابوکریسی کے ہاں فروخت ہوتی ہیں۔ امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے اکثر بااثر و بااختیار اصحاب نے بے روزگاری کی منڈی میں ٹاؤٹ اور دلال چھوڑ رکھے ہیں جو اپائنٹمنٹ لیٹر جاری کروانے کا جھانسہ دے کر امیدواروں سے پیسے وصول کرکے اوپر تک پہنچاتے ہیں اور یوں قابلیت و قسمت کرنسی نوٹوں کی قربان گاہ پر چڑھ جاتے ہیں۔
کسی زمانے میں ریلوے، اسٹیل ملز اور پی آئی اے وغیرہ ہر سیاسی و غیر سیاسی حکومت کی ملازمتی چراگاہ تھے۔ جسے بھی احسان مند کرنا مقصود ہوتا اسے ان تینوں میں سے کسی ایک ادارے کا تقرر نامہ جاری ہوجاتا، بھلے وہ متعلقہ کام کرنے کی اہلیت و صلاحیت رکھتا ہو یا نا رکھتا ہو۔ تینوں اداروں پر اتنا بوجھ ڈالا گیا کہ بالاخر وہ دیوالیہ ہو کر ایسے سفید ہاتھی بن گئے جنہیں چلانا تو درکنار صرف کھڑا رکھنے کے لیے اس وقت اربوں روپے کا چارہ ڈالا جا رہا ہے۔
اب سرکاری سیکٹر میں جو آخری بڑی چراگاہ بچی ہے، وہ تعلیم کا شعبہ ہے۔ جو کہیں نہیں کھپ سکتا، اسے ٹیچر بنا دیا جاتا ہے۔ لیکن اس محکمے میں بھی حالات اس نہج پر آگئے ہیں کہ من پسند پیسے دینے کے باوجود ضمانت نہیں کہ ملازمت مل جائے گی اور نا ملی تو پیسے واپس مل جائیں گے۔
سرکاری ملازمتیں فروخت کرنے کی وبا کسی ایک صوبے تک محدود نہیں بلکہ ملک گیر ہے۔ محکمہ تعلیم کے بعد اس وقت دوسری بڑی سرکاری روزگاری چراگاہ پولیس کا محکمہ ہے۔ ابتدائی بھرتی سے لے کر تربیت پانے کے مراحل کے بعد کامیابی کا سرٹیفیکیٹ لینے تک، ترقی و تبادلے سے جرات و بہادری کا انعام اور پنشن لینے تک ہر سیڑھی کرنسی نوٹوں سے بنی ہوئی ہے۔ مگر صرف پیسہ ہی پولیس میں ملازمت نہیں دلوا سکتا۔ امیدوار کی کمر پر کسی سیاسی شخصیت کا ہاتھ ہونا بھی ضروری ہے۔
اس قدر بے روزگاری اور کرپشن کی دنیا میں لاکھوں افراد پر مشتمل ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ہمیشہ اپنی مظلومیت کا ڈھول پیٹتا رہتا ہے۔ اپنی قسمت اور زمانے کو کوستا رہتا ہے۔ لیکن اگر اسے کہا جائے کہ جب تک تمہیں ملازمت نہیں ملتی وہ کام میرے لیے کر لو جو تم کر سکتے ہو تو پھر دکھائی دیتا ہے اس بیروزگار کا روزگاری روپ۔
جب وہ بادلِ نخواستہ آپ کے ہاں کام شروع کر دیتا ہے تو دو چار روز کے بعد ہی اس کا رویہ کچھ یوں ہوجاتا ہے کہ گویا آپ نے اسے رکھ کے نہیں بلکہ اس نے آپ کی ملازمت قبول کرکے احسان کیا ہے۔ دوسرے ہی ہفتے سے ایک دن آمد ایک دن ناغے کی کہانی شروع ہوجاتی ہے۔ آج یوں نہیں آیا کہ یوں ہوگیا تھا، کل یوں نہیں آ سکتا کہ یوں کرنا بہت اہم ہے۔ چنانچہ ایک دن آپ ہاتھ جوڑ کر کہتے ہیں کہ بھائی آج سے تو آزاد ہے۔
تازہ مثال ہے۔ تین ماہ قبل مجھے میرے آفس کے باہر ایک نوجوان کاندھے پر کپڑا ڈالے ملا اور اپنی بیروزگاری کا رونا رونے لگا۔ میں نے اس سے تعلیم پوچھی تاکہ ہو سکے تو اسے کسی آفس میں کلیننگ یا رنر کی جاب کروا سکوں۔ معلوم ہوا کہ مڈل بھی پاس نہیں ہے۔ خود بولا کہ میں روز گاڑی صاف کر سکتا ہوں۔ آپ مجھے ماہانہ تنخواہ دے دیں تو روز گاڑی صاف کیا کروں گا۔ اس کی مجبوری کو دیکھتے میں نے حامی بھر لی اور اس کی ماہانہ تنخواہ دس ہزار روپے مقرر کر دی۔ اس کو روزانہ گاڑی صاف بھی نہیں کرنا تھی۔ پانچ ورکنگ ڈیز میں دو بار دھونا یا گیلے کپڑے سے صاف کرنا تھی۔ ماہ میں آٹھ بار بس۔ صرف یہی نہیں میرے ایک کولیگ نے بھی اسے یہی کام دے دیا۔ یعنی بیس ہزار روپے ماہانہ اسے ملنے لگے۔
کسی بھی سروس سٹیشن سے گاڑی فل سروس کرانے کی قیمت آٹھ سو روپے آ جاتی ہے۔ ماہ میں کوئی بہت ہی ریگولر دھلوانے والا ہو تو آٹھ بار سے زائد نہیں دھلواتا۔ سروس سٹیشن والے تو اندر سے بھی صاف کرتے ہیں اور پراپر ٹولز کے ساتھ کرتے ہیں۔ اس نوجوان کو صرف گیلے کپڑے سے بیرونی باڈی ہی صاف کرنا تھی۔ بہرحال، وہی بہانے شروع، کبھی یوں ہوگیا تو کبھی ووں ہوگیا۔ کبھی آدھ ادھوری سی پونچھ جاتا کبھی ٹھیک طرح سے دھو جاتا۔ الغرض تین ماہ اس کو دیکھا اور بلآخر میں نے معذرت کر لی۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ یہ کام نہیں چاہتا صرف بھیک چاہتا ہے۔ کولیگ نے ایک ماہ کے بعد ہی اس سے معذرت کر لی تھی اور مجھے کہہ دیا تھا کہ یہ لڑکا کام نہیں کرنا چاہتا اس کو بیکار میں اجرت نہ دو۔ خیر، میں نے سمجھتے ہوئے بھی جاری رکھا۔
ان حالات میں اس وقت جس نجی شعبے میں سب سے زیادہ لوگ کام کررہے ہیں، وہ بھیک انڈسٹری ہے۔ آج اس نوجوان کو میں نے ایل ڈی اے چوک کے مصروف اشارے پر ہاتھ میں پانی کی بوتل تھامے اور کاندھے پر گاڑی صاف کرنے کو کپڑا ڈالے دیکھا۔ جیسے ہی وہ میری ونڈ اسکرین کی جانب پانی ڈال کر صاف کرنے کو بڑھا، اس کی نظر مجھ پر پڑی اور پھر وہ آنکھیں چرا کے نکل گیا۔
یہ اسٹیل مل، ریلوے، پی آئی اے سمیت سرکاری محکمے اور سماج یونہی برباد نہیں ہوا ہے۔ اس میں لوگوں کی بے کاری بھی بہت تھی۔