Bas Chal Raha Hai
بس چل رہا ہے
کچھ اشیاء ضروریہ وقت کے ساتھ آپ کی بنیادی ضرورت بن جاتی ہیں یہ لگژری نہیں رہتیں۔ مثال کے طور پر مجھے سفر میں پیش آنے والے موسمی حالات یا سردی کے سبب ایک یا دو ایسی جیکٹس کی ضرورت ہوتی ہے جو لائٹ ویٹ یعنی کم وزن ہوں اور وہ سردی سے مکمل حفاظت دے سکیں۔ مملکت خداداد نے چونکہ ایسی کوئی پراڈکٹ بنائی ہی نہیں جس پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کیا جا سکے یا جس کی پائیداری پر یقین ہو اس واسطے مجبوری ہے کہ بیرونی پراڈکٹس کی جانب دیکھا جائے۔ نارتھ فیس یا کولمبیا یا پیٹاگونیا یا کٹھمنڈو کی جیکٹس گو کہ بہت مہنگی ہوتیں ہیں مگر کیا کیجئیے۔ لینا مجبوری ہے۔
اسی طرح شوگر کے سبب مجھے اپنے پاؤں کی حفاظت کرنا بہت ضروری ہے۔ سارا سارا دن سفر میں چلنا ہوتا ہے یا مسلسل ڈرائیو کرنا ہوتی ہے۔ میں ایسے شوز پہننے کا رسک افورڈ ہی نہیں کر سکتا جو پاؤں کو خراب کریں یا چھالے بنانے لگیں یا زخم۔ شوز میں پھر سے لائٹ ویٹ اور آرامدہ شوز کی خاطر بیرونی پراڈکٹس کو دیکھنا پڑ جاتا ہے۔ پاکستان نے باٹا، ہش پپیز اور اس جیسے دیگر برآنڈز تو بنائے ہیں مگر یہ سب آرامدہ نہیں ہیں۔ میں نے ان سب کو استعمال کرنے کے بعد وہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ باہر کی پراڈکٹ مہنگی پڑتی ہے مگر ہوتی اچھی ہے جو آپ کی ضرورت کے عین مطابق ہوتی ہے۔ شوز میں سکئچرز، آل برڈز، نیو بیلنس، نارتھ فیس اور نائیکی و ایڈیڈاس ہی بہترین لگتے ہیں۔ ان کے insole اور outer sole معیاری اور آرامدہ ہوتے ہیں۔
میں چونکہ بیرون ممالک سفر کرتا رہتا ہوں اس واسطے ان اشیائے ضروریہ کو وہیں سے خرید لیتا ہوں۔ ایک تو وہاں سیل میں قدرے بچت میں مل جاتیں ہیں دوجا اصل تو مل جاتیں ہیں۔ پاکستان میں چائنہ کاپی، ریپلکا اور فرسٹ کاپی کو جینون کہہ کر بیچ دیا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں مجھے نجانے کس کیڑے نے کاٹا کہ مجھے ایک مشہور زمانہ شوز کی ویب سائٹ دیکھتے ہوئے خیال آیا کہ اس کی ساکھ تو اچھی ہے اور اس کے پاس ایک اچھے بین الاقوامی برآنڈ کے نئے شوز بھی سٹاک میں موجود ہیں تو یہیں سے لے لوں۔
میں نے دو شوز آرڈر کیے اور ان کی ایڈوانس پیمنٹ اپنے ڈیبٹ کارڈ سے ادا کر دی۔ ایک شو کی قیمت ساڑھے اٹھارہ ہزار تھی دوسرا ٹریل ہائکنگ شو تھا جس کی قمیت تیس ہزار تھی۔ خیر، چار دن گزر گئے مگر شوز کا کوئی اتا پتہ ناں ملا۔ میں نے ہیلپ لائن پر کال کرکے معلوم کرنا چاہا کہ میرا پارسل آخر کب ملے گا تو مجھے بتایا گیا کہ سوری، دراصل شوز سٹاک میں نہیں رہے۔ سیل ہو گئے۔ میں نے کہا کہ اچھا چلیں مجھے پھر میرے پیسے کب تک لوٹا دیں گے؟ دوسری جانب سے کچھ دیر صلاح مشورہ چلتا رہا پھر جواب آیا کہ آپ کو کچھ دیر میں کال بیک کرتے ہیں۔
کال نہیں آئی اور شام کے بعد فون پر آٹومیٹک ریکارڈنگ چلتی رہی کہ آفس ٹائمنگ صبح نو سے شام پانچ ہے۔ اگلے روز میں نے پھر کال کی۔ میری بات جنرل مینجر سے کروائی گی (اللہ جانے کتنا بڑا کاروبار ہے کہ جنرل مینیجر بھی رکھا ہوا ہے)۔ مینیجر صاحب نے ایسی خوبصورت بات کی کہ میرا میٹر شارٹ ہوگیا۔ بولا "آپ ایسا کریں کسی اور برآنڈ کے شوز ہماری سائٹ سے دیکھ لیں جن کی مجموعی قیمت اڑتالیس ہزار بن جائے تو وہ آپ کو فوری بھجوا دیتے ہیں"۔ یہ غیر منطقی بات یعنی بُل شِٹ سُن کر میں نے کہا "مجھے جو چاہئیے وہ نہیں تو آپ مجھے میری رقم واپس کریں بس۔ میں کیوں کوئی اور شے دیکھوں؟
میری کیا مجبوری ہے ایسی؟" جواب آیا " سر، آپ کچھ اور برآنڈ دیکھ لیں۔ میں یہی کر سکتا ہوں"۔ جواباً میں نے غصے میں اس بندے کو وہ سنائیں جو یہاں بیان کرنا مناسب نہیں۔ اس کے سبب ہُوا یہ کہ مجھے دس منٹ بعد کال آئی اور کال کرنے والے نے اپنا تعارف بطور مالک کروایا۔ مہذب انداز میں اس نے معذرت کی اور پیسے واپس بینک اکاؤنٹ میں ڈیپازٹ کرنے کا وعدہ کیا۔ کال بند کرنے سے قبل انہوں نے پھر سے معذرت کی۔ پیسے مجھے واپس ٹرانسفر کر دئیے گئے۔
یہ ہے وہ رویہ جو مملکت خداداد میں ڈیفالٹ اپنایا جاتا ہے۔ اول تو یہاں جینون شے خریدنا ناممکن سا لگتا ہے۔ آپ کو یقین نہیں ہوتا کہ اصلی شے بھی ہے یا نہیں۔ اس پہ سونے پر سہاگا آفٹر سیل رویہ ہے۔ آپ یقین رکھیں کہ مجھ کو معذرتی کال کرکے پیسے لوٹانے کا احسان صرف اس سبب کیا گیا کہ میں نے ان کے کان کھول دئیے تھے اور ان کو احساس ہوگیا تھا کہ اس ایشو میں ان کے کاروبار اور ساکھ کو نقصان ہوگا۔
وگرنہ عام آدمی کے لیے وہی رویہ ہے جو اول میرے ساتھ پیش آیا۔ ہم نے ناں اپنی ساکھ بنوانے اور منوانے پر زور دیا ہے اور ناں ہی اپنا برآنڈ بنانے پر توجہ دی ہے۔ اسی پاکستان سے ملبوسات و دیگر اشیاء تیار ہو کر باہر جاتیں ہیں اور پھر برآنڈ کا ٹیگ لگ کر پانچ دس گنا قیمت پر واپس آ کر بکتی ہیں مگر مجال ہے ان صنعتکاروں اور مینوفیکچررز نے کبھی اسی کوالٹی کا اپنا برآنڈ بھی کھڑا کرنے کی سوچ پالی ہو۔
مراکو میں مجھے فارورڈ سپورٹس کے مالک خواجہ صاحب ملے۔ وہ بزنس ڈیلی گیشن کے ساتھ وہاں آئے ہوئے تھے۔ میں نے کھانے کی میز پر ان سے پوچھا" خواجہ صاحب آپ ایڈیڈاس کو بیچنے کے ساتھ اپنے کسی نام سے فٹبال کا برآنڈ کیوں نہیں شروع کرتے؟ دنیا آپ کے فٹبال کو ایڈیڈاس کے نام سے جانتی ہے فارورڈ سپورٹس کے نام سے نہیں جانتی۔ " بولے " ہاں، مگر اللہ کا کرم ہے کہ فرصت ہی نہیں۔ بس چل رہا ہے۔ "
بس چل رہا ہے۔ ملک بھی آج تلک بس چل رہا تھا۔ اب تو خیر بس چل بھی نہیں رہا۔