Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Bakamal Log

Bakamal Log

باکمال لوگ

اسلام آباد کے باخبر حلقوں میں شدت سے یہ بات گردش کر رہی ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ لمبے عرصے کے لیے ٹیکنوکریٹ حکومت لانے پر زور دینے لگی ہے۔ آج اس بات کا اظہار عمران خان نے بھی کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیکنوکریٹ حکومت لانے کی باتیں ہو رہی ہیں جو کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی۔

ہمارے کرتے دھرتوں کا مسئلہ کیا ہے؟ آپ ان سے پوچھیں تو وہ کہتے ہیں کہ جمہوری حکومتیں کرپٹ نکلتی ہیں۔ نااہل ثابت ہوتی ہیں۔ سارا بوجھ ہمارے کاندھوں پر ڈال دیتی ہیں۔ ہماری بیساکھیوں کا سہارا خود تلاش کرتی ہیں۔ ہم سے خود عرض کرتیں ہیں کہ آپ ہمارا سہارا بنیں وغیرہ وغیرہ۔ اور جب ہم سارا بوجھ آف لوڈ کر دیتے ہیں تو یہ ہمیں ہی گالیاں دینے لگتے ہیں۔

مسئلہ دراصل یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے طاقت اپنے ہاتھ رکھی ہے اور وہ چھوڑنے کو تیار نہیں۔ سیاستدان طاقت لینے پر آمادہ نہیں اور یوں نظام سول و عسکری کھچڑی بنا ہوا ہے۔ اختیار کی کھینچا تانی شروع ہوتی ہے تو حکومت لپیٹ دی جاتی ہے۔ فارغ ہو کر سیاستدان انقلابی بننے لگتے ہیں اور پھر دونوں جانب سے خاموش معاہدے ہو جاتے ہیں اور یوں پھر سے سب ہنسی خوشی "ایک پیج" پر آ جاتے ہیں۔

ٹیکنوکریٹ حکومت کا مرکزی خیال بنگلہ دیش سے مستعار لیا گیا ہے۔ اس کو عرف عام میں بنگلہ دیش ماڈل کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ ماڈل وہاں بری طرح ناکام ہوا اور بلآخر ان کو بھی جمہوریت کی جانب واپس دیکھنا پڑا۔ بنگلہ دیش نے بھی بہت سارے تجربے کرنے کے بعد سیکھ لیا کہ حسینہ واجد کی آمریت بھی پارلیمانی نظام کے تحت ہی چل سکتی ہے ورنہ جو بھی راستہ اختیار کیا جائے گا وہ مزید انتشار اور خون خرابے کی جانب ہی لے کر جائے گا۔ حزبِ اختلاف کا حال بنگلہ دیش میں خاصا برا ہے۔ مگر کوئی جماعت مار کھانے کے باوجود بالائے آئین اقدامات کے لیے کسی اور ادارے کی جانب دیکھنے کو تیار نہیں۔ جو بھی اچھا یا برا ہو رہا ہے جمہوریت کے طے شدہ سائے میں ہو رہا ہے۔

پچھہتر سالہ بوڑھا پاکستان اب تک کیوں فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ یہاں جمہوریت چلے گی کہ فوجی آمریت یا جمہوری آمریت یا عدالتی آمریت یا پھر اسلامی جمہوریت یا ٹیکنوکریسی یا کوئی بھی ایسا نظام جو استحکام کی ضمانت دے سکے؟ ہمارا آئین ایک ایسی موٹر سائیکل کی طرح ہے جس کے گئیر اسلامی ہیں، ہینڈل مغربی، پٹرول کی ٹنکی عسکری، ٹائر نجی، گدی سیاسی اور لائٹیں کیپٹلسٹ ہیں۔ کوئی شخص کوئی ادارہ، کوئی جماعت واضح طور پر نہ اچھی بات پوری طرح بتانے کو تیار ہے نہ ہی بری بات مکمل طور پر اگلنے پر آمادہ۔

ان حالات تک پہنچانے کا ذمے دار کون ہے؟ جب واضح جواب مانگا جائے تو گونگوں کی طرح ایک دوسرے کی جانب اشارے بازی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ پوچھا جائے کہ جو بھی نظام آپ لوگوں نے اس وقت اپنا رکھا ہے کیا آپ اس پر کامل یقین رکھتے ہیں تو پھر تاویلاتی و معذرت خواہانہ و الزامیہ گفتگو شروع ہو جاتی ہے۔ کیا آپ اس نظام سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں؟ جواب آتا ہے ہاں۔ اچھا تو اس کی جگہ کیا لانا چاہتے ہیں؟ جواب میں آتی ہے خاموشی، گول گول گھومتی آنکھیں اور بس۔

نہ آپ پوٹن بننا چاہتے ہیں، نہ آپ کو ایرانی ماڈل پسند ہے، نہ آپ کو چینی نظامِ حکومت اپنانے سے کوئی دلچسپی ہے، نہ آپ بھارتی ڈیموکریٹک فیڈرل ماڈل کو ہضم کر سکتے ہیں نہ آپ اپنا کوئی ایسا آمرانہ یا جمہوری ماڈل بنانے کے قابل ہیں جو اس ملک کے شہریوں کو بے یقینی کے بھنور سے نکال کے سلامتی کے جزیرے تک لے جا سکے۔ تو پھر آپ ہیں کون اور کیوں ہیں اور چاہتے کیا ہیں؟ پولیٹیکل انجینئیرنگ کرتے ساڑھے سات دہائیاں بیت گئیں اب آپ کو پھر سے ٹیکنوکریٹ حکومت کا نیا تجربہ سوجھ رہا ہے۔

مجھے تو یہ ملک اور اس کے باشندے قومی ائیر لائن کے موٹو مافق ہی لگتے ہیں"باکمال لوگ لاجواب سروس"۔

Check Also

Bhutto Ka Tara Maseeh

By Haider Javed Syed