Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Bachpan Ka Muharram

Bachpan Ka Muharram

بچپن کا محرم

میں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ فقہ جعفریہ پر کاربند کٹر مذہبی گھرانہ تھا۔ والد صاحب اپنے زمانے کے رئیس تھے۔ سیالکوٹ سنہ 82 میں ایک چھوٹا سا صنعتی شہر ہوا کرتا تھا جس کے باسیوں کی اکثریت صنعتکاری سے وابستہ تھی۔ ہر تیسرے گھر میں کچھ نہ کچھ پروڈیوس ہوتا تھا۔ چھوٹے صنعتی یونٹ تھے جن میں سپورٹس اور سرجیکل کا سامان تیار ہوتا۔ سنہ 82 میں پیدا ہوا تو اس دور میں سیالکوٹ کے رئیس یا امیر گھرانوں میں میرے والد کا نام شمار ہوتا تھا۔ ان کے تعلقات کاروباری نوعیت کے تھے اور کاروباری حلقوں میں جانے پہچانے جاتے تھے۔

پیسے کی فراوانی یا یوں کہہ لیجئے روانی میں نے اپنے ابتدائی دس سال تک دیکھی۔ ظاہر ہے اس دور کا مجھے کچھ یاد نہیں۔ میرے شعور میں غربت و فاقہ کشی سمائی ہے۔ کاروبار میں ایسا نقصان کہ نوبت فاقوں تک آ جائے اور والدہ کو باامر مجبوری سرکاری سکول میں ٹیچنگ کی جاب کرنا پڑے، بس یہیں سے میرا حافظہ کام کرتا ہے۔ البتہ جو والدین سے سنا اور جو آزو بازو کے لوگوں نے بتایا وہ یاد رہا۔

والدہ کو میرے والد سے سب سے بڑا گِلہ یہ رہا اور تمام عمر رہا کہ انہوں نے اپنا سرمایہ مذہب پر بہایا اور تواتر سے بہایا۔ امام بارگاہ کی تعمیر ہو، مجالس و جلوس و لنگر و سبیل کا انتظام کرنا ہو والد کچھ نہیں سوچتے تھے۔ والدہ گلہ کرتیں کہ ہاتھ ہلکا رکھیں تو روائیتی مردانہ جواب ملتا "کون کماتا ہے؟ میں ناں؟" بس اس کے بعد گھر میں خاموشی چھا جاتی۔

میرے بچپن کا محرم امام بارگاہ میں صبح تا شام چکر لگاتے بیتا۔ اس کی وجہ والد صاحب کی اٹیچمنٹ اور چندہ کمیٹی کے سرغنہ رکن کے سبب تھی۔ سیالکوٹ شہر میں امن و امان ہوتا تھا۔ علم، ذوالجناح و تعزیے کے جلوس نکلتے تو راہ میں قدم قدم شربت و دودھ کی سبیلوں کا انتظام سنی بھائیوں کے سپرد ہوتا۔ ماتمی جلوس کے شرکاء تعزیہ کی زیارت کے بعد اب سبیلوں پر پیاس بجھانے جا بیٹھتے جن کے اوپر حق چار یار کے بینر لگے ہوتے اور چاروں خلفاء کے نام بڑے بڑے جَلی حروف میں لکھے ہوتے۔

دس محرم بروز عاشور یوں ہوتا کہ ایک تعزیہ اندرون شہر سے برآمد ہوتا جسے سنی تعزیہ کہا جاتا۔ اہلسنت کے اس تعزیہ پر بارہ اماموں اور چار خلفاء راشدین کے نام واضح لکھے ہوتے۔ اس تعزیے کو اُٹھائے سفید کپڑوں میں ملبوس اہلسنت بھائی چل رہے ہوتے اور ساتھ ساتھ مرثیہ خوانی کرتے جاتے۔ یہ ماتم نہیں کیا کرتے تھے۔ بس تعزیہ اٹھائے چلتے جاتے تھے اور درود و سلام پڑھتے جاتے تھے۔ میں اس سنی تعزیہ کو دیکھنے عاشور کے مرکزی جلوس سے ہٹ کر اسپیشل جایا کرتا۔ اس وقت مجھے یہ عجب لگتا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں اور کیا کرتے ہیں۔

وقت گزرتا رہا۔ والدین دنیا سے گزر گئے۔ میں گردشِ حالات کا شکار رہا۔ ایف ایس سی میں مجھے گھر چلانے کو پارٹ ٹائم نوکری کرنا پڑ گئی۔ یہ جلسے جلوس مجالس والد کی وفات کے بعد کہیں پیچھے رہ گئے۔ پھر سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کتابوں سے واسطہ پڑا تو ذہن چکرا کے رہ گیا۔ تاریخ مکڑی کا جالہ تھی۔

ایک دن میں نے شیعہ مسلک کے خطیب علامہ گلفام حسین ہاشمی کو پکڑ لیا۔ وہ مجلس کے بعد کھانا کھانے بیٹھے تھے اور فری تھے۔ مجھے میرے والد مرحوم کے حوالے سے جانتے تھے۔ میری عمر اس وقت اٹھارہ سال تھی۔ میں نے پوچھا "قبلہ کچھ کنفیوژن سی ہے۔ آپ سے پوچھ سکتا ہوں؟" خوش دلی سے بولے "ہاں بیٹا کیا بات ہے؟"

علامہ یہ جلوس کیوں نکالے جاتے ہیں؟

بیٹا یہ احتجاج ہے۔ عزاداری احتجاج ہے یزیدیت کے خلاف۔

اچھا۔ علامہ یزید تو جہنم واصل ہو چکا۔ صدیاں بیت چکیں۔ اب کس کے خلاف احتجاج ہے؟

بیٹا یزید تو مر چکا مگر اس کی سوچ تو زندہ ہے۔ یزیدیت تو زندہ ہے ناں۔ یہ یزیدیت کے خلاف احتجاج ہے۔

اچھا۔ یعنی یزیدی سوچ زندہ ہے۔ جیسے ضیاءالحقی سوچ زندہ ہے؟ مگر زندہ تو حسینیت ہے؟ ہم حسینیت زندہ باد کہتے ہیں۔ پھر یہ یزیدی سوچ کیسے زندہ ہے اب تک؟

بیٹا جیسے شیطان زندہ ہے۔ حسینی و یزیدی دو قوتیں ہیں اور یہ قیامت تک اک دوجے کے مدمقابل رہیں گی۔

اچھا۔ تو حسینیت بھی زندہ ہے اور یزیدیت بھی زندہ ہے۔ پھر مردہ باد کیا ہے؟ اور اگر یہ احتجاج یزیدیت کے خلاف ہے تو آج کے زمانے میں کون یزیدی ہے؟

علامہ نے میرا چہرہ دیکھا۔ پھر تذبذب کا اظہار فرمایا پھر بولے "یزید کے ماننے والے بھی تو زندہ ہیں۔ "

کہاں زندہ ہیں علامہ؟ مجھے تو نظر نہیں آتے۔ (اس زمانے میں واقعی نہیں آتے تھے۔ جب تفرقہ بازی و ٹارگٹ کلنگ نے اس ملک میں ہولی کھیلی تب نظر آنے لگے)

اس دن میں مطمئن نہیں ہو سکا اور سوچتا رہا کہ یہ کیا گھن چکر ہے۔ یزید بھی زندہ ہے حسین بھی زندہ ہیں۔ یہ ماتمی احتجاج آخر کس کے خلاف ہے آج۔ کوئی تو سامنے نظر آتا ہو۔

میرے محلے کی جامع مسجد میں ہر سال نو محرم کو امام حسین کانفرنس منعقد ہوتی۔ مجھے اس میں شرکت کا اسپیشل پیغام اس لیے بھجوایا جاتا کہ سارے محلے میں فقہ جعفریہ کا گھرانہ ایک ہی تھا اور اہل محلہ ہماری بہت عزت کرتے تھے۔ والد کے ساتھ سب کا تکریم کا رشتہ تھا۔ اور مجھے پیغام آتا کہ شاہ جی آپ نے ضرور شرکت کرنا ہے۔ میں چلا جاتا۔ ایک سال یوں ہوا نہ خطیب صاحب نے جوش خطابت میں غیر مناسب بات کہہ دی۔

وہ باہر سے آئے تھے اور نہیں جانتے تھے کہ شرکاء کی صف اول میں میں بیٹھا ہوا ہوں۔ انہوں نے پہلی بار اس مسجد سے کفر کا فتویٰ جڑ دیا۔ مگر آپ کو بتاؤں کیا ہوا؟ جیسے ہی وہ منبر سے اُترے اہل محلہ نے ان کو گھیر لیا اور ان کے ہوش ٹھکانے لگا دئیے۔ ان کی ایسی کھچائی ہوئی کہ ان کو وہاں سے بھاگنا پڑا۔ پھر مسجد کی کمیٹی بیٹھی اور فیصلہ ہوا کہ آئندہ سے کسی ایسے شرانگیزی کرنے والے کو نہیں بلایا جائے گا۔ مجھ سے محلے کے بزرگوں نے شرمندہ ہوتے معافی مانگی تو میں شرمسار ہوگیا۔

پھر زمانے کو پہئے لگ گئے۔ مشرف دور میں ڈالرز آنے لگے۔ مدارس سے جہادی نکلنے لگے۔ سعودی و ایرانی ریال برسنے لگے۔ میرے محلے کی مسجد کا ماحول بھی بدلنے لگا۔ امام بارگاہ میں بس سوگ و مظلومیت کا رونا ہی رہتا۔ پھر سیالکوٹ میں خودکش حملہ ہوا۔ اسی امام بارگاہ کو اڑا دیا گیا۔ یہ پندرہ شعبان کا جمعہ کا روز تھا۔ اس حملے میں میرا بچپن کا دوست اور جان سے عزیز محسن جعفری شہید ہوا۔ اس کے بدن کے چیتھڑے دیواروں سے لٹکے رہ گئے۔

محسن جعفری کا جسم چیتھڑے ہو کر امام بارگاہ کی دیواروں سے چمٹا رہ گیا۔ یکم اکتوبر سن 2004 کو سیالکوٹ کی مرکزی امام بارگاہ میں خودکش حملہ ہوا۔ اس وقت میری عمر بائیس سال تھی اور محسن کی عمر تئیس سال۔ ہماری دوستی پانچویں کلاس سے شروع ہوئی اور محسن کے ہوا میں تحلیل ہونے تک رہی۔ میٹرک میں آتے آتے اتفاق سے ہم دونوں کو ایک ہی لڑکی پسند آ گئی اس وجہ سے ایک سال تعلق ختم رہا۔ اس ایک سال میں جب بھی ہمارا آمنا سامنا ہوتا ہم کترا کے گزر جاتے۔ وہ بھی کیا عمر ہوتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی ناراضگیاں، چھوٹے چھوٹے حادثات جو تب بہت بڑے لگ رہے ہوتے ہیں۔

کچھ عرصے بعد حالات پھر نارمل ہو گئے۔ وہ بھی گھر میں اکلوتا لڑکا تھا۔ انکل آنٹی نے اس کا رشتہ اوائل عمر میں ہی اپنے خاندان میں طے کر دیا اور یوں محسن کی توجہ کا مرکز بدلا تو دوستی دوبارہ ہوگئی۔ روزانہ شام ہم دونوں بائیک پر بیٹھ کر سیالکوٹ گھنٹہ گھر چوک چلے جاتے اور بینک کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر آئس کریم کھاتے یا سگریٹ پھونک لیتے۔ ان دنوں سگریٹ پینا شروع نہیں کیا تھا بس فیشن میں پھونکنے کی لت تھی۔ اسی جگہ بیٹھ کر وہ اپنی منگیتر سے ہونے والی گفتگو کے قصے سناتا اور میں اسے اپنے حالات۔ دو چار غیر مہذب لطیفے، آس پاس بکھرے لوگوں کی حرکتوں پر جگتیں اور ایسی ہی ادھر ادھر کی بیکار باتوں کے بعد اپنے اپنے گھر لوٹ جاتے۔

یہ میرا واحد دوست تھا۔ اور کوئی اتنا قریب رہا ہی نہیں تھا۔ پروفیشنل لائف میں آیا تو کئی دوست بنے مگر آج تک کوئی اتنا قریبی دوست نہ بن پایا۔ جس صبح وہ جمعہ کی نماز پڑھنے امام بارگاہ گیا جہاں سے اس نے کبھی واپس نہیں آنا تھا اس سے ایک رات پہلے گھنٹہ گھر چوک میں بیٹھے وہ ہنس ہنس کر نڈھال ہو رہا تھا۔ وجہ صرف اتنی تھی کہ اس نے زندگی میں پہلی بار کسی کو گفٹ دیا تھا وہ بھی سب سے چھپ چھپا کر اور وہ خوش نصیب اس کی منگیتر تھی۔

یکم اکتوبر 2004 کی صبح ہونے والے خودکش حملے نے مجھے میرے واحد دوست سے جدا کر دیا۔ اس کی پامال لاش تابوت میں دفنائی گئی۔ اس کا چہرہ دیکھنے کو اس کے والدین روتے مر گئے۔ اس دن کے بعد سے آج تک میرا دھیان جب بھی اس طرف جاتا ہے دل میں آگ جلنے لگتی ہے۔ میں وہ منظر مرنے تک نہیں بھول سکتا۔

میرا بیٹا یکم اکتوبر 2011 میں پیدا ہوا۔ میں نے اس کی سالگرہ کبھی نہیں منائی۔ اس دن مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا۔ اب جب وہ بڑا ہو رہا ہے اور اسے معلوم ہے کہ اس کی سالگرہ یکم اکتوبر ہے تو اب پچھلے چار سالوں سے اس کی خاطر ایک کیک آ جاتا ہے۔ یہ دن بیک وقت میرے لئے خوشی و غم کا دن ہوتا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس دن میں کیا کروں۔

ڈر، دہشت، جھجھک، جذبات کی پامالی کے خوف نے مجھے پھر کوئی دوست بنانے نہیں دیا۔ سولہ سال گزر چکنے کے باوجود دل آج بھی سلگتا ہے۔ ایک مسئلہ تو یہ بھی ہے کہ میں آج تک کسی عزیز کی موت پر رویا نہیں۔ میرے والدین گئے، دوست گیا، مگر نہیں رویا۔ اندر بس گرہ بندھی رہ گئی ہے۔ نیل جم گیا ہے۔ مجھے لگتا ہے میرا دل نیلے رنگ کا ہوگا۔ اب کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ سب کو کھل کے رو لینا چاہیئے۔

شاید چشمہ پھوٹ بہے تو چین آ جائے۔ شہر دل کی آگ بجھے۔ بنامِ مذہب میں نے بہت کچھ دیکھا، سہا اور بھگتا ہے۔ اب بس ہوگئی ہے۔ منبر و محراب سے کفر کے فتوے ہیں۔ مارا ماری ہے۔ فساد ہے۔ کلچر کو مذہب کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ مذہب کو لپیٹ کے رکھ دیا گیا ہے۔ اب بس جلوس ہیں، نعرے ہیں، عرس ہیں، لنگر ہیں، دھمالیں ہیں، دربار ہیں، محفلیں ہیں اور ان سب کے بیچ فتوؤں کی بوچھاڑ ہے۔

سیاہ و سفید نے دین کا کباڑا کر دیا ہے۔ جو سامنے نظر آتا ہے اگر یہ ہی دین ہے تو پھر آنکھ برس پڑتی ہے۔ میں نے بیزار ہو کر راہ نجات ڈھونڈی۔ حق ہے وہ ذات جس نے مجھے کہا

"عصر کے وقت کی قسم بیشک انسان گھاٹے میں ہے۔ مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور آپس میں حق پر چلنے کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے"۔

Check Also

2017 Ki Ikhtetami Tehreer

By Mojahid Mirza