Tuesday, 22 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Aye Rooh e Inqilab Hamen Naamon Se Na Pehchan

Aye Rooh e Inqilab Hamen Naamon Se Na Pehchan

اے روحِ انقلاب ہمیں ناموں سے نہ پہچان

اجمیر شریف میں خواجہ معین الدین چشتی کے دربار میں دنیا کی دو سب سے بڑی دیگیں نصب ہیں۔ چھوٹی دیگ اکبر نے اور بڑی جہانگیر نے نذر کی تھی۔ دونوں میں کل ملا کے ایک وقت میں سات ہزار کلو گرام کھانا پکتا ہے۔ ان دیگوں کی گہرائی اتنی ہے کہ خادم کو صفائی کے لیے سیڑھی لگا کے اترنا پڑتا ہے۔ ایسی دیگوں میں کھانا پکانے کے لیے بھی مخصوص مہارت والے کاریگر درکار ہیں۔ وہی طے کرتے ہیں کہ کون سی شے کس مقدار میں کب پڑے گی اور پکنے کے بعد ذائقہ کیسا ہوگا۔ یہ دیگیں لنگرِ عام کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ امراء اگر چاہیں تو کیش دے کر غرباء و مساکین کے واسطے ان میں کھانا پکوا سکتے ہیں۔

اگر ہم اس ملک کو درگاہ معین الدین چشتی کی دیگ کی طرح کی کوئی چیز سمجھ لیں تو یہاں کے معاملات اور ذائقہ سمجھنے میں قدرے آسانی ہو جائے گی۔ اس دیگ میں بھی کسی بھی آنچ پر کچھ بھی پک سکتا ہے یا پکوایا جا سکتا ہے۔ لنگر لینے والے سلامت۔ لنگر بانٹنے والے بہت۔۔

مملکت خداداد قائم شد سنہ 47 میں گاہے گاہے کئی بار انقلابی دیگیں چڑھائی گئیں ہیں، پکائی گئیں ہیں، بانٹیں گئیں ہیں۔ مگر اب تک چڑھانے والے اور بانٹنے والے پراسرار سانحات کا شکار ہو کر ماضی کا حصہ بنتے رہے۔ رہ گئے ان دیگوں سے لنگر لینے والے تو ان کی بابت شعر یاد آ جاتا ہے

اے روحِ انقلاب ہمیں ناموں سے نہ پہچان
کل اور کسی نام سے آ جائیں گے ہم لوگ

تازہ انقلاب کے ساتھ وہی ہوا جیسا کہ فلموں میں ہوتا ہے۔ عین اس وقت جب ہیرو سخت فائٹ کے بعد اس گمان میں ہوتا ہے کہ اب وہ کچھ سکھ کا سانس لے سکے گا، اچانک ایک نیا ولن سامنے آ جاتا ہے۔ بالکل ایسے جیسے جولیس سیزر کے سامنے اس کا یارِ جانی بروٹس خنجر لے کر آ گیا تھا اور جولیس سیزر کے منہ سے یہ آخری الفاظ نکلے تھے کہ بروٹس تم بھی۔۔

بالکل ایسے جیسے آپ کسی کو منہ بولا بھائی بنائیں۔ اس کی وکالت میں دن رات ایک کر دیں اور ایک دن وہ اچانک کھڑا ہو کر کہہ دے کہ لالہ بہت شکریہ۔ اب آپ اس مکان کو فوراً خالی کر دیں۔ اگر آپ بلڈوزر تلے آ گئے تو پھر مجھ سے شکایت نہ کیجئیے گا اور ہمارا ہیرو بس منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا رہ جائے کہ

دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی علی امین سے ملاقات ہوگئی

جو پولیس والا جان سے گیا اس کا اپنا قصور تھا کہ وہ دل کا مریض ہو کر شیلنگ کر رہا تھا۔ باقی جو کارکنان انقلاب کی راہ ہموار کرنے میں جوتیاں چٹخاتے، آنسو گیس کھاتے اور ڈانگ سوٹا کھیلتے رہے وہ تاحکم ثانی اپنے گھروں میں تشریف لے جائیں اور نئے انقلاب کی تیاری کے لیے کمر بستہ رہیں۔ آپ کا جذبہ دیدنی اور آپ کی جان بہت قیمتی ہے۔ بہت شکریہ

Check Also

Phool Aur Kante

By Muhammad Irfan Nadeem