Asaishon Ka Main Aadi Nahi
آسائشوں کا میں عادی نہیں
سنہ 2017 تک میرے پاس گاڑی نہیں تھی۔ لال یاماہا تھا جو سنہ 2006 کا ماڈل تھا۔ اس وقت تو نیا لیا تھا اور پھر اس نے گیارہ سال ساتھ دیا۔ اسی پر یونیورسٹی پڑھانے جایا کرتا تھا۔ یونیورسٹی کی پارکنگ میں یاماہا لگاتا تو میرے سٹوڈنٹس مجھے دیکھ کر اکثر پارکنگ میں جمع ہو جاتے اور کئی بار کہتے کہ سر آپ بحریہ ٹاؤن سے آتے ہیں تو ہم بھی وہیں سے آتے ہیں۔ اگر آپ کہیں تو آپ کو روزانہ پِک اینڈ ڈراپ کر سکتے ہیں۔
میں ان کا ہنس کے شکریہ ادا کرتا اور کہتا "ہاں ہاں، تاکہ سمسٹر کے آخر میں بوجوہ احسان تم لوگوں کو پاس کرنا بھی اپنا فریضہ سمجھوں۔ اکثر اوقات تو تم لوگ کلاس سے بھی غائب ہو جاتے ہو اور پڑھائی پر جتنی توجہ دیتے ہو وہ تم لوگوں کو اچھے سے معلوم ہے۔ "وہ ہنس کے جواب دیتے" سر آپ بیشک ہمیں فیل کر دو۔ ہماری آفر اس لیے نہیں ہوتی کہ آپ ہمیں پاس کریں گے۔ "
میرے کولیگز میں بہت نامور شخصیات تھیں جن سے دوستی کا تعلق بن چکا تھا۔ اصغر ندیم سید، علی اکبر ناطق، پروفیسر مہدی حسن مرحوم، پروفیسر حسن عسکری سابقہ نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب، رضا زیدی صاحب، عثمان پیرزادہ، ان کے بھائی عمران پیرزادہ، وجاہت مسعود صاحب، سمیت اپنے اپنے شعبہ ہائے زندگی میں خدمات دینے والے احباب شامل تھے۔ یہ ماس کمیونیکیشن اور فلم اینڈ ٹی وی کا ڈیپارٹمنٹ تھا۔ دوپہر کا کھانا اکثر اوقات میرے ہی کمرے میں سب مل کر کھانے آتے تھے۔ ان سب کے پاس گاڑیاں تھیں اور مجھے کہتے کہ کاکا تم بھی چھوٹی موٹی کوئی گاڑی لے ہی لو۔ میں ہنس کے کہتا کہ کیوں اپنے اخراجات بڑھا لوں؟ گزارا ہو رہا ہے نہ تو بس ٹھیک ہے۔
یوں نہیں تھا کہ میں کوئی درمیانے درجے کی کار خرید نہیں سکتا تھا۔ اگر چاہتا تو جمع پونجھی سے خرید لیتا مگر کبھی اس طرف اتنا دھیان ہی نہیں دیا تھا کہ موٹرسائیکل چلاتے ساری جوانی گزری تھی اور مجھے اس کی عادت تھی۔ کار چلانا مجھے ڈھنگ سے آتا بھی نہیں تھا۔ مجھے اگر فیملی کے ساتھ کہیں شہر میں دور جانا ہوتا تو میں اُبر یا کریم بلا لیتا۔ ایک دن شادی کے اہم فنکشن پر جانا تھا۔ اُبر والا ہاتھ کر گیا اور پہنچا ہی نہیں۔ خیر اس دن لیٹ ہو گئے مگر واپسی پر بیگم نے مجھے کہا کہ اب گاڑی لے لیں۔ اس طرح خواری ہی ہوتی ہے۔
دو دن بعد میں نے ہنڈا انسائٹ ہابرڈ خرید لی۔ وہ سنہ 2017 میں ساٹھ ہزار کلومیٹر چلی ہوئی مگر اچھی حالت میں مل گئی۔ اس گاڑی پر میں نے ڈرائیونگ سیکھی۔ ہنڈا انسائٹ تین چار بار چھیلی، رگڑی اور دو بار معمولی سی ٹھوکی بھی۔ یونیورسٹی چھوڑنا پڑی تو چھ ماہ بیروزگار رہا۔ جمع پونجھی تو گاڑی پر لگ چکی تھی۔ اسی ہنڈا پر میں خود لاہور کی سڑکوں پر اُبر اور کریم چلاتا رہا اور وہ مشکل مالی حالات والا پیریڈ کسی طرح کاٹتا رہا۔ ڈیڑھ سال بعد اسے بیچ دیا۔ پھر حالات بدلے اور میں یو این میں چلا گیا۔
کچھ بڑے پراجیکٹس کئے اور گاڑی بدل دی۔ میں نے ٹیوٹا سی ایچ آر خرید لی۔ وہ فریش امپورٹ تھی۔ مہنگی گاڑی تھی۔ مگر ہائبرڈ تھی۔ اس گاڑی کو میں نے حال ہی میں دو ماہ قبل بیچا ہے۔ اب جو گاڑی ہے وہ بہت ہی نازک پلی گاڑی ہے۔ یہ فُل سائز SUV ہے۔ ہائبرڈ نہیں ہے۔ ہائی اوکٹین پٹرول پیتی ہے۔ اور میرا ذہن ہائبرڈ گاڑیوں کی مائلج سے نکلتا ہی نہیں۔
تین ماہ قبل مجھے میرے ادارے نے پرماننٹ کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی آفس اٹینڈ کرنا لازم ہوگیا۔ مجھے بس صبح نو بجے گلبرگ میں واقع زونل آفس میں بائیومیٹرک سے حاضری لگوانے جانا ہوتا ہے۔ اس کے بعد کوئی کام نہ ہو تو آفس سے واپس گھر آ جاتا ہوں اور پھر شام پانچ بجے دوبارہ بائیومیٹرک سائن آؤٹ کرنے گلبرگ جانا ہوتا ہے۔ میری رہائش سے آفس کا فاصلہ چوبیس کلومیٹر ہے۔ یعنی ایک دن میں کُل سفر لگ بھگ سو کلومیٹر ہو جاتا ہے اور گاڑی کا ہائی اوکٹین بہت چبھنے لگا ہے۔
سوچ رہا ہوں ڈیلی کمیوٹ کے لیے بائیک لے لوں۔ لال یاماہا تو کھڑے کھڑے کچرا ہوگیا تھا۔ وہ میں نے ایک شناسا مگر ضرورتمند بندے کو ویسے ہی دے دیا تاکہ اس کے لیے اس کے کام میں سہولت رہے۔ بائیک آجکل کونسی اچھی ہے؟ سوزوکی جی ایس 150 یا نیا یاماہا؟ اس بارے کوئی گائیڈ کرنا چاہے تو بتائے۔ وقت آ گیا ہے کہ اک بار پھر پینٹ شرٹ اور ٹائی لگائے آفس جاب والا حلیہ اپنائے موٹرسائیکل پر سفر کروں۔ ایک تو پرانا شوق زندہ ہو جائے گا دوجا آپ چاہے لاکھوں روپے ماہانا کماتے ہوں یا ڈالرز میں کماتے ہوں مگر میرے جیسے سیلف میڈ انسانوں کا ایک المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی حق حلال کی آمدن سے ایک پائی بھی فضول نہیں لگانا چاہتے۔ اتنی آسائشوں کا میں عادی بھی نہیں بن پایا۔