Apni Shalwar Aur Dastar Bachaye Rakhna
اپنی دستار اور شلوار بچائے رکھنا
ارے بھائیو اور لیڈیز، وہاں چیف اور ڈی جی آئی یونیورسٹی سٹوڈنٹس سے خطاب کر رہے ہیں آپ کو میری پڑی ہے۔ شطرنج کے کھیل میں جب بادشاہ کو خود چلنا پڑ جائے تب شہہ مات یقینی ہونے لگتی ہے۔
اُدھر شعیب ملک کی شادی سے متعلق گوسپس میں قوم بزی ہے اِدھر آپ مجھے میسجز بھیج رہے کہ آپ کہاں غائب ہیں۔ وہاں انتخابات کی گرما گرمی چل رہی، عدلیہ میں گرما گرمی چل رہی، موسم خشک جا رہا، شمال میں برفباری نہیں ہو رہی اور آپ کو شاہ کی پڑی ہے۔
میں بالکل ٹھیک ہوں اور سوشل میڈیا سے کچھ دن غیر حاضر رہ کر سکون سے سانس لینا چاہ رہا تھا۔ آپ کے میسجز کا شکریہ مگر جو مجھے جانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ میں سال میں دو تین بار لمبا غیر حاضر ہو جاتا ہوں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہوتیں ہیں۔ یہ سوشل میڈیا کی شعبدہ بازیوں سے دور ایک زندگی ہے جو اپنی ہے اور خود کے لیے جینی ہے۔ یہاں روزانہ نیا کٹا کھلتا ہے اور رات گئے بند ہوتا ہے۔ روزانہ ڈھیروں پیغامات وصول ہوتے ہیں جن میں لوگ اپنے مسائل شئیر کرتے ہیں۔ کسی کو کسی صورت میں مدد چاہئے ہوتی ہے اور میں خدا نہیں ہوں بشر ہو اس لیے مسائل کا حل میرے اختیار سے باہر ہوتا ہے۔ مگر روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کے المئیے جذب کرتا، سوشل میڈیا پر فضول کی بحثیں دیکھتا سُنتا اور لوگوں کو سیاست و مذہب کے نام پر لڑتا جھگڑتا دیکھ کر بندہ اکتا بھی جاتا ہے۔ وقفہ لینا ضروری ہوتا ہے۔
اور وقفہ جب لوں تب میں موبائل ماسوائے کال سننے اور کرنے کے کسی اور مقصد کے لئے استعمال نہیں کرتا۔ میں اس ہوائی دنیا یعنی سوشل کلاؤڈ کا دروازہ مکمل بند کر دیتا ہوں۔ اس لیے میسجز بھی نہیں دیکھتا مگر ٹن ٹن ہوتی رہتی ہے۔ اور جب کچھ دن بعد دیکھوں تو پیغامات کا ڈھیر لگا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا نرا ڈپریشن ہے اور جب حد سے گزر جاتا ہے تب اسے بند کرنا پڑتا ہے۔ خوامخواہ کے حاسد، خوامخواہ کی ناراضگیاں اور ہوائی دوستیاں۔ میں اس کو بس بھڑاس نکالنے کی کھڑکی سمجھتا ہوں۔ وہ مزاح اور چولوں کی صورت نکلے یا سنجیدہ مزاج تحاریر کی صورت نکلے۔ نہ میں اس میں حقیقی خوشی محسوس کرتا ہوں نہ ہی یہاں رونے والے کے ساتھ کوئی روتا ہے۔
باقی سب خیریت ہے۔ اس ملک میں خیر کا معیار یہ ہے کہ آپ سر تا پا سلامت ہیں اور اپنے گھر والوں کے درمیاں ہیں۔
پاپولر سٹانس لینا بہت آسان ہوا کرتا ہے۔ ہزاروں لائکس و کمنٹس جگمگاتے ہیں۔ دائیں بازو کی سوچ اس ملک میں بڑے لاڈوں سے پالی پوسی گئی ہے۔ مذہب، عسکریت اور جنس کی بنیادیں گہری ہیں۔ ایک طاقتور طبقہ ہے جس کے زیر اثر سارا نظام مملکت ہے۔ وہ اپنی مرضی و منشا کے مطابق قانون، آئین، نظام کا بازو بھی مروڑنا جانتا ہے۔ ایک لکھنے والے، ایک کالم کار، ایک مفکر و محقق کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ طاقتوروں کو اپنے قلم کے ذریعہ مزید طاقت بخشنے لگے۔ اس کا کام اپنے پڑھنے والوں کو سیدھا رستہ دکھانا ہے۔ غلط و صحیح کی تمیز کرنا ہے۔ پاپولر سٹانس تو بھیڑ چال ہوتی ہے۔ یہاں سوشل میڈیا پر بدقسمتی سے اکثریت اسی بھیڑ چال کا شکار ہونے لگتی ہے۔ جہاں ریوڑ چل پڑتا ہے اسی سمت کو یہ بھی چل پڑتے ہیں۔
عقل و شعور میں باریک سا پردہ ہوا کرتا ہے۔ عقل انسان کو مفاد پرستی و موقع پرستی پر راغب کرتی ہے۔ شعور انسان کو راستہ دکھاتا ہے، غلط و صحیح کی تمیز عطا کرتا ہے۔ عقل تو عطیہ خداوندی ہے۔ عقل انسان کی پیدائشی میراث ہے جبکہ شعور انسان کو خود محنت سے حاصل کرنا پڑتا ہے۔ کتابوں، نظریات، آئیڈیل ازم، زندگی میں در آنے والے حوادث و تجربات، محرومیوں و آسائشوں سے کشید کرنا پڑتا ہے۔
آج تک جو لکھا وہ برائے دل لگی لکھا۔ بھڑاس نکالنے کو الفاظ تراشے، بڑھئی کا کام سیکھا۔ خون جلانے کو مضمون بنے، کھڈی چلاتے بنت کبھی اچھی لگ جاتی تو کبھی گرہیں صاف نظر آتیں۔ دھاگے سے دھاگا جوڑنا یا جملے سے جملہ ملانا آسان کام نہیں تھا۔ اس معاشرے میں اب تو سب لکھا، سب پڑھا کلیشے لگتا ہے۔ الفاظ گودے سے خالی ہیں۔ اخلاق، مروت، دیانت، رحمدلی، خوف خدا، حلال، رشتے ناطے، خندہ پیشانی، حب الوطنی، قوم، ملت، وغیرہ وغیرہ یہ سب الفاظ اپنا مفہوم کھو چکے ہیں۔ یہ جن جملوں میں استعمال ہوتے ہیں وہ کھوکھلے لگنے لگتے ہیں۔ ایک ہی قلم حق ہے جو ہمارے اعمال نامے لکھتا جا رہا ہے۔ جس دن کھلیں گے اس دن قیامت ہوگی۔
ایسے معاشرے میں اپنی دستار اور شلوار بچائے رکھنا ہی عافیت ہے اور کچھ دن اگر عافیت سے بسر کرنا چاہوں تو پریشان نہ ہوا کریں۔ اگر آپ کو یہ چِنتا ستانے لگتی ہے کہ اس ملک میں ڈالہ لے جا سکتا ہے تو عرض ہے انہوں نے جب لے جانا ہے تب نہ آپ میں سے کوئی کچھ کر سکتا ہے نہ میں کچھ کر سکتا ہوں۔ زمین کو آسمان سے خطرہ ہے، ملک کو ہمسائیوں سے خطرہ ہے، ایک صوبے کو دوسرے صوبے سے خطرہ ہے، مذہبی طبقے کو لبرلز سے خطرہ ہے، سویلینز کو ڈالے سے خطرہ ہے، ڈالے والوں کو سویلینز سے خطرہ ہے، جمہوریت کو آمریت سے خطرہ ہے، آمر کو جمہور سے خطرہ ہے۔ اس لیے فکر کی کیا بات؟ جون کا شعر ہے ناں
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
آپ میں سے جنہوں نے میری خیر یت جاننے سے متعلقہ پیغامات بھیجے ان سب کا شکریہ۔ بی ہیپی آلویز۔