Saturday, 21 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Ali Sher Khosa

Ali Sher Khosa

علی شیر کھوسہ

یونیورسٹی جن دنوں پڑھاتا تھا میرا ایک سٹوڈنٹ تھا علی شیر کھوسہ۔ بہت ہی اچھا لڑکا۔ عزت کرنے والا۔ شریف بچہ اور پڑھنے میں دلچسپی لینے والا سٹوڈنٹ۔ وقت پر اسائنمنٹ جمع کرواتا۔ ڈیپارٹمنٹ کے لڑکوں کے ساتھ بھی وقت گزارتا مگر اس نے اپنی صحبت اچھی رکھی۔ ایک دن کہنے لگا سر میرا بھائی ہے عون علی کھوسہ۔ ہم مل کر ایونٹس کی کوریج (شادی بیاہ کے ایونٹس کی فوٹوگرافی) کرنے کا پلان بنا رہے ہیں۔ کچھ کمانا بھی تو ہے تاکہ اپنا خرچ اُٹھا سکیں۔

میرے کئی سٹوڈنٹس ڈگری کرنے کے ساتھ ساتھ آپس میں گروپ بنا کر ویڈنگ اور ایونٹ کوریج کے لیے ٹیم بنا چکے تھے۔ کما رہے تھے۔ کسی کو کوئی پرابلم آتی تو مجھ سے ڈسکس کرتے۔ میں ان کو حل بتا دیتا۔ مجھے ایسے بچے بہت اچھے لگتے ہیں جو پڑھنے کے ساتھ زندگی کو سنجیدہ لیتے ہیں اور کمانے کی فکر یا سیٹل ہونے کی فکر کرتے ہیں۔ شیر علی کو بھی کہہ دیا کہ ضرور کرو یہ کام۔ کوئی پرابلم ہو، کچھ نہ سمجھ آئے تو میں حاضر ہوں۔ ایک دن آفس آیا۔ جھجھکتے جھجھکتے بولا " سر جی، آپ کا نام ہے۔ آپ کیوں نہیں اپنی ٹیم بنا لیتے؟

کام ہم کریں گے آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ بس اپنا نام کیش کروائیں۔ اچھے کلائنٹس آپ کو مل جائیں گے۔ ہم تو سٹوڈنٹس ہیں ہمیں بڑے کلائنٹس نہیں مل سکتے۔ آپ بھی کمائیں اور ہم بھی کمائیں۔ " یہ بات کرکے ساتھ ہی بولا " سر پلیز غصہ نہ کیجئے گا۔ بس آپ سوچیں ضرور۔ "۔ میں نے اس دن اس معصوم لڑکے کو ہنستے ہوئے کہا " ہاں سوچوں گا۔ فی الحال تم اپنے بھائی کے ساتھ کام سٹارٹ کرو۔ اللہ بہتر کرے گا۔ تم ٹیلنٹڈ ہو۔ مجھے جو ایونٹ کوریج کی انکوائریز آتیں ہیں وہ تم کو فارورڈ کر دوں گا۔ جتنا ہو سکا مدد کروں گا۔ "

ان دونوں بھائیوں نے کمپنی سٹارٹ کی تھی جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اور پھر یہ دونوں سوشل میڈیا پر پولیٹیکل اینڈ سوشل ایشوز پر مبنیٰ مزاحیہ طنزیہ ویڈیوز پوسٹ کرنے لگے۔ وقت کے ساتھ کافی بہتر بھی ہو گئے اور مشہور بھی ہوتے گئے۔ شیر علی سے زیادہ عون کھوسہ کام کرنے لگا۔ میں یونیورسٹی چھوڑ کر یو این میں چلا گیا تو مجھے واٹس ایپ پر اپنی ویڈیوز کا لنک بھیج دیتا کہ یہ دیکھیں کیسی ہے۔۔

عون کی سیاسی سوچ پرو پی ٹی آئی ہے لیکن اس نے کبھی ریڈ لائن کراس نہیں کی۔ ادارے پر کچھ ایسا نہیں پروڈیوس کیا جس سے ان کی ریڈ لائن کراس ہو۔ کیا سیاسی سوچ یا سیاسی جماعت سے ہمدردی رکھنا جرم ہے؟ اس کی طنزیہ ویڈیوز سیاسی حالات پر ہوتیں تھیں۔ جس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد اسے اُٹھایا گیا ہے وہ گانا بھی مہنگائی اور بجلی کے بلز پر بنایا ہوا ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس گانے میں ایسی کونسی ریڈ لائن کراس ہوئی ہے جس کی پاداش میں اٹھا لیا گیا ہے۔ بظاہر یہ کارروائی کسی طاقتور سیاسی شخصیت کا ذاتی غصہ معلوم ہوتی ہے۔

کراچی سے محمد فیصل شہزاد جو فیسبک پر کمنٹس اور جوابی کمنٹس کے تعلق میں تھے ایک پبلشنگ ہاؤس چلاتے ہیں۔ یہ معصوم سا انسان بچوں کی کہانیاں لکھتا اور پرنٹ کرتا ہے یا کچھ کُتب پبلش کرتا ہے۔ سات روز ہونے کو آئے وہ اٹھا لیا گیا ہے۔ غائب ہے۔ ایسے بے ضرر پبلشر سے کسی کو کیا تکلیف پہنچی ہے نہیں معلوم۔

جس نے بھی کسی سبب اُٹھایا ہے یہ قابلِ مذمت ہے۔ کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو اس کی گرفتاری ظاہر کریں۔ عدالت میں پیش کریں۔ یوں غائب کر دینا سراسر بدمعاشی ہے۔ کوئی بھی ہو کسی جانب کا بھی ہو ریاست یا اداروں کو کوئی شکایت ہو تو اس پر قانون کے مطابق کارروائی کریں۔ بالائے قانون جو بھی کام کیا جائے گا وہ غیر قانونی ہوگا اور اگر یہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ہی ہونے لگے تو پھر اناللہ ہی پڑھا جا سکتا۔

ایسی تمام حرکات سے عوام میں بددلی اور غصہ پھیلتا ہے۔ پاکستان میں بات کرنے کی سپیس چھینی جا چکی ہے۔ میری بس یہ التجا ہوتی ہے آپ زبانوں پر تالے لگا دیں مگر قانون کے مطابق تو چلیں۔ آپ کے پاس پیکا ایکٹ، ٹیکا ایکٹ اور نجانے کون کون سے قوانین موجود ہیں ان کے مطابق تو چلیں۔ آپ صرف ایک شخص کو غائب نہیں کرتے آپ اس کے پیچھے اس کی پوری فیملی کو سولی پر لٹکا دیتے ہیں۔

یہ باری کل کو مجھ سمیت باقیوں کی بھی آ سکتی ہے۔ ہر لکھنے بولنے والا شخص زد پر ہے اور ہر شخص اٹھایا جا سکتا ہے۔ لکھنے بولنے والوں کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی کونسی بات کونسا حرف کسی طاقتور کو اشتعال دلا دے۔ جب قانون لپیٹ کر رکھ دیا جائے اور جنگل کا قانون نافذ ہو جائے تو ایسے ماحول میں بس ڈر پنپتا ہے۔ جو آج چپ ہیں یہ بھی کل کو بھگتیں گے اور کچھ نہیں کر سکتے مگر کروڑ ہا کروڑ زندہ لاشیں یہ مطالبہ تو کریں کہ جسے اٹھانا ہو بیشک اٹھا لو پر اسے ظاہر تو کرو۔ مقدمہ تو بناؤ۔ عدالت میں تو لاؤ۔ اس کا اتا پتہ، خیریت اور ٹھکانہ تو معلوم ہو۔

Check Also

Qissa Aik Crore Ke Karobar Ka

By Ibn e Fazil