Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Aisa Kyun Hai

Aisa Kyun Hai

ایسا کیوں ہے

میں ٹریولر ہوں۔ خدا شاہد ہے کہ میں نے نوشکی کے اطراف میں سر تا پا برقعہ پوش عورت کے ہاتھوں میں رسی بندھی دیکھی ہے جس کی مہار آگے چلتے مرد کے ہاتھ میں تھی اور عورت کے پیچھے بچے چل رہے تھے۔ یہ سڑک سے گزرتا ایک خاندان تھا۔

سوات مٹہ کی یونین کونسل شوال یا شول(میں درست نام اب بھول رہا ہوں) کے ایک گاؤں میں یو این ڈی پی کے پراجیکٹ پر پہنچا تو دیکھا کہ عورتوں نے سر پر بھاری پیتل اور سلور کے گھڑے اٹھائے ہوئے ہیں جن میں نجانے کیا تھا(پانی یا خالی مجھے نہیں معلوم) اور دو مرد ان پانچ عورتوں کو درخت کی ٹہنی سے ہانکتے چلے جا رہے تھے۔ خود خالی ہاتھ تھے۔ معلوم کرنے پر پتہ لگا کہ یہاں معمول ہے۔

ڈی ایچ کیو کوئٹہ میں ایک عورت لائی گئی جو دور کہیں پہاڑوں پر رہنے والی تھی۔ اس نے چارپائی پر ہی تین سال تین بچے پیدا کیے تھے اور اس کی بیماری کا یہ حال تھا کہ کمر کی جِلد چارپائی کے ساتھ جڑ چکی تھی جس میں پیپ پر چکی تھی۔ اس کو اسی چارپائی سمیت اٹھا کر لایا گیا تھا کیونکہ اس کا جسم چارپائی سے الگ ہی نہیں ہو سکتا تھا اور نیم برہنہ حالت میں لایا گیا تھا۔ وجہ یہ کہ وہ جہاں بستی تھی وہاں مرد ڈاکٹر کو دکھانے یا ہسپتال جانے کا رواج نہیں ہے۔

اپنے کھاتے پیتے پنجاب میں میں نے ایک تیرہ چودہ سالہ بچی دیکھ رکھی ہے جس کو گھر میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا وہ بھی سگے رشتوں کے ہاتھوں۔ اس بچی کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے ذریعہ بازیاب کروایا گیا تھا اور آپ کو بتاؤں کہ کیسے؟ گھر کا ہی وہ فرد جو خود اس کارِ شیطانی میں کبھی ملوث تھا اس نے سارا ماجرا بیورو کو اس واسطے جا سنایا کہ اب اس کا "نمبر" نہیں آتا تھا۔ اس بچی کو یونیسف نے اسلام آباد منتقل کیا اور ایک بہترین ادارے کے سپرد کیا جو یتیم و لاوارث بچوں کو پالتا ہے۔

میں نے اس معاشرت میں بہت کچھ دیکھا ہے۔ عینی شاہد ہوں۔ کوئٹہ سے خنجراب اور کراچی سے پشاور تک بلا تفریق رنگ و نسل و ذات پات المئیے دیکھے ہیں۔ بہت سے واقعات ذہن سے محو ہو چکے ہیں۔ اس بات کو آپ مانیں یا نہ مانیں مگر ننگی حقیقت یہی ہے کہ دیہی علاقوں اور شہروں سے دور بستی عورت کی زندگی جانور سے بدتر ہے۔ شہری علاقوں کی صورتحال مختلف ہے۔ یہاں مرد گھریلو استحصال کا شکار ہے۔ یہاں قدم قدم پر "عورت کارڈ" کی ڈھال بنائے مرد مار قسم کی برائے نام عورتیں بھی ہیں جن کے پاس یہی لیوریج ہے کہ جسمانی خدوخال عورت والے ہیں مگر یہ مملکتِ خداداد پچھہتر فیصد دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔

ایسا کیوں ہے؟ اگر آپ کہیں کہ تعلیم سے دوری یا تعلیم کی کمی کے سبب ہے تو میں کہوں گا ہرگز نہیں۔ ماڈرن تعلیم جب نہیں تھی تب بھی سماج تھے۔ آج سے صدیوں قبل کا انسان بھی مہذب تو تھا۔ اس کی وجہ ہمارا ڈی این اے ہے۔

نوشکی سے لیکر کھاتے پیتے پنجاب تک عورت کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے وہ اک جانب مگر جو دور دراز گاوؤں میں قائم بیسک ہیلتھ یونٹس (BHUs) کا حال ہے ان کا کوئی حال نہیں۔ میں نے اپنے ادارے کے دو ذیلی اداروں یونیسیف کے لیے مستقل اور ڈبلیو ایچ او کے لیے بوقت ضرورت کام کرتا ہوں۔ ایک ادارہ صرف بچوں کی صحت کے مسائل دیکھتا ہے جبکہ دوسرا ادارہ عمومی صحت کے مسائل۔ ملک کے طول و عرض میں بیسک ہیلتھ یونٹس کے دورے کرتا رہتا ہوں۔ ان دیہی مراکز صحت میں ڈسپرین و پیناڈول کے ساتھ کھانسی کے شربتوں کے سوا کوئی دوا عام طور پر میسر نہیں ہوتی۔ یوں نہیں کہ ان کو ادویات فراہم نہیں ہوتیں۔ مقامی عملہ ادویات کو مریضوں سے چھپا کر رکھتا ہے۔ بااثر مقامی افراد، عملے کے اہل و عیال، یاروں دوستوں کے واسطے وہ ادویات سائیڈ پر چھپا لی گئیں ہوتیں ہیں۔

سندھ میں کتے کے کاٹے کی ویکسینیشن، سانپ کے کاٹے کی ویکسینیشن، مرہم پٹی کا عام سامان، ٹینچر پایوڈین وغیرہ سے لے کر دل کے مریضوں کی ادویات اور پریگننسی و ڈلیوری میں استعمال ہونی والی ادویات سب عام لوگوں سے دور کر دیں جاتیں ہیں۔ نتیجتہً ایک عام حالات میں نارمل ڈلیوری کرتے بھی عورتیں یا تو جان سے ہاتھ دھو رہی ہیں یا پیچیدہ امراض کا شکار ہو جاتیں ہیں۔ المیہ تو یہ بھی نہیں۔

المیہ یہ ہے کہ ان دیہی مراکز صحت میں وہ تمام ضروری ادویات جو مقامی عملہ اپنے عزیز و اقربا واسطے چھپا رکھتا ہے وہ کام نہ آنے کے سبب وقت کے ساتھ ایکسپائر ہو جاتی ہیں اور پھر وہی ایکسپائر ادویات کام پڑنے پر عزیز و اقرباء کو دے دی جاتیں ہیں۔ اکثر ہیلتھ یونٹس کا ادویات کی وصولی کے اندراج اور کھپت کے اندراج والا رجسٹر ہی غائب ملتا ہے۔ نہ ہوگا کھاتہ نہ کر پائے گا بابو کچھ۔

یہ مملکت خداداد پاکستان ہے۔ اس ملک کے قیام کو خدا کے معجزوں میں سے ایک معجزہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کو وہ نور بتایا جاتا رہا ہے جس کو زوال نہیں۔ یہ وہ دھرتی ہے جہاں سے اُمہ کی نشاۃ ثانیہ کا پرچم بلند ہونا ہے۔ اسلام کا قلعہ ہے۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ ہے۔ نہیں ہے تو اس ملک میں سسکتی، مرتی، پیاسی عوام واسطے سوائے جہالت کے کچھ نہیں ہے اور جو تھوڑا بہت بحکم سرکار میسر ہے بھی تو اس پر عام پاکستانی ہی عملے یا اہلکار کے روپ میں سانپ بنے بیٹھے عوام کو ڈس رہے ہیں۔

مجھے چونکہ شاعری سے شغف ہے اس واسطے اس ملک میں چلتے پھرتے، دیکھتے اور لکھتے حسب حال شعر خود ہی ذہن میں آ جاتا ہے۔

کہیں نغمگی میں وہ بین تھے

کہ سماعتوں نے سنے نہیں

کہیں گونجتے تھے وہ مرثیے

کہ انیسؔ نے بھی کہے نہیں

جو روش ہے صاحبِ تخت کی

سو مصاحبوں کا طریق ہے

یہاں کوتوال بھی حلیفِ شب

یہاں شیخ دیں بھی فریق ہے

یہاں روز حشر بپا ہوئے

یہاں کوئی بھی روزِ جزا نہیں

یہاں زندگی بھی عذاب ہے

یہاں موت میں بھی شفا نہیں

Check Also

Lahu Ka Raag

By Mojahid Mirza