Airsial, Sialkot Ki Product
ائیر سیال، سیالکوٹ کی پراڈکٹ
گزشتہ چند دنوں سے میں اپنے کام کے سلسلے میں کراچی، کوئٹہ اور اسلام آباد تا لاہور کے بیچ سینڈوچ بنا سفر میں ہوں۔ ادارے نے مجھے ائیرسیال کے حوالے کر رکھا ہے۔ یہ داستان ہے ائیرسیال کی، مس روبینہ کی اور کیپٹن بٹ صاحب کی۔
سیالکوٹ سے مجھے عشق کیونکر نہ ہو۔ یہ شہر میری جنم بھومی ہے۔ میرا آبائی شہر ہے۔ گزشتہ ہفتے لاہور سے کراچی کی فلائٹ پر داخل ہوتے جہاز کے دروازے پر بوجوہ قطار کچھ دیر رکنا ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کھُلے ہوئے دروازے کے اندر ایک سٹیکر لگا ہے جس پر جہاز کی مینوفیکچرنگ ڈیٹ سنہ 2006 لکھی ہوئی ہے۔ میرے دماغ نے فوری حساب لگا کر بتایا کہ جہاز سولہ سال پرانا ہے۔ خیر، ائیربس 320 میں داخل ہوا تو اندر سے صفائی ستھرائی اور اندرونی میک اپ اچھا تھا۔
جہاز روانہ ہوا تو جہاز میں مس روبینہ کی آواز گونجی۔ لہجے سے فوراً پہچان گیا کہ صرف ائیرلائن ہی سیالکوٹی نہیں عملہ بھی شاید سیالکوٹی ہے یا کم از کم مس روبینہ ضرور سیالکوٹی ہیں۔ ان کا اردو لہجہ بھی میرے اردو لہجے جیسا ٹیٹھ سیالکوٹی تھا۔ اہلیانِ سیالکوٹ کا پنجابی لہجہ ایسا مخصوص لہجہ ہے کہ انگریزی بولتے ہوئے بھی پہچانے جاتے ہیں کیونکہ بولتے سیالکوٹی لہجے میں ہی ہیں۔ یہاں کے باسی پنجابی کا لفظ "دا" جگہ جگہ یوں استعمال کرتے ہیں جیسے مملکت کی عوام الناس جگہ جگہ دا لگانے کو تیار بیٹھی ہوتی ہے۔ مس روبینہ بھی اناؤنسمنٹ کرتے اردو میں"دا" لگا گئیں۔
"ہم پینتس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے انشاءاللہ ایک گھنٹہ پچاس منٹ میں جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر اتریں گے۔ راستے "دا" موسم خوشگوار ہے۔ "
مجھے سُن کر یقین آ گیا کہ مس روبینہ سو فیصد سیالکوٹی ہیں۔ جیسے ہی اناؤنسمنٹ کرکے ہٹیں مجھے ان کو دیکھنے کا اتفاق ہوگیا۔ یوں تو میں نے اندرون ملک پروازوں میں بڑی بڑی بیزار ہوسٹس دیکھیں ہیں مگر مس روبینہ کی شانِ بیزاری ہی وکھری ٹائپ کی تھی۔ چہرہ کھچا ہوا، ماتھے پر اس قدر تیوریاں کہ میک اپ سے چھپائے نہ چھپ رہی تھیں۔ آنکھوں سے یوں دیکھتیں جیسے مسافروں پر پھٹکار بھیج رہی ہوں۔ گاہے گاہے اپنی ہی عملے کو کوستیں۔ ایک ائیرہوسٹس کھانے اور ڈرنکس کی ٹرالی تیار کرنے لگی تو بولیں۔
"تم بھی کچھ سیکھ لو اب تو۔ قطار نمبر نو تک تم نے کور کرنا ہے اور پانی کی بوتل ایک ہی رکھی ہے۔ میں نہ ہوں تو تم سے کچھ نہ ہو پائے"۔
جونئیر ہوسٹس شاید فیصل آباد کی تھی۔ اس نے پلٹ کر جواب دیا۔
"روبینہ تم نہ ہو تو جہاز بھی کیسے اڑے گا۔ تم تو ہماری کپتان بھی ہو"۔ مس روبینہ نے اسے گھوری ڈالی تو ہوسٹس جھینپ گئی اور ٹرالی لے کر چل پڑی۔
میرے برابر جہاز کی راہداری تھی۔ راہداری کے پار پہلی سیٹ پر ایک انعام رانا قسم کے بزرگوار بیٹھے تھے۔ سانولے سلونے، سر سے فارغ البال مگر شوخ رنگے چمکیلے نیلے پینٹ کوٹ میں ملبوس جس کے اندر لال سرخ ٹائی آنکھوں کو مزید خیرہ کر رہی تھی۔ مزاجً بھی شوخ رنگے تھے۔ بار بار ہوسٹس کال کرتے۔ مس روبینہ کی ڈیوٹی اگلی نشستوں کے مسافروں پر تھی جو بزنس کلاس یا فرسٹ کلاس نما ہوتے ہیں گو کہ ڈومیسٹک فلائٹس میں کوئی کلاس ہوتی نہیں ہے۔
نجانے ان بزرگوار کو مس روبینہ سے کیا چاہئیے تھا جو گاہے گاہے ان کو طلب کر لیتے۔ مس روبینہ جھک کر ان کی بات سنتیں اور پھر فٹے منہ جیسا روائتی چہرہ بنا کر لوٹ جاتیں۔ تیسری بار کال کرنے پر جب مس روبینہ پلٹیں تو میں نے ان کے منہ سے زیرِ لب بڑبڑاتے ایک لفظ سُنا۔ "آرامدہ"۔ ہاں، شاید انہوں نے یہی کہا تھا۔ آپ کو معلوم تو ہے کہ سیالکوٹی لفظ "دا" کا بہت استعمال کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ انہوں نے "آرام دہ" ہی کہا تھا۔
کچھ دیر گزری ہوگی کہ جہاز کو ٹھنڈ لگنا شروع ہوگئی۔ ظاہر ہے جہاز بھی بزرگ تھا اور پینتس ہزار فٹ پر تاتمان منفی ڈگری میں تھا۔ پرواز ناہموار ہوتی چلی گئی۔ ایسے جیسے تپ دق کا مریض سرد ہوا کے سبب کھانستا جائے۔ اول اول تو میں شانت ہی رہا کہ ہوائی سفر کا یہ معمول ہوتا ہے مگر پھر دو چار جھٹکے ایسے لگے جیسے ابھی مریض کا سانس نکلا کہ نکلا۔ میرا دل بیٹھنے لگا تو میں ذرا الرٹ ہو کر کھڑکی سے باہر دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔
ابھی باہر دیکھ ہی رہا تھا کہ مس روبینہ سر پر آن پہنچیں۔ اچانک ان کا احساس ہونے پر میرے طوطے اڑ گئے کہ یا الہٰی خیر۔ ایک تو جہاز کانپ رہا ہے اوپر سے مس روبینہ کی توجہ مجھ پر کیوں ہو رہی ہے؟ ڈر کے مارے میں نے ان کے چہرے کی جانب نگاہ کی تو وہ جھک کر میرے قریب ہوئیں۔
"سر، فلائٹ ہموار ہو جائے تو آپ کیبن میں آ جائیں۔ کپتان فیضان بٹ آپ سے ملنا چاہتے ہیں"۔
میں نے سن کر شکر ادا کیا کہ فی الحال عملے کی جانب سے خیر ہے۔ کچھ لمحوں بعد جہاز سنبھل گیا۔ مس روبینہ پھر سے آئیں اور مجھے کاک پٹ میں لے گئیں۔ زندگی میں دوسری بار کمرشل جہاز کے کاک پٹ میں داخل ہوا تھا۔ جہاز کے کپتان بٹ صاحب نے مجھے پہچان لیا تھا اور وہ مجھ سے ملاقات کے خواہاں تھے۔ جیسے ہی کاک پٹ میں داخل ہوا وہ اٹھ کر مصافحہ کرنے لگے۔ میں نے ان کے گوش گزار کیا کہ بٹ صاحب آپ اپنی سیٹ پر بیٹھ جائیں ورنہ میرا دل بیٹھ جائے گا پہلے ہی جہاز بمشکل سنبھلا ہے۔ سُن کر بٹ صاحب نے پہلوانی قہقہہ لگایا۔
میں فلائٹ ٹیکنیشن کی سیٹ پر بیٹھ گیا جو خالی تھی اور پائلٹ کے عین پیچھے واقع تھی۔ بٹ صاحب کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا۔ انہوں نے اپنے بارے مفصل بتایا کہ وہ شوقیہ فوٹوگرافر بھی ہیں اور اس شوق کو پورا کرنے کے سلسلے میں ان کے پاس فلاں فلاں کیمرے بھی موجود ہیں۔ ہر جملے کے آخر میں وہ پہلوانی قہقہہ برسا دیتے۔ گفتگو پنجابی میں ہو رہی تھی۔
میں نے پنجابی میں بٹ صاحب کا شکریہ ادا کیا اور سسپنس دور کرنے کی غرض سے پوچھا "بٹ صاحب اے جاز کنا پرانا اے؟" انہوں نے قہقہہ لگاتے فرمایا "چودہ پندرہ سال"۔ میں نے پھر پوچھا "تے عملہ؟" اب کے بھرپور قہقہہ گونجا جس میں فرسٹ آفیسر پائلٹ کی پھسپھسی ہنسی بھی شامل تھی۔ ان کی اس ہنسی سے مجھے گمان ہوا کہ یہ سیالکوٹ سے گوجرانوالہ کے درمیاں واقع ڈسکہ کے ہوں گے۔ کنفرم کرنے کو پوچھا تو جواب آیا کہ ان کا تعلق وزیرآباد سے ہے۔
اتنے میں مسافر بیزار مس روبینہ انتہائی چمکتی، خوش خوش اور مسکان بھرے چہرے کے ساتھ اندر داخل ہوئیں۔ پائلٹ سے مسکراتے ہوئے کچھ رسمی جملوں کا تبادلہ کیا اور پھر میری جانب انتہائی خوش اخلاقی سے پیش آتے متوجہ ہوئیں"سر آپ کافی پینا پسند کریں گے یا چائے"؟ میں بٹ صاحب کی بدولت پنجابی موڈ میں آن تھا۔ میں نے جواب دیا "مس چھڈو۔ تسی سیالکوٹ دے او ناں؟"
"یس یس۔ آپ کو کیسے معلوم ہوا؟" مس روبینہ حیران ہوتے بولیں۔ میں نے ان کو کہا "میں وی سیالکوٹ دا ہے گا۔ لہجہ پہچان لیا سی تواڈا"۔ مس روبینہ چہک کر بولیں"تسیں تے گرائیں نکل آئے۔ بٹ صاحب وی گوجرانوالے دے نیں۔ لاگے ای رہندے نیں"۔
پندرہ بیس منٹ کاک پٹ میں بتائے۔ بٹ صاحب نے مجھے فوٹوگرافی پر اتنی معلومات مہیا کیں کہ مجھے لگنے لگا یہ پروفیشنل فوٹوگرافر ہیں اور شوقیہ پائلٹ ہیں۔ ویسے اگر بٹ صاحب کو ناگوار نہ گزرے تو میں اپنے اس بیان پر ڈٹ کر کھڑا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ جہاز اڑانے سے زیادہ توجہ ان کی فوٹوگرافی پر ہے۔ واپس اپنی سیٹ پر آن کر بیٹھا تو جہاز پھر سے ہچکولے لینے لگا۔ کراچی اترتے جہاز نے کچوکے کھائے۔ انگرائیاں لیں اور پھر بٹ صاحب نے ٹھاہ کرکے جہاز کے پہئیے رن وے پر مارے۔ جہاز نے ایک بار تو ٹپہ کھایا مگر دوسری بار رن وے پر پاؤں جما لیے۔ میں نے جہاز کو چھوڑتے ہی مولا کا شکر ادا کیا اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
تین دن بعد مجھے کراچی سے کام بھگتا کر اسلام آباد جانا تھا۔ اتفاق دیکھئیے کہ جہاز کا عملہ وہی تھا یعنی مس روبینہ دروازے پر ویسی ہی بیزار کھڑیں تھیں۔ مجھے پہچان کر ہلکا سا تبسم فرمایا۔ میں نے تورنت پوچھا "پائلٹ بٹ صاحب ای نیں؟" مس روبینہ نے بھی تکلف اور ڈیوٹی کے لحاظ کو کھڑے کھڑے ہوا میں اڑاتے جواب دیا "نئیں سر او تے لہوڑ گئے نیں"۔
سیالکوٹی طیارہ پھر سے ہوا میں خوب لرزہ اور اسلام آباد آتے مس روبینہ نے دو تین مسافروں کو "آرام دہ" کہا۔ اسلام آباد سے کوئٹہ گیا اور کوئٹہ سے لاہور آیا مگر مس روبینہ یا کپتان بٹ سے دوبارہ ملاقات نہ ہو پائی۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ میں نے ان دونوں کو بہت مِس کیا البتہ جہاز چونکہ رعشہ کے مریض تھے اس واسطے انہوں نے مجھے سکون سے مِس نہ کرنے دیا اور تھرتھلی ہی مچائے رکھی۔
صاحبو، ابھی میں لاہور ائیرپورٹ کے لاؤنج میں بیٹھا ہوں اور پھر سے ائیر سیال کی کراچی کی فلائٹ کا مسافر ہوں۔ دیکھئیے نصیب میں مس روبینہ یا کپتان بٹ پھر سے لکھے ہیں یا نہیں۔ التماسِ دعا۔