Rehmat Se Zehmat, Ik Nukte Wich Gal Mukdi Aye
رحمت سے زحمت، اک نقطے وچ گل مکدی اے
چشمِ ظاہر موند لیجیے۔ چشمِ تصور وا کیجیے۔ ذہن کو ٹائم مشین بنائے، تخیل کے پروں پر اڑا کر ماضی کی فضاؤں میں ساڑھے چودہ صدیوں کا سفر طے کیجیے۔ اتر جائیے اس ریگستان کی گھاٹیوں میں جہاں رحیم و کریم خدا ایک ہستی کو بتاتا ہے کہ "آپ دونوں جہانوں کے لیے رحمت ہیں" یہ لیجیے ہدایت کی کتاب جسکو ابدیت حاصل ہے۔ اسے انسانیت میں عام کر دیجیے۔
وہاں کہیں ایک نوجوان صحابی ہے محنت مزدوری کرتا ہے اور خدا کی کتاب کا علم پانے آپ کے پاس حاضر ہوتا ہے۔ جنابِ رحمت للعالمین، رحیم خدا کی ہدایت کی کتاب کا علم اس بچے کو کیسے دیں گے؟ یہ انسانیت کے لیے ابدی نمونہ قرار دیے گئے اسوہِ حسنہ کا فیض ہے کہ نہ کوئی کیمرہ، نہ مائیک، نہ ریکارڈنگ نہ سوشل میڈیا پر وائرل۔ چشمِ تصور سے ریکارڈ کردہ ویڈیوز طریقت کی مشعلِ راہ ہیں۔ یہ ویڈیوز تصور کی میموری میں محفوظ کرکے اب آ جائیے آج کے عہد میں واپس۔ چشمِ ظاہر کھول لیجیے۔۔ تین ویڈیوز اور ایک آڈیو حاضر ہے۔ تقابلی جائزہ لے لیجیے۔
منبرِ رحمت للعالمین و نسبِ صادق و امین ﷺ پر ایک معلم براجمان ہے۔ یہ خود کو رحمت للعالمین ﷺ کا وارث کہتا ہے۔ سامنے ایک طالبعلم ہے۔ یہ مستقبل میں فلسفہِ رحمت للعالمین کا وارث بننا چاہتا پے۔ عمامے کی بجائے جالی والی ٹوپی میں ہدایت کی اس کتاب کا علم حاصل کرنے آیا ہے۔ سنا ہے مزدوری وغیرہ کرکے اپنا اور اپنی ماں کا پیٹ پالتا ہے۔ عمامے کی بجائے جالی والی ٹوپی پہننے کے "سنگین ترین جرم" میں معلم اس پر درج ذیل فرمودات جاری کرتا ہے۔۔
یہ جو جالی والی ٹوپی میں شیطان بیٹھا ہے اسے پیچھے کھڑا کرو۔
کوئی نر کا بچہ ہے تو اسے زور دار تھپڑ لگاؤ۔
ہم یہاں مزاق تو نہیں کرنے بیٹھے آج دیکھ تیرے ساتھ میں کیا کرتا ہوں۔
شکر کر ابھی میں تجھے کفر تک نہیں لے کر جا رہا۔
عبداللہ نامی جلاد کو بلاؤ اسے دس ڈنڈے لگاؤ۔
ہاں ایسے۔ اب مزا آیا ناں، یہ والدِ مرحوم کی سنت بھی پوری ہوئی کہ جلاد کو بلاؤ اور ساتھ ہی حد نافذ کر دو۔
عبداللہ، اسے دفترِ نظامت میں لے جاؤ اور انہیں کہو اسے نشانِ عبرت بنا دیں۔
اگر یہ ہاتھ لگائے تو مجھے بتانا پھر میں اسکو دیکھوں گا۔
بیٹا تو پڑھے گا یا نہیں یہ فیصلہ تو میں کروں گا ابھی تو تو میرے اختیار میں ہے۔ میں جو چاہے تیرے ساتھ کروں۔
دعا کرو خدا اسکی زندگی کتے سے بھی بدتر بنا دے اور ایسے لوگوں کے شر سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔
آمین کیوں نہیں کہتے بڑے بے غیرت ہو تم لوگ۔
(یچشمِ ظاہر کی ویڈیو، رحمت للعالمین ﷺ کی چشمِ تصور والی ویڈیو سے اتنی متصادم و متضاد کیوں ہے؟)
ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہے۔ معلم کہتا ہے "میں کوئی وضاحت نہیں دے رہا" لیکن لڑکا دورانِ درس موبائل استعمال کر رہا تھا۔ اس لیے یہ سزا دی۔ ہمیں دفترِ نظامت والوں نے کچھ مستقل ڈسپلن توڑنے والوں کی تنبیہہ کرنے کا کہا تھا۔ طالبعلم نے بد تمیزی کی تھی۔ اس لیے تنبیہہ ضروری تھی۔ یہ بچے ہماری ذمہ داری ہیں۔ ان کے ماں باپ انہیں ہمارے حوالے کرتے ہیں۔ ہم انہیں ماں باپ کی طرح رکھتے ہیں۔ (تو کیا ماں باپ جالی والی ٹوپی پہننے پر حد اور کفر کے فتوے لگاتے ہیں)۔ دنیاوی تعلیم کے اداروں میں کیا کیا ہوتا ہے میں منہ نہ کھولوں تو بہتر ہے (واقعی آپ منہ نہ ہی کھولیں تو بہت بہتر ہے)۔۔ اگلی ویڈیو اس طالبعلم کی آتی ہے۔ جیب سے بٹنوں والا پرانا سا موبائل نکالتا ہے۔
(نسبِ صادق و امین پر بیٹھا معلم رحمت للعالمین کی طریقت کی توہین کرتے اپنے رویے کی ڈھال ایک جھوٹ کو بناتا ہے۔ الٹا طالبعلم پر تہمت لگا دیتا ہے۔ نسبِ صادق و امین کیا ہوا؟ کفر کے فتوے سے بچتا اور جلاد کے ذریعے حد نافذ کرتا عمامے کی جگہ جالی والی ٹوپی پہننے کا جرم اب موبائل کے استعمال میں بدل دیا گیا۔ گویا دورانِ درس موبائل استعمال کرنا کفر ہے۔ اگر ہاں تو معلم خود ویڈیو میں موبائل پر کسی سے بات کرتا دیکھا جا سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر اس رعونت کی بھد اڑتی رہتی ہے۔ اب ایک اور ویڈیو آتی ہے۔ ایک بڑے ملاں صاحب تشریف لاتے ہیں۔ ایک طرف معلم ہوتا ہے دوسری جانب طالبعلم۔ کہتے ہیں مجھے بھی غصہ آئے تو منہ سے کچھ نکل سکتا ہے۔۔ جسے Heat of the moment کہتے ہیں۔۔ غصے کو حرام قرار دینے والے احکامات ایک انگریزی اصطلاح کی مار نکلے۔ فرماتے ہیں۔ نامی گرامی میڈیا جسکا دین سے تعلق نہیں، بات کا بتنگڑ بنا رہا ہے۔ نام نہاد کہنا چاہتے تھے۔۔ ایک اور ڈھال۔۔ یعنی انتہا درجے کی بد اخلاقی اور بدسلوکی سے کفر کے فتوے تک Heat of the moment ہیں۔
روزانہ لاکھوں علما کبھی کسی موڈ میں ہوتے ہیں کبھی کسی۔ ہم دین کی خدمت کر رہے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ مولانا انور صاحب سے غلطی نہیں ہوئی لیکن پھر بھی سوشل میڈیا جسکا دین اور دینی اداروں سے کوئی تعلق نہیں انہوں نے پروپیگینڈا کیا کہ طالبعلم کے کانوں کے پردے پھٹ گئے۔ کسی نے کہا ایک آنکھ ضائع ہوگئی۔ ایک ہفتہ پرانے واقعہ کو اچھالا گیا۔ (آپ اندازہ لگائیں سنگین ترین انسانیت سوز جرائم پر ایک جملہ اور ڈھال بنائی جاتی جزئیات پر طویل تاویلات۔ ملائیت اور منافقت میں صرف ہجوں کا فرق ہے۔ بندہ پوچھے جہاں آئے روز بچوں کی صحت تو کجا زندگیوں کے معصوم چراغ اذیت ناک ترین موت دے کر ان مدرسوں میں بجھا دیے جاتے ہیں وہاں تم کیا کرتے ہو؟)۔
اب جی طالبعلم کی باری آئی اور کہنے لگا میں اپنے منہ سے یہ الفاظ ادا نہیں کر سکتا کہ میں نے استاد جی کو معاف کیا۔ بس میں سب سے کہتا ہوں کہ آپ جو میرے فائدے کے لیے بھی کر رہے ہیں اس میں میرا نقصان ہے اس لیے بس معاملے کو ختم کریں۔
اب جی بڑے ملاں صاحب جب مجرم کو مائیک دینے لگتے ہیں تو طالبعلم کے ساتھ بیٹھا ایک لحیم شحیم ملاں اسے کان میں کچھ کہتا ہے اور طالبعلم کہتا ہے کہ میں کچھ اور بھی کہنا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ میں تمام علماءِ کرام سے معافی مانگتا ہوں اور ساتھ ہی بڑے ملاں صاحب کا چہرہ کھل اٹھتا ہے اور وہ کہتے ہیں۔۔ دیکھو یہ ہے ہماری تربیت کہ الٹا طالبعلم معافی مانگ رہا ہے۔ (بھئی قربان جائے بندہ آپکی تربیت پر، یعنی آپ نے عمامے کی جگہ ٹوپی پہننے پر مجھ پر کفر کا فتویٰ لگایا۔۔ کسی نر کے بچے سے مجھے تھپڑ لگوائے۔۔ جلاد بلا کر مجھے ڈنڈے مروائے۔۔ کتے سے بدتر زندگی کی بد دعائیں دیں اور نشانِ عبرت بنا کر مدرسے سے نکالنے کا حکم دیا۔۔ اس سب کے لیے میں آپ سے معافی مانگتا ہوں۔۔ آپ اندازہ لگائیں یہ اس نبی ﷺ کے وارث خود کو کہتے ہیں جن سے کسی کو غلطی سے کوئی چھڑی لگ گئی تو اسکو چھڑی تھماتے ہوئے کہا " لو بھئی اپنا بدلہ لے لو"۔۔
پھر اسکے بعد معلم صاحب کی باری آتی ہے۔ پہلے روائیتی تاویلات فرماتے ہیں خود کو فرعون و نمرود سے تشبیہہ دینے والوں کو روزِ حشر خدا کی عدالت کی عدالت میں بازپرس کا عندیہ دیتے ہیں۔ بندہ پوچھے فرعون کہنے والوں کو خدا پوچھے گا اور آپکو یہ فرعونیت دکھانے پر خدا نہیں پوچھے گا؟ بہرحال اسکے بعد فرماتے ہیں کہ مجھے نہیں پتا تھا کہ بھائی ضیاالحق بائیکیا چلا کر والدہ کی خدمت کرنے کی وجہ سے رات سوئے نہیں تھے اس لیے کلاس میں سو رہے تھے۔
آپ اندازہ لگائیں ٹوپی پہننے پر کفر کا فتویٰ دیتا اور حد نافذ کرتا یہ آدمی، میں کوئی وضاحت نہیں دے رہا میں موبائل و بدتمیزی کا بہتان گھڑتا اب بڑی ڈھٹائی سے کلاس میں سونے کی بات کر رہا تھا۔ کوئی پوچھے کلاس میں سونا کفر ہے کیا؟ کھوکھلی تاویلات میں ملفوف معزرت کرتے ہوئے طالبعلم کو گلے لگایا اور کہانی ختم۔ بہرحال بے دین سوشل میڈیا کی وجہ سے دیندار کی زبان پر کفر، نفاذِ حد اور کتے سے بدترین زندگی والا طالبعلم اب ضیاالحق بھائی اور دستارِ فضیلت کا اہل بن چکا تھا یہی آئینہ کافی ہے۔
سوچیے کہ اگر یہ ویڈیو ریکارڈ ہو کر وائرل نہ ہوتی تو کیا ان قبیح ترین اخلاقی جرائم پر ملائیت کے کان پر جوں بھی رینگتی۔ اجی یہ تو اخلاقی جرائم تھے یہاں سے تو آئے روز جنسی، جسمانی اور روحانی تشدد سے لے کر اذیت ناک ترین موت مرتے بچوں کی خبریں تک آتی ہیں تو یہ غیر انسانی سماج اسے مذہب کی ڈھال میں بھول بھلا جاتا ہے۔ اب پتا چلا کہ ملائیت کیمرے کو حرام کیوں قرار دیتی ہے۔ کیونکہ کیمرے پر ریکارڈ ہونے کی صورت میں جسے وہ "دینی خدمت" کہتے ہیں اس پر معافی مانگنی پڑتی ہے۔
چشمِ تصور سے چشمِ ظاہر کا سفر کتنا متضاد ہے۔ کہاں تصور کے کیمروں میں عالمین کے لیے رحمت بنتی ویڈیوز، کہاں چشمِ ظاہر سے دکھتی یہ زحمت بنتی ویڈیوز۔ رحمت اور زحمت میں فرق ایک نقطے کا ہے۔ ایک نقطہ انسان کو محرم سے مجرم بنا دیتا ہے۔ سلامتی کے دین کے محرم کہلانے والے رحمت کو زحمت بنا کر اسکے مجرم ہیں۔ دراصل علم و عمل سے معافی اس پر مانگنی چاہیے۔ بقولِ بلھے شاہ صاحب
"اک نقطے وچ گل مکدی اے"