Aik Chota Sa Larka Tha Mein Jin Dino
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
لطیف ٹیلر گلی کی نکڑ پر واقع تھا۔ دسیوں چکروں اور بیسیوں ترلوں کے بعد لطیف چچا سالگرہ سے ایک دن قبل سلا ہوا شلوار کرتہ گھر دے جاتے۔ اماں کہتیں کہ درزی اگر چکر نہ لگوائے تو کاہے کا درزی۔ اماں کرتہ شلوار استری کرکے میرے کمرے میں ٹانگ دیتیں۔ میں ساری رات کچی نیند میں اسے آنکھ کھول کھول تکتا رہتا، مسکراتا، اور پھر آنکھ لگ جاتی۔
والدین کا اکلوتا بیٹا ہونے کے ناطے میری سالگرہ کا بھرپور اہتمام کیا جاتا۔ والد اپنے زمانے کے رئیس تھے۔ سن 82 میں پہلی اپریل کی صبح میری پیدائش ہوئی تو اسی ماہ والد نے مشہور زمانہ کورولا 82 ماڈل خرید لی۔ سیالکوٹ صنعت کاروں کا شہر تھا۔ بڑے بوڑھے بتاتے رہے کہ اس دور میں سیالکوٹ کی سڑکوں پر دو ہی کورولا کار چلتی تھیں جن میں سے ایک والد کی تھی۔ والد گو کہ سخت مزاج تھے مگر میرے آنے کی اتنی خوشی تھی کہ میرے دودھ کے واسطے ایک عدد بھینس بھی خریدی گئی اور اس کی رکھوالی کو ایک بندہ بھی تنخواہ پر مقرر کیا گیا۔ مگر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ مجھے بھینس کا دودھ راس نہ آیا۔ ڈاکٹر نے میجی برآنڈ کا خشک دودھ لکھ دیا۔ اس زمانے میں میجی کا خشک دودھ امیروں کے بچے ہی افورڈ کر پاتے تھے۔ گھر میں میجی کے ڈبوں کے کاٹن آنے لگے۔
سالگرہ کا دن آنے والا ہوتا تو باقاعدہ دعوت نامے چھپتے۔ والد کے کاروباری دوستوں میں بٹتے۔ امی کی ساری خوشی تو میرے ننھیال کو مدعو کرنے میں ہوا کرتی۔ رشتے دار جمع ہوتے۔ سالگرہ کی صبح والد صاحب ایک بڑے سے کیک اور دعوت کے لوازمات پورے کرنے میں مشغول رہا کرتے۔ مجھے اپنی سالگرہ کا سال بھر یوں بھی انتظار رہا کرتا کہ یہ دن میرے گھر کے آنگن میں عید جیسا دن ہوا کرتا تھا۔ رنگین جھنڈیوں و غباروں سے گھر کو سجایا جاتا۔ شام ڈھلے مہمان آنے لگتے۔ ماموں آتے، خالہ آتیں، چچا آتے۔
تیس مارچ کی رات مجھے خوشی کے مارے نیند نہیں آیا کرتی تھی کہ اگلے دن کی شام یعنی اکتیس مارچ و یکم اپریل کی درمیانی شام گھر میں عید سا میلہ لگا کرتا۔ اماں کے چار بھائی، ایک بہن تھیں۔ نانا نانی بھی آتے۔ ہیپی برتھ ڈے کی تالیوں میں کیک کٹ جاتا تو سب مجھے باری باری چومتے اور گفٹ میرے حوالے کرنے لگتے۔ گفٹ کیا ہوتے؟ طرح طرح کے کھلونے۔ میں وہ سب گفٹ وہیں ایک ایک کرکے سب کے سامنے بے چینی سے کھولتا جاتا۔ اس تقریب کے بعد میں نانی کے پاس جاتا۔
نانی اماں میری آمد پر سمجھ جاتیں۔ وہ ایک چھوٹا سا پرس ہاتھ میں تھامے رکھتیں۔ اس پرس کو کھولتیں اور مجھے دس دس روپے کے کئیں کرنسی نوٹ تھماتے بولتیں "لے، تو بس الٹا سیدھا کچھ نہ کھانا۔ بیمار ہو جائے گا"۔ میں نانی اماں سے وعدہ کرتا کہ نانو قسم لے لو میں کچھ نہیں کھاوں گا مگر دل ہی دل میں سانپ لوٹ رہے ہوتے کہ کب اگلی صبح ہو اور میں سالگرہ والے دن باہر نکل کر گلی کے دوستوں کے ساتھ اوٹ پٹانگ اشیاء کھاؤں۔ وہ ساری رات رشتوں کے بیچ بڑوں کی آپسی باتیں سنتے بیت جاتی۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب اماں کے پاس لیٹے نیند آ گئی۔
دن چڑھے آنکھ کھلتی تو آنگن سونا ہو چکا ہوتا۔ سب اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہوتے۔ میں تیار ہو کر قریب ہی ایک میدان میں پہنچ کر دم لیتا جہاں کرکٹ چل رہی ہوتی وہیں ریڑھی بان اپنا میلہ ٹھیلہ سجائے کھڑے ہوتے۔ وہاں سے تب تک گھر واپسی نہ ہوتی جب تک نانی اماں کے نوٹ کا آخری سکہ بھی خرچ نہ ہو جاتا۔ میٹھی املی، گھگھو گھوڑے، چرخ چوں چرخ چوں کرتا نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے آنے والا لکڑی کا گھماؤ جھولا کہ جس کے ہر چکر میں پیٹ میں میٹھی میٹھی اینٹھن اٹھتی۔ اور پھر چھرے والی بندوق سے پٹھان کے غبارے پھوڑنے کا کھیل۔ اور پھر بائسکوپ مین ڈبے کے نیچے لگی پھرکی گھماتا جاتا اور ڈبے کے اندر تصویر بدلتی جاتی۔ سترہ من کی دھوبن دیکھو، مکہ دیکھو مدینہ دیکھو، انگریجی میم دیکھو اور اس کے بعد بندر کا تماشا دکھانے والا اور میدان کے آخری کونے پر ریچھ کا ناچ اور بچوں کی تالیاں۔ اور پھر رسیلے گولے گنڈے اور کھوئے والی بڑی قلفی۔ اس کے بعد ان اشیا سے داغدار کپڑوں کے ساتھ گھر واپسی۔ اس زمانے میں داغ اچھے نہیں ہوتے تھے لہذا گھر واپسی پر کپڑے گندے کرنے پر ماں کان ضرور کھینچا کرتی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ میری یہ جنم دن کی خوشیاں و تقریبات میرے دس سال کے ہونے تک ہر سال منائیں گئیں۔ آج تلک مجھے معلوم نہ ہو سکا کہ اچانک والد کو کاروبار میں کیوں نقصان اٹھانا پڑا۔ نقصان بھی اس قدر شدید کہ اس کی بھرپائی کرتے گاڑی، مکان، والدہ کا زیور سب کچھ بک گیا۔ حالات نے ایسی کروٹ لی کہ تین وقت کا کھانہ پہلے پہل تو دو وقت پر آیا اور پھر وہ دور بھی آیا کہ اگر ایک وقت مل جاتا تو شکر کرکے کھا لیتے۔ ابا کے کاروباری دوست دور ہوتے گئے۔ مصیبت میں کون کس کا بازو تھاما کرتا ہے؟ حالات سے مجبور ہو کر اماں کو سرکاری نوکری کرنا پڑی۔ تا دم مرگ وہ اسکول ٹیچر رہیں۔ ابا کاروبار ڈوبنے کے بعد کچھ نہ کر پائے۔ ان کو یہی غم کھا گیا تھا۔ وہ شخص جس نے دولت کی اتنی فراوانی دیکھی ہو وہ ایکدم قرضوں تلے دب جائے تو دل ہی مر چکا ہوتا ہے۔ ابا کو جگر کا کینسر لاحق ہوگیا۔ ان کے علاج واسطے جو کچھ بچا تھا وہ بھی نیلام کرنا پڑا حتی کہ گھر کا فرج و ٹی وی سمیت الیکٹرانکس کا جملہ سامان بک گیا۔
ایسے افلاس میں سالگرہ کون مناتا۔ یکم اپریل آتی تو اماں نامعلوم کیسے تیسے کرکے ایک چھوٹا سا کیک لاتیں اور اس دن گھر میں اچھا کھانا پکتا۔ اچھے کھانے سے آپ کی کیا مراد ہے؟ یہی چکن کڑاہی جو اسی وقت گھر کے چار لوگوں میں ختم ہو جاتی مگر بھوک نجانے پھر بھی کیوں نہ مٹا کرتی۔ ہوش سنبھالنے تک یہ سالگرہ کا سلسلہ بھی متروک ہوتا گیا۔ ایف ایس سی تک آتے آتے مجھے ایک کچا چمڑا بنانے کی ٹینری میں پارٹ ٹائم اکاونٹس کی نوکری کرنا پڑی۔ صبح کالج اور شام ٹینری کی بدبو دار فضا میں ہولے ہولے سانس لیتے گزر جاتی۔ رات کو چھٹی کرکے نکلتا تو ٹینری سے باہر نکلتے ہی صاف ہوا میں لمبے لمبے سانس بھرتا روزانہ 11 کلومیٹر پیدل چلتا گھر پہنچا کرتا کہ آنے جانے واسطے بس و عوامی رکشے کا کرایہ دینے کو بھی پیسے نہ بچا کرتے تھے۔ پہلے نانی اماں گئیں، پھر ابا گئے، پھر ماموں دنیا سے رخصت ہوتے گئے پھر اماں بھی چلی گئیں۔ سب گئے، میں رہ گیا۔
میں تو 16 سال کی عمر میں ہی بڑا ہوگیا تھا اور اب تو خیر میرے بچے بھی کچھ بڑے ہو گئے ہیں۔ بیٹا چودہ سال کا تو بیٹی سولہ سال کی۔ ہر سال مجھ سے پوچھتے ہیں بابا آپ اپنی سالگرہ والے دن کمرے میں کیوں بند رہتے ہیں۔ آپ کو جو دو چار دوست ملنے آتے ہیں آپ ان کے ساتھ بیٹھ کے ہنستے کیوں نہیں۔ صرف پانچ منٹ رسمی سی بات چیت کرکے کیوں اٹھ جاتے ہیں۔ بابا عام دنوں میں تو آپ اتنا ہنستے ہیں مگر اپنی سالگرہ کے دن آپ کا چہرہ اسپاٹ کیوں ہوتا ہے۔ بابا آپ اپنی سالگرہ ویسے کیوں نہیں مناتے جس طرح ہماری مناتے ہیں؟
مجھے معلوم ہے کہ یہ غیر مناسب رویہ ہے۔ مجھے اپنے لئے نہیں تو اپنے بچوں کے لیے ضرور وہ سب کرنا چاہیئے جو وہ کہتے ہیں۔ مجھے آج کے دن آپ احباب کے خوشیوں بھرے ایس ایم ایس، واٹس ایپ اور انباکس پیغامات ملتے رہتے ہیں۔ کمنٹس در کمنٹس کی ٹن ٹن سے موبائل بجتا رہتا ہے۔ مگر میں کیا کروں۔ آج کے دن وہ بچہ کہیں سے میرے سامنے آ کے کھڑا ہو جاتا ہے اور پھر خالی خالی نظروں سے چاروں طرف وہ سب ڈھونڈتا رہتا ہے جو اب کہیں نہیں۔
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
ایک میلے میں پہنچا ہمکتا ہوا
جی مچلتا تھا ایک ایک شے پر مگر
جیب خالی تھی کچھ مول لے نہ سکا
لوٹ آیا لئے حسرتیں سینکڑوں
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
خیر محرومیوں کے وہ دن تو گئے
آج میلہ لگا ہے اسی شان سے
آج چاہوں تو اک اک دوکاں مول لوں
آج چاہوں تو سارا جہاں تول لوں
نارسائی کا اب جی میں دھڑکا کہاں
پر وہ چھوٹا سا ننھا سا لڑکا کہاں