Tuesday, 22 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Aida Tu Maddah

Aida Tu Maddah

ایڈا توں مداح

جیسے کراماً کاتبین آزو بازو اعمال نوٹ کرنے بیٹھے ہوتے ہیں ویسے ہی کچھ مداح بھی کراماً کاتبین ہوتے ہیں۔ یعنی چپ، غائب، پوشیدہ۔ مگر جیسے ہی آپ کوئی املاء کی غلطی کر جائیں یا ویسے ہی ہنسی مزاق میں چول مار دیتے ہیں توں ہی ان کا سرکٹ آن ہو جاتا ہے اور کمنٹ یوں آتا ہے "میں آپ کا بہت بڑا مداح ہوں مگر یہ دیکھیں آپ غلط کر رہے"۔ ایڈا توں مداح۔ سارا سال چپ تے غلطی ہوتے ہی پھُرتیاں۔

وہیں کچھ لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں۔ وہ آپ کی تنخواہ پوچھنے سے لیکر آپ کی ذاتی زندگی سے متعلق جاننا چاہتے ہیں۔ کچھ آپ کو تبلیغ کرنے آتے ہیں اور کچھ عقائد درست کرنا چاہتے ہیں۔ ان منکر نکیر انسانوں کو تو میں یومِ حشر پر ٹال دیتا ہوں۔ اوتھے ای ملاقات ہو سی۔

اور پھر آتے ہیں وہ لوگ جو آپ کے پاس ایڈ ہوتے ہی نیپال کے جنگل کو نکل جاتے ہیں۔

ان سب کے بعد وہ لوگ ہیں جن کا بیرومیٹر خراب ہے۔ یا ان کے دماغ کو ان کا نرو سسٹم رانگ سگنلز بھیج رہا ہے۔ یا ان کے چِپ سیٹ میں شارٹ سرکٹ ہے یا بائنری کوڈنگ غلط ہے جو 1 کو آف اور 0 کو آن سمجھ رہی ہے یا یہ سمے کے دھارے میں بہتی ٹراؤٹ مچھلیاں ہیں جو مخالف سمت کو بہتی جا رہی ہیں۔ وہ سنجیدہ پوسٹ پر لافٹر ری ایکٹ کرتے ہیں اور مزاحیہ طربیہ پر رونے لگتے ہیں۔

پیچھے چند سچے مداح بچتے ہیں جو ہر دھن پر مست رہتے ہیں۔ ان کا کام خلوص دل سے لائک دینا۔ گاہے گاہے کمنٹ کرنا اور پھر آگے بڑھ جانا ہے۔ ایسے سچے مداح ہیں کہ میری اداس تحریر پر مجھ سے زیادہ اداس فِیل کرنے لگتے ہیں اور مزاح پر اتنا ہنستے ہیں اتنا ہنستے ہیں کہ مجھے رونا آ جاتا ہے اور میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ آیا کیا یہ واقعی اتنی مزاحیہ تحریر تھی یا ان کی ڈیوٹی ہنسنے کی لگی ہوئی ہے۔

بہرحال جو بھی ہے بھائیو اور لیڈیز۔ یہ چار دنوں کا میلہ ہے۔ زندگی کی تلخیوں سے عارضی فرار ہے۔ کوئی سدا کا چڑچڑا ہے تو کوئی مزاجاً ہنس مُکھ۔ کوئی قنوطی ہے تو کوئی شرارتی۔ یہاں لکھا ہوا چوبیس گھنٹے سے زیادہ اثر و عمر نہیں رکھتا۔ اگلے روز تک سب فوت ہو جاتا ہے پھر نیا دن نئی بات۔ افکار، دانش اور تحاریر کی قبریں بنتیں جاتیں ہیں۔ کسی معاملے کی عمر چوبیس گھنٹوں سے زائد نہیں۔ کچھ پائیدار نہیں کچھ مستحکم نہیں۔ یہاں لکھاری اور قاری میں ڈوپامین کا تعلق ہے۔ ہم نے اپنے لکھے سے اپنے قارئین کو کتنی ڈوپامین فراہم کی اور انہوں نے اس تحریری، بصری یا صوتی نمونے کو سراہ کر ہمیں کتنی ڈوپامین دی۔

ڈوپامین ایک ایسا کیمیائی عنصر ہے جو انسانی جسم میں قدرتی طور پر پایا ہے اور اس کیمیکل کے اخراج کے ساتھ انسان خوشی محسوس کرتا ہے۔ سوشل میڈیا کو دانستہ طور پر بنایا ہی ایسا گیا ہے کہ انسان اس میں بہت مشغول ہو جاتا ہے جس کے باعث "ڈوپامین لوپ" ہو جاتا ہے اور وہ اپنا سوشل میڈیا بار بار چیک کرتا ہے کہ کون سا نیا مواد پوسٹ ہوا ہے۔ اس لوپ کے باعث ہم کسی چیز پر توجہ مرکوز نہیں کر سکتے اور زیادہ دیر تک کسی ایک چیز پر فوکس بھی نہیں کر سکتے۔

یہ تعلقات بھی انٹرنیٹ کے کلاؤڈ میں ہیں۔ ڈیجیٹل ایرا میں خوش آمدید۔ بس ایک بات آخر میں کہنا چاہوں گا ہو سکے تو اس کو نہ بھولئیے گا۔

ہم جب کسی کو زیاده نہیں جانتے تو اس کے بارے میں بدگمانیاں پیدا کر لیتے ہیں یا کچھ لوگ خوامخواہ بدگمانیاں پیدا کروا دیتے ہیں۔ میرا تجربه ہے اور مشوره بھی ہے که جب کسی کے بارے بدگمانی پیدا ہو تو اس انسان کو جاننے کا تکلف ضرور کیا کریں۔ باقی سب تو خیر ہے۔ آنیاں جانیاں ہیں۔ چل چلاؤ ہے۔ نہ سوشل میڈیا کے تعلقات کو اس قدر سنجیدہ لیں کہ ان کے ختم ہو جانے پر دل دُکھے اور نہ ہی اس قدر ہلکا لیں کہ اگلے کی عزت پر حملہ آور ہو جائیں۔ باقی کیا دوستیاں اور کیا مرشدی و سیدی۔ محسن بھوپالی کا شعر ہے

جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے سب اپنے ہیں
وقت پڑے تو یاد آ جاتی ہے مصنوعی مجبوری

Check Also

Ilmi Aur Nafsiyati Istehsal

By Aaghar Nadeem Sahar