Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Afghani Aur Kandahari Anar

Afghani Aur Kandahari Anar

افغانی اور قندھاری انار

طورخم بارڈر پر افغانستان سے پاکستان داخل ہونے والوں کی راہداری پر بہت لمبی لائن لگی تھی۔ میں وہاں پاکستان کی جانب راہداری کے خارجی راستے کے آخری پوائنٹ پر موجود تھا جہاں افغانیوں کو پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں داخل ہونے والا شیرخوار سے لے کر بزرگ تک ہر انسان پولیو کے قطرے پیتا ہے۔ بچوں، ٹوپی برقعہ پہنے خواتین، بزرگوں و نوجوانوں کا رش تھا۔ یہ لوگ اپنے ساتھ ہاتھ ریڑھی پر اپنا کچھ ضروری سامان بھی لا رہے تھے۔ کاندھوں پر کیمرا لٹکائے میں ان کی عکس بندی میں مصروف رہا۔ زیادہ تر خستہ حال افغانی تھے۔ غریب لوگ تھے۔ پھٹی چپلیں، پیوند لگے برقعے، پرانی پگڑیاں۔۔

ان افغانیوں کے چہرے و حلیئے کو دیکھ کر دل پسیج رہا تھا۔ انسان کا انسان سے ایک ناطہ ہم جنس کا بھی تو ہوتا ہے۔ انسان اپنی جنس کو اس حال میں دیکھ کر خوش تو نہیں ہو سکتا۔ ان لوگوں کا قصور تو نہیں تھا۔ بڑوں نے ان پر جنگ مسلط کر دی تھی۔ روس سے امریکا تک انہوں نے سپرپاورز کی بربریت دیکھی تھی۔ گورے چٹے نوجوان، پگڑی باندھے بزرگ مرد، برقعے میں ڈھکی خواتین اور انگلی تھامے چلتے ننھے پیارے پیارے بچے میرے ملک میں قطار اندر قطار داخل ہو رہے تھے۔

ایک افغانی شخص عقب سے میرے پاس آیا اور مجھے سلام کیا۔ مصافحہ کر چکا تو اردو میں بولا " ہمارے پاس انار ہیں، قندھار سے آ رہا ہوں، بیوی بچے ساتھ ہیں (یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی فیملی کی جانب اشارہ کیا جو قریب ہی موجود تھی)۔ ہمارے پاس پشاور جانے کا کرایہ نہیں۔ اگر آپ کو انار چاہیئے تو ہم سے خرید لو۔ مانگنے والا نہیں ہوں آپ خود مجھے پشاور کی گاڑی میں بٹھا کر کرایہ بس والے کو دے دو"۔۔ یہ کہہ کر وہ مسکین چہرہ بنائے چپ ہوگیا۔

قریب اس کی بیوی برقعے میں لپٹی کھڑی تھی۔ اس کے ہاتھ سامان ڈھونے والی ہاتھ گاڑی پر تھے۔ اس ہاتھ گاڑی پر تین ننھے بچے بیٹھے تھے، ان بچوں کے آگے بڑے بڑے چار عدد شاپروں میں افغانی انار دھرے تھے اور ایک بڑا سا کپڑے کا بیگ تھا۔ بچوں کے چہرے سپاٹ تھے۔ وہ اپنے باپ کی جانب یا ہماری جانب دیکھ رہے تھے۔ یہ دیکھ کر میں نے اس کی کچھ مدد کرنا چاہی۔

بٹوے سے کچھ روپے نکالے اور اسے تھماتے ہوئے کہ یہ لو کرایہ اور باہر نکل کر طورخم اڈے سے پشاور کی گاڑی لے لو۔ مجھے انار نہیں چاہیئے۔ اس نے پیسے میری شرٹ کی اوپری جیب میں واپس ڈالتے ہوئے کہا " پیسے مانگنے والا نہیں ہوں۔ انار نہیں چاہیئے تو کوئی اور لے لے گا۔ ہم انہیں بیچنے کو لایا تھا"۔ میں نے اسے پھر کہا کہ بھائی میں اتنے اناروں کا کیا کروں گا؟ کسی اور کو بیچ دینا اس سے جو پیسے ملیں وہ تمہارے کام آ جائیں گے۔ ابھی کرایہ لو اور پشاور پہنچو۔ مگر وہ "نہیں چاہیئے، نہیں چاہیئے" کہتے چل دیا۔

وہاں آس پاس لوگوں کی بھیڑ تھی۔ لوگ ہماری جانب متوجہ ہونے لگ گئے۔ افغان کو شاید برا محسوس ہوا۔ اس نے ہاتھ گاڑی تھامی اور بال بچوں سمیت تیزی سے باہر کو چل دیا۔

کچھ دیر بعد میں کام بھگتا کر باہر نکلا۔ باہر کچھ فاصلے پر طورخم لاری اڈا تھا۔ وہ شخص مجھے وہاں فیملی سمیت دھوپ میں کھڑا نظر آیا۔ اڈے کے اطراف افغانی اناروں کے ڈھیر لگے تھے۔ چھوٹی دکانیں و ٹھیلے اناروں سے بھرے ہوئے تھے۔ اس افغانی کا خریدار شاید کوئی نہیں تھا۔ وہ جنس بھی ایسی بیچنے کو لایا جو پہلے ہی اس جگہ ڈھیروں ڈھیر موجود تھی۔

میں نے اس کے قریب جا کر اسے پیسے دیئے اور بولا لاؤ دو انار مجھے۔ اس نے مجھے گھور کے دیکھا۔ پیسے پرکھے بنا ہی اپنی میلی قمیض کی جیب میں ڈالے اور چاروں شاپر اپنی ہاتھ گاڑی سے اتار کر سڑک پر رکھ دیئے۔ میرے ساتھ چونکہ میرا آفیشل ڈرائیور تھا۔ اس نے وہ شاپر اٹھائے اور پارکنگ میں سڑک کنارے کھڑے گاڑی کی ڈکی میں رکھنے لگا۔

طورخم چھوٹا۔ پشاور واپس آتے آتے میرے پشتون ڈرائیور نے کہا " سر یہ تم نے اس کو کتنا پیسہ دیا تھا؟"۔ میں نے ہنس کر کہا کہ کیوں جاننا ہے؟ بولا "تم بتاؤ تو سہی، میں نے ہزار کا نوٹ دیکھا تھا"۔ میں نے کہا کہ ہاں میں نے ایک ہزار کے دو نوٹ دئے تھے، میں تو بس اس کی کرائے کے سلسلے میں مدد کرنا چاہتا تھا مگر وہ بضد تھا کہ انار لے لو۔ ڈرائیور کا جواب آیا " سر تم کو انار اچھا مل گیا اے، بہت سستا مل گیا اے، چاروں شاپر اچھا خاصا بھاری تھا، کم سے کم کل پندرہ کلو تو ہوگا یا اس سے زیادہ ہی ہوگا"۔۔

میں نے ڈرائیور کو کہا "کیا سچ میں سستا مال مل گیا ہے یا کسی نے اپنی مجبوری اپنی انا کے ساتھ سستی بیچ دی ہے؟"۔ ڈرائیور سُن کر سنجیدہ ہوگیا اور اسے لگا کہ میں سوال پوچھنے پر ناراض ہوگیا ہوں۔ مجھے سوری کرنے لگا تو میں نے اس کو جواب دیا "معذرت والی کوئی بات نہیں۔ میں انار نہیں چاہتا تھا۔ میں تو بس یہ چاہتا تھا کہ وہ اپنے بال بچوں سمیت پشاور پہنچ جائے"۔ 

یہ اناروں کے شاپر دراصل مجھے بہت بھاری لگے تھے۔ ان پر شاید حسرت، یاس، خوف اور ناامیدی کا بھاری بوجھ بھی ہو۔ اور تھوڑا ایک افغان کی انا و خودداری کا وزن۔

Check Also

Thanda Mard

By Tahira Kazmi