Afghan Muhajir Camp
افغان مہاجر کیمپ
کراچی شہر کو کہیں پیچھے چھوڑ دیں۔ یہ گڈاپ ہے۔ گڈاپ سے بھی کہیں آگے نامعلوم کس سمت کو گاڑی آدھ گھنٹہ بھاگے تو اک افغان مہاجر کیمپ آتا ہے۔ کورونا و پولیو ویکسین کی آگاہی مہم کی خاطر میں اپنے ادارے کی جانب سے وہاں وزٹ کرنے پہنچا تو افغان نوجوانوں و بزرگوں نے استقبال کیا۔ مہاجر کیمپ کی مسجد میں اعلان کروایا گیا کہ اہل علاقہ مسجد میں جمع ہوں۔ ارادہ یہ تھا کہ ان سب کو وہاں بذریعہ امام مسجد بتایا جائے کہ یہ ویکسین کس قدر ضروری ہے۔
ایک صاحب مقامی کونسلر تھے۔ وہ بھی کہیں سے خبر سن کر مسجد پہنچ گئے۔ مسجد میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ مسجد سے ملحقہ ایک بڑا سا تھڑا ہے جس پر بچے بیٹھے قاری سے سپارہ پڑھ رہے ہیں۔ میرے داخلے کی خبر افغان بچوں میں سنسنی کی طرح پھیلی۔ شرارتی نگاہوں نے میرا ایکسرے لیا ہوگا شاید اسی وجہ سے ہر بچہ و بچی کی نظر میں میری ذات ہدف بنی۔ بس یہیں سے کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔
اول اول تو بچہ پارٹی میں آپسی چہ مگوئیاں شروع ہوئیں جو پشتو زبان میں تھیں اور میں سمجھنے سے قاصر تھا۔ مجھے بھلا کیا خبر تھی کہ یہ تخریب کاری پر آمادہ ہو رہے ہیں۔ انہوں نے شاید پہلی بار کیمرے و لینزز حقیقت میں دیکھے تھے۔ اس وقت تو ساری بچگانہ نگاہیں پھٹی پھٹی میری جانب ہی دیکھ رہی تھیں۔
افغان بزرگ مسجد میں جمع ہوئے تو قاری صاحب نے بچوں کو چھٹی دے دی۔ امام مسجد آئے۔ انہوں نے جب کیمرے دیکھے تو شاید یہ اخذ کیا کہ ان کی براہ راست کوریج ہوگی جو پوری قوم دیکھے گی۔ امام صاحب نے اول تو آغاز میں تلاوت کرنا شروع کی۔ مجمع چپ چاپ سنتا رہا۔ تلاوت لمبی ہوتی گئی۔ بلآخر تلاوت ختم ہوئی اور اب مولانا نے پشتو میں بولنا شروع کیا۔ میں تصاویر لینے میں مگن ہوگیا۔ بچے چونکہ اب آزاد ہو چکے تھے وہ میرے آگے پیچھے میری ٹانگوں میں آ آ کر بجنے لگے۔ میں ان کو پیچھے ہٹاتا وہ پھر قریب آ کر کاندھے پر لٹکے کیمرے اور اس کے لینز کو انگلی لگا دیتے اور پھر بھاگ کر پیچھے ہٹ جاتے۔
دوسری طرف مولانا کا خطبہ پشتو میں جاری تھا جو طویل سے طویل ہوتا چلا جا رہا تھا۔ نجانے وہ کیا کیا کہے جا رہے تھے۔ ایک مقامی نوجوان نے جب یہ دیکھا کہ بچے مجھے تنگ کر رہے ہیں اور میں ان سے اپنا کیمرا لینز بچانے کو بار بار ان کو ہٹا رہا ہوں تو وہ پشتو میں دھاڑا۔ بچے بھاگ گئے۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور پوچھا کہ بچوں کو پشتو میں"ماشومان" کہتے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں ماشوم کہتے ہیں۔ وہ ماشومان جو ڈر کر بھاگے تھے وہ ایک منٹ بعد پھر میری ٹانگوں سے آ کر ٹکرانے لگے اور مجھے پھر سے اپنے کیمروں کی حفاظت کی فکر لاحق ہوگئی۔
ادھر مولانا جاری تھے۔ چالیس منٹ گزر گئے۔ میں تنگ آ گیا۔ آخر اپنے ساتھ وزٹ پر آیا محمکہ صحت کے بندے کو اشارہ کر کے پاس بلایا۔ اسے کہا کہ یہ سب کیا چل رہا ہے؟ امام صاحب کو کان میں جا کر کہو کہ بس بھی کریں، ابھی اور کام بھی بھگتانے ہیں۔ یہ کیا کہنا شروع ہوئے ہوئے ہیں؟ وہ سن کر ہنسا۔ کان کے قریب ہوتے بولا "سر، یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت ہمارا کچھ بھلا نہیں سوچتی۔ ہم کو چالیس سال ہو گئے یہاں رہتے۔ یہ حکومت سے گلے کر رہے ہیں سر اور اپنے کیمپ کے مسائل بتا رہے ہیں"۔ میرا خدشہ درست ثابت ہوا۔
میں نے اسے کہا کہ ان کو کان میں جا کر سمجھاؤ کہ وزیراعظم آپ کی تقریر لائیو نہیں سن سکتے اور مسئلے تو پاکستانیوں کے بھی 74 سالوں سے حل نہیں ہوئے۔ وہ سن کر پھر ہنسا اور مولانا کے پاس جا بیٹھا۔ مولانا نے اس کی بات سنی۔ ہاں میں سر ہلایا مگر پھر بیان جاری رکھا۔ اسی اثناء میں مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے میری پشت پر کوئی ہاتھ لگا رہا ہے۔ مڑ کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بچہ میری جینز کی پچھلی جیب سے میرا بٹوہ نکالنا چاہ رہا ہے۔ جیسے ہی مڑا وہ اور اس کے بچہ ساتھی سب فرار ہو کر کچھ فاصلے پر جا کھڑے ہوئے۔
ایک شخص نے یہ حرکت دیکھ لی تھی۔ وہ پشتو میں ان پر چیخا تو ایک بچے نے اس کو بازو بلند کرتے ہوئے اور دوسرا بازو پہلے بازو کے عین بیچ میں رکھتے ہوئے فحش اشارہ کر دیا اور قہقہے لگاتا بھاگ گیا۔ یہ دیکھ کر اس شخص کی تو ہٹ گئی۔ وہ شخص "ماشومان ماشومان" کہہ کہہ کر سرپٹ اس بچے کے پیچھے بھاگتا مسجد کے صحن سے باہر نکل گیا۔ اس کے بعد میں نے اس شخص کو دوبارہ نہ دیکھا۔ گمان غالب ہے کہ یا تو وہ بچے کو گھر تک چھوڑنے چلا گیا ہوگا یا پھر مارے غیرت و شرم کے اس نے سوچا ہوگا کہ کس منہ سے اب واپس جاؤں۔
اللہ اللہ کر کے مولانا آخر کار چپ ہو گئے۔ ان کے طویل خطبے کا اختتام ہوتے ہی کونسلر کھڑا ہوگیا۔ سیاسی بندے کو کیا چاہییے؟ چار لوگ جن سے وہ خطاب کر سکے وہ چاہے کسی کا نکاح ہو یا فوتگی یا پھر مسجد ہی ہو۔ اب سیاسی بندہ پشتو میں فرمودات بکھیرنے لگا۔ بچوں کی ٹولی بھیس بدل بدل کر آتی اور کوئی میری بیلٹ کے بکل کو انگلی لگاتا کوئی ٹانگوں کو آ کر بجتا اور پھر میرے چوکنے ہونے پر بھاگ جاتا۔ میں ان اوچھے ماشومان سے بیزار ہو چکا تھا۔ ایک کرسی پر میں نے ایک ٹانگ اٹھا کر رکھی۔ دوسری ٹانگ فرش پر ہی تھی۔ کرسی پر ایک ٹانگ اس لئے رکھی کہ اپنے بھاری بھر کم کیمرے اور اس پر لگے بھاری لینز کو اس ٹانگ پر کہنی جما کر ذرا سپورٹ دے سکوں تا کہ تصویر ہل نہ پائے۔
کیمرا ویوفائنڈر میں دیکھتے تصاویر اتارنے میں مگن تھا کہ یکایک ایک پستہ قد بچے کو یعنی چھوٹو سے ماشوم کو نجانے کیا سوجھی۔ اس نے میری ٹانگوں کو دروازہ سمجھا اور دونوں کے بیچ سے گزرنا چاہا۔ اس کا سر میرے نازک اعضائے مخصوصہ سے منسلک دونوں اعضاء سے بری طرح ٹکرایا۔ یکایک اک ٹیس سی اٹھی اور گردوں تک پھیل گئی۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا آ گیا۔ مسجد میں کھڑے میرے منہ سے اب کے لاشعوری میں شاید "حرام دے آ بچیا" نکلا۔ اوسان بحال ہوتے اور درد زائل ہوتے دو سے تین منٹ لگے۔ اب جو آزو بازو دیکھا تو سارے بچے بیرونی دروازے سے لگے میری جانب دیکھ کر تبسم فرما رہے تھے۔
کونسلر کا خطبہ جاری تھا۔ میں اب زندگی سے تنگ آ چکا تھا۔ میرا دل کرنے لگا کہ فوری طور پر کام پر دو حرف بھیج کر یہاں سے نکل جاؤں۔ میں نے غصے میں کیمرے آف کر دیئے اور لینزز کو ڈھکن لگا دیئے۔ ڈھکن لگاتے دیکھا تو انکشاف ہوا کہ کوئی الحرامی ماشوم میرے لینز کے اوپر چکنائی والی انگلی پھیر چکا ہے۔ یہ دیکھتے ہی میں نے کیمرا آن کر کے تصاویر دیکھنا چاہیں کہ مبادا وہ تو کہیں اس وجہ سے دھندلی تو نہیں آئیں۔ دیکھ کر انکشاف ہوا کہ آخر کچھ تصاویر کا سینٹر دھندلا آیا ہے۔ اب تو میرا بلڈ پریشر شوٹ کر گیا۔
غصے میں پیچ و تاب کھاتا کھڑا تھا کہ زہے نصیب کونسلر صاحب بیٹھ گئے۔ اب امام صاحب نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے۔ سب لوگ ہاتھ اٹھائے دعا میں مشغول تھے۔ میں نے سوچا کہ دعا مانگتے کی بھی دو چار تصاویر لے ہی لوں۔ دعا پشتو میں تھی۔ اسی دوران امام صاحب کے منہ سے دو تین بار "بخاری" کا لفظ ادا ہوا۔ میرے تو کان کھڑے ہو گئے۔ فوری طور پر سارے حواس متوجہ ہوئے کہ بخاری بخاری کیوں ہو رہا ہے؟ یہ تو دل کو تسلی تھی کہ نام دعا میں آ رہا ہے لہٰذا کوئی تخریب کاری والی بات نہیں ہو سکتی مگر پھر یاد آیا کہ میں افغان بستی میں کھڑا ہوں۔
افغان علاقے میں اک سید بزرگ برائے دعوت دین تشریف لے گئے۔ مقامی لوگوں نے انجان آدمی کو دیکھا تو انہیں لے کر اپنے قبیلے کے سردار کے پاس پہنچے۔ خان نے بزرگوار سے ان کا تعارف پوچھا۔ بزرگوں نے نام بتایا تو سید کا لفظ سنتے ہی سب قدموں میں پڑ گئے۔ پھر خان نے اعلان کیا "میرے قبیلے کے لوگو، ہماری خوش قسمتی دیکھو کہ خدا نے ایک سید خود ہمارے پاس بھیج دیا وگرنہ تو ہم دعا مانگنے سو کوس دور مزار پر جایا کرتے ہیں۔ " اس کے بعد تاریخ کہتی ہے کہ ان بزرگوار کو قتل کر کے وہیں مزار بنایا گیا تا کہ سو کوس کی مسافت سے بچا جائے اور یہیں دعا مانگ لی جائے۔
ذہن میں کئی خدشات ابھرے۔ دعا ختم ہوئی تو محکمہ صحت کا ملازم میرے پاس آیا "سر آپ کے لئے امام صاحب نے خصوصی دعا کروائی ہے کہ بخاری صاحب ہمارے مہمان ہیں ان کا شکریہ اور خدا ان کو صحت و سلامتی سے رکھے وغیرہ وغیرہ"۔ یہ سن کر مجھے از حد چین نصیب ہوا مگر پھر بھی جلد از جلد اب وہاں سے رخصتی چاہتا تھا۔ کھانے کی پرزور دعوت کے باوجود میں نے کام کا عذر تراشا اور نکلنا چاہا۔
گاڑی میں بیٹھنے لگا تو بچوں نے گاڑی گھیر لی۔ ایک ننھا بچہ بولا " دس روپے دو"۔ میں نے کہا "کیوں"؟ بولا " لالی پاپ"۔ یہ کہتے اس نے سامنے واقع دکان پر ٹنگے لالی پاپس سے بھرے شاپر کی جانب اشارہ کر دیا۔ اس کی معصومیت اور بقیہ بچوں کے چہرے پر سنجیدگی دیکھ کر دل موم ہوگیا۔ بچے اب اداس تھے۔ ان کی بستی میں شاید کوئی پہلا یا عرصے بعد بیرونی شخص آیا تھا۔ اپنے تئیں ساری دوپہر وہ اس سے کھیلتے رہے تھے۔ اب اس کی رخصتی پر شاید ان کا دل بجھ رہا تھا۔ وہ سارے بچے اب گم صم تھے۔
میں نے یہ دیکھا تو دکان والے سے شاپر اٹھایا۔ اسے کہا کہ سب میں ایک ایک کر کے لالی پاپ تقسیم کر دو۔ وہ افغانی بزرگ تھا۔ وہ تقسیم کرتا چلا گیا۔ گاڑی چلی تو عقبی شیشے سے دیکھا۔ بچے ہاتھ میں لالی پاپس تھامے ساکت کھڑے تھے۔ گاڑی کے پیچھے کوئی نہیں بھاگ رہا تھا۔ ان کی نظریں جاتی گاڑی پر جمی تھیں۔ چہروں پر سنجیدگی تھی۔ میرے سامنے سورج افق کے قریب آتے آتے غروب کے قریب تھا۔ ایک پیلی زرد ٹکی سی زمین کے قریب آسمان پر ٹنگی تھی۔ آگے کراچی تھا جہاں شام ڈھلے سمندر کی لہریں واپسی کے سفر پر ہوتی ہیں۔ سمندر اُترنے لگتا ہے۔