Aeen e Pakistan
آئین پاکستان
آئین پاکستان مروجہ 1973 کا اوپننگ شاٹ یا پہلا منظر، پہلا جملہ یا پہلی لائن یہ ہے "اقتدار اعلیٰ اللہ کی امانت ہے۔ ریاست یہ امانت عوام کے چنیدہ لوگوں کے توسط سے استعمال کرنے کی پابند ہے"۔
باقی آئین کو رہنے دیں کیا ریاستِ پاکستان اس پہلے جملے پر بھی عمل کر رہی ہے؟ یا اس جملے کو ایک اچھے ڈرامائی سکرپٹ کی پہلی سطر جیسا سراہنا کافی رہے گا؟ واہ کیا ڈائیلاگ ہے، کیا اوپننگ شاٹ ہے۔ بھئی مزہ آ گیا۔
میرے سمیت ہر عام پاکستانی کی یہ خواہش ہے کہ مرنے سے قبل اسے وہ ریاست دیکھنا نصیب ہو جائے جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ اس میں کوئی آئین بھی ہوتا ہے۔ اس آئین کے تحت ادارے تشکیل پاتے ہیں اور اپنے اپنے مقرر کردہ دائروں میں چلتے ہیں۔ یہی ادارے یکجا ہو کر ریاست بناتے ہیں اور ریاست کی رِٹ یا حاکمیت قائم کرتے ہیں۔ ادارے اپنی طاقت ایک دوسرے کے خلاف نہیں بلکہ یکجا ہو کر ریاست کو درپیش اندرونی و بیرونی مسائل سے نمٹنے کو استعمال کرتے ہیں۔ یہی رِٹ بتاتی ہے کہ ریاست فلمی یا ڈرامائی نہیں اصلی ہے۔
اصلی اور فلمی ریاست میں فرق ہے تو بس اتنا کہ اصلی ریاست کے پیچھے اصلی طاقت و حقیقی کردار ہوتے ہیں اور فلمی ریاست کے پیچھے پروڈیوسر، سکرپٹ رائٹر، میک آپ آرٹسٹ، ڈائریکٹر، اداکار اور کیمرا مین ہوتے ہیں۔ مرکزی اور ایکسٹرا اداکاروں کی گفتگو کسی اور کی لکھی ہوئی اور کنٹرولڈ ہوتی ہے۔ مہابلی اکبر یا بادشاہ سلامت کا اتنا ہی کردار ہوتا ہے کہ وہ سکرین پر انارکلی کو چنوانے کے بعد شفٹ ختم ہونے پر میک آپ اور پوشاک یا لباس اتار کر کاسٹیوم انچارج کے حوالے کرے اور تھیٹر کی پارکنگ سے اپنا موٹرسائیکل یا کار نکال کر گھر جاتے راہ سے سبزی لیتا جائے۔ اگلی صبح پھر اسے شفٹ پر آ کر تاج پہن کر تخت پر بیٹھنا ہے۔
کبھی کبھی قدرت کا نظام اصل ریاستوں کو بھی ان کے اعمال کے سبب فلمی ریاستوں میں بدل دیتا ہے۔ تاریخ بھری پڑی ہے۔ آخری چار عباسی خلیفاؤں کے پاس اتنا ہی اختیار تھا جتنا کسی اداکار کے قبضے میں ہوتا ہے۔ آخری دو سلجوق بادشاہ منگولوں کے مقرر کردہ اداکار ہی تو تھے اور اورنگزیب کے بعد جو بھی لال قلعہ کے درباری سیٹ پر بیٹھا ایسٹ انڈیا پروڈکشنز کا اداکار ہی تو تھا۔ خود ہمارے ہاں حکمران کون ہوتا ہے؟ اصلی آئینی کردار یا پھر ہدایتکار، سکرپٹ رائٹر اور کیمرا مین کے ساتھ اداکار؟
کہنا میں ہدایت کار سے یہ چاہتا ہوں کہ جب معیشت کا اڑیل گھوڑا پشت پر سواری کرنا تو درکنار ہاتھ تک نہ لگانے دے۔ جب کبوتر خانے کی خارجہ پالیسی کا سرا ہی نہ مل رہا ہو۔ جب ریاستی پرندے کی چونچ اور دم کا پتہ ہی نہیں چلے کہ کس کے ہاتھ میں ہے، پر کون کُتر رہا ہے، دانہ دُنکے کا انچارج کون ہے، پنجرے کی صفائی کس کے ذمہ ہے۔ جب ان سوالوں کا جواب معلوم ہی نہ ہو پائے تو ایسے عالم میں اپنی انویسٹمنٹ بچانے کے لیے سکرپٹ، سیٹ اور اداکار تو بدل لو!