Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Aankh Jo Kuch Dekhti Hai

Aankh Jo Kuch Dekhti Hai

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے

بہت سی باتیں ایسی ہوتیں ہیں جن کے آپ عینی شاہد ہوتے ہیں مگر ان کو پبلک میں اس واسطے نہیں لکھا جا سکتا کہ آپ کے پاس عینی شاہد ہونے کے سوا کوئی دوسرا ثبوت نہیں ہوا کرتا اور پبلک میں انکشافات کر دینا اپنے گلے پڑ سکتا ہے۔ کوئی کردار آپ پر ہتک عزت کا کیس دائر کر سکتا ہے۔ جس سے متعلقہ بات ہو اس کے چاہنے والے آپ سے ٹھوس ثبوت طلب کرنے لگتے ہیں۔ یا بادل نخواستہ آپ غائب ہو سکتے ہیں۔ قصہ مختصر کئی باتیں اس واسطے نہیں لکھیں جا سکتیں کہ وہ آپ کی آنکھوں دیکھی سو فیصد سچائی تو ہوتی ہے مگر زمانے کے سامنے وہ کہانی ہی بن جاتی ہے۔

ایک اہم بات یہ بھی پروفیشنل ذمہ داریاں نبھاہتے ہوئے جو کچھ دیکھا سُنا ہوتا ہے اس کو منظر عام پر لے آنا اپنے پروفیشن، اپنے ادارے اور اپنی پیشہ وارانہ کریڈیبلیٹی پر داغ لگانے کے مترادف ہوتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب کچھ باتیں کلوز چیپٹر بن جاتیں ہیں یا ماضی کا قصہ بن جاتیں ہیں یا ان کو بیتے کافی وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ پھر آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت آپ پر کوئی Liability اس وجہ سے نہیں رہتی کہ وقت کے ساتھ بہت سے حقائق، قصے، باتیں bits & pieces میں عوام کے سامنے آ چکیں ہوتیں ہیں۔

میں یہ بات سمجھتا ہوں کہ ہمارے لوگ اس نظام کو اندر سے نہیں جانتے۔ وہ وہی کچھ جانتے ہیں جو بذریعہ میڈیا یا سوشل میڈیا ان تک پہنچتا ہے یا پہنچایا جاتا ہے۔ ہمارے لوگ طاقتور حلقوں، سیاستدانوں، بابو کریسی کے آپریٹ کرنے سے مکمل ناآشنا ہوتے ہیں۔ ان کی ذہن سازی پروپیگنڈا سے جیسی کر دی جاتی ہے وہی ان کے لیے حق سچ ہوتا ہے۔ جیسے ہی ان کی "سچائی" کا بت ٹوٹتا ہے وہ صدمے میں آ جاتے ہیں یا پھر سامنے آنے والی 180 ڈگری کی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ جھنجھلانے لگتے ہیں اور یہ جھنجھلاہٹ دراصل اندر پلتا غصہ ہوتی ہے جو حقیقت سامنے آنے پر اُبلنے لگتا ہے۔

میں سمجھ سکتا ہوں کہ جو لوگ اس نظام کو اندر سے نہیں دیکھتے۔ یا جن کو پرکھنے کا موقعہ نہیں ملتا۔ یا جو ان سیاستدانوں سے قریب سے آشنا نہیں یا جو بیرون ممالک مقیم ہیں ان کے جذبات اپنی جگہ ٹھیک ہیں۔ انہوں نے وہی دیکھا جو میڈیا یا سوشل میڈیا نے دکھایا اور اسی سے اپنی سوچ کے مطابق نتیجہ اخذ کرکے اپنی سائیڈ منتخب کر لی۔ آپ سب لوگ اپنی اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہو۔ آپ ان نظام سے تنگ ضرور ہو مگر اس نظام سے آشنا نہیں۔ میں تنگ بھی ہوں آشنا بھی ہوں۔

کبھی کبھی سامنے آنے والی باتوں، بیانیوں یا مائنڈ سیٹ پر مجھے ہنسی آتی ہے۔ درپردہ حقائق اور ہوتے ہیں سامنے کچھ اور سٹیج کیا جاتا ہے۔ لوگ سٹیج پر ہوتے تماشے کو دیکھتے ہیں بیک سٹیج جو کردار چل ہے ہوتے ہیں اس تک ان کی نہ رسائی ہوتی ہے نہ ہی آشنائی۔ اس واسطے مجھے کچھ میڈیائی رپورٹیں، خبریں اور تجزئیے پڑھ کر ہنسی آتی ہے اور جب کوئی پروپیگنڈا کا شکار ہو کر اسے حق سچ مانتے ہوئے مجھے یا کسی کو Confront کرتے ہوئے غصیلہ کمنٹ کرتا ہے تو میرا قہقہہ نکل جاتا ہے اور پھر اس کے بعد مجھے دکھ بھی ہوتا ہے کہ پبلک کیسے گمراہ کی جاتی ہے اور یہ شخص اپنے انفارمیشن سورس (جو کہ کوئی اینکر، انفلونسر، یوٹیوبر یا صحافی یا پارٹی کا عہدیدار ہی ہوتا ہے) پر ایمان کی حد تک یقین کئیے بیٹھا ہے۔

سیاست کا رنگ گرے ہے۔ یہاں سیاہ و سفید میں کچھ نہیں ہوتا۔ قطعیت پسندی سے رائے دینا سوائے دماغی خلل کے کچھ نہیں۔ یہاں کوئی اصول یا نظریات نہیں ہوتے۔ دن کب شام میں ڈھل جائے اور شام بڑھ کر رات بن جائے۔ اپنے لیڈر کی محبت میں دوسروں کی عزت اچھالنے سے سوائے بے توقیری کے کچھ حاصل نہیں ہوا کرتا۔ کسی کے نظرئیے، تحریر، سوچ و افکار سے مشتعل ہو جانا اس بیماری کا پہلا symptom جسے "سٹاک ہوم سینڈروم" کہا جاتا ہے۔ ایسی نفسیاتی حالت جس کے زیرِ اثر لوگ اپنے قاتل، اغوا کار اور اپنے ڈکیت سے ہی رومانس میں مُبتلا ہو جاتے ہیں۔ جب افراد اس نفسیاتی بیماری کا دہائیوں سے شکار ہو چکے ہوں تو یہ لاعلاج ہو جاتی ہے۔

ہم دراصل پروپیگنڈا اور سٹاک ہوم سینڈروم کا شکار لوگ ہیں۔

Check Also

9 Lakh Ki Azmat Aur Awam Ka Qarz

By Muhammad Salahuddin