Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Aaj Ka Zamana To Global Village Ka Zamana Hai

Aaj Ka Zamana To Global Village Ka Zamana Hai

آج کا زمانہ تو گلوبل ویلج کا زمانہ ہے

گوجال جسے بالائی ہنزہ بھی کہا جاتا ہے، اس علاقے سے مجھے فطری محبت ہے۔ آج کی بات نہیں ڈیڑھ دہائی بیت گئی، ان علاقوں میں سفر کرتے اور انہیں اپنا ٹھکانہ بناتے۔ کورونا سے قبل سن 2019 کے اوائل میں اپریل کے ماہ میں وہاں گھوم رہا تھا۔ یہ موسم ان علاقوں میں چیری اور خوبانی کی بہار کا موسم ہوتا ہے۔ درخت پھولوں سے لد جاتے ہیں۔ ساری وادی میں بھینی بھینی خوشبو ہوا کے دوش پہ سفر کرتی ہے۔

آتے گرما کی دھوپ کھِلتی ہے تو وادی یوں جگمگاتی ہے۔ جیسے قدرت نے ایک بڑا سا آئینہ منعکس کر رکھا ہو۔ کھیتوں میں لوگ فصل کی تیاری کو ہل چلانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ گوجال کی آبادی چونکہ محدود ہے، اس واسطے وہاں شور سنائی نہیں پڑتا۔ کبھی کبھار شاہراہ قراقرم سے کوئی جیپ فراٹے بھرتی گزرتی ہے تو انجن کی آواز دور تک ایکو کرتی جاتی ہے۔

یہ ماہ سیاحوں کا سیزن نہیں ہوتا۔ ماسوائے ان تھائی، جاپانی اور ویتنامی سیاحوں کے جو بدھ مت کے پیروکار ہیں وہ بلوسم سیزن میں اپنی مذہبی یاترا پر آ نکلتے ہیں۔ ان کی تعداد بھی وقت کے ساتھ انتہائی کم ہو رہی ہے۔ وجہ ہمارے ملکی حالات اور امن و امان کی صورتحال کی بابت بین القوامی میڈیا میں چھپتی خبریں ہیں۔ گوجال کے ایک گاؤں میں گھومتے ایک گلی میں واقع نجی سکول میں جانا ہوا۔

وہاں میری تواضع مقامی کھانے اور خشک فروٹ سے کی گئی۔ میزبانوں میں ایک تو میرا سینٹرل ہنزہ کا مقامی دوست ناظم اللہ بیگ تھا اور بقیہ سب خواتین ٹیچرز تھیں۔ وہاں میں نے کچھ ٹیچرز کی فوٹوز لیں۔ انہوں نے روائیتی گوجالی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ جس پر چاندی کی جھالر لگی ہوتی ہے۔ اب چاندی چونکہ قیمتی ہو گئی ہے۔ اب بس براس کی دھاتی جھالر لگتی ہے۔ ان تصاویر کو بعد ازاں میں نے ان کو ای میل سے بھجوا دیا۔

واپس آنے کے تین چار ماہ بعد گرمیوں میں مجھے ایک ٹیچر نے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ اپنے کیرئیر کو آگے بڑھانا چاہتی ہے۔ اس واسطے اسے کوئی اچھی نوکری گلگت بلتستان میں ملنا تو ممکن نہیں لہذا وہ یونیورسٹی میں ایڈمیشن کے ساتھ چاہتی ہے کہ لاہور جیسے بڑے شہر میں ٹیچنگ جاب مل جائے تو وہ اپنے رہائشی و تعلیمی اخراجات خود مینج کر لے گی۔

نوکری کی بابت تو میں نے اسے کوئی یقین دہانی نہیں کروائی کیونکہ نوکری تلاشنا یا کسی کو سفارش کرنا میرا مزاج نہیں۔ البتہ یونیورسٹی میں داخلے کے بارے کہا کہ وہ کوشش کرتا ہوں آپ کو مل جائے۔ ہماری یونیورسٹیز میں گلگت بلتستان کے طالبعلموں کے لیے مخصوص نشستیں بھی ہوا کرتی ہیں۔ یونیورسٹی کے ریکٹر صاحب چونکہ دوست تھے۔ اس لیے ان کو کہہ کر ایم فل میں سپورٹس کوٹے میں داخلہ دلوا دیا۔

اس سے سمسٹر کی فیس پچیس فیصد معاف ہو جاتی ہے اور گلگت بلتستان کے سٹوڈنٹس ویسے بھی والی بال، فٹ بال اور پولو میں بہت مہارت رکھتے ہیں۔ یہی کھیل وہاں کھیلے جاتے ہیں۔ اس کو فٹ بال بہترین آتا تھا۔ وہ لاہور ایک ہوسٹل میں منتقل ہو گئی اور بعد ازاں اس نے خود ہی نوکری ڈھونڈ لی۔ میں تو اس کے بعد بھول گیا کہ کیا ہوا کیا نہیں کہ داخلہ کروا دیا تھا تو کام ہو گیا تھا۔

گذشتہ روز مجھے اس کا تین سال بعد خیریت پوچھنے کو میسج آیا تو معلوم ہوا کہ وہ امریکا پہنچ گئی ہے۔ اس کو دیوان موٹرز میں سیلز کی جاب ملی۔ دیوان موٹرز بی ایم ڈبلیو اور پورشے کاروں کی ڈیلرشپ ہے۔ وہاں اسے ایک کلائنٹ نے پروپوز کر دیا۔ اور اب وہ امریکا میں اپنے شوہر کے ساتھ خوشحال شادی شدہ زندگی بسر کر رہی ہے۔ وہیں مزید پڑھ رہی ہے۔

بتانے کا مقصد یہ تھا کہ جس انسان نے آگے بڑھنا ہو وہ اپنی راہ خود تلاشتا ہے۔ کوئی آپ کو گھر بیٹھے یا جھولی میں آ کر کچھ نہیں دیتا۔ نامساعد حالات کا رونا بہت لوگ روتے ہیں اور مجھے آئے دن اسی نوعیت کے پیغامات بھی ملتے ہیں کہ نامساعد حالات کے سبب وہ نہ اچھی جاب کر سکتے ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں۔ میرے خیال میں انسان کی مجبوریاں ضرور رہتی ہیں۔

مگر کچھ زنجیریں انسان نے بھی خود اپنے دماغ پر ڈال لی ہوتی ہیں اور وہ خود کو یہی تسلی دیتا رہتا ہے کہ کیا کروں حالات ہی موافق نہیں۔ اب آپ کہیں گے کہ وہ ایک لڑکی تھی، اس کو اے ٹی ایم مل گئی۔ نہیں، یہ آپ کے ذہن کا فتور تو ہو سکتا ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔ آپ مرد ہیں تو مرد بنیں اور حالات کا خود مقابلہ کریں۔ آپ کو بھی محنت کا صلہ دیر سویر ملے گا۔

مجھے بھی ملا ہے۔ میں تو لڑکی نہیں نہ مجھے کسی اے ٹی ایم نے تھاما تھا۔ اسی طرح میں ایسے کئی دوستوں کو جانتا ہوں، جنہوں نے اپنی منزل پانے کو منزل تک اپنی راہ خود کھود کر نکالی ہے۔ جن کا بیک گراؤنڈ بھی میری مانند لو مڈل کلاس کا تھا۔ بل گیٹس کا ایک قول بڑا زبردست ہے" اگر آپ غریب پیدا ہوئے ہیں تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں۔ مگر آپ ساری عمر گزار کر غریب مرتے ہیں تو اس میں آپ کا قصور ہے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی ساری صلاحیتوں کو بروئے کار لائے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ تنگدستی سے جئیے۔ آج کا زمانہ تو گلوبل ویلج کا زمانہ ہے۔ بیشمار مواقع پیدا ہو چکے ہیں۔ شرط بس خود کو پہچاننے اور پہچان کر محنت کرنے کی ہے۔

Check Also

Yaroshalam Aur Tel Aviv Mein Mulaqaten

By Mubashir Ali Zaidi