Wednesday, 01 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. 26 December

26 December

26 دسمبر

26 دسمبر۔ اردو ادب کے دو بڑے شعراء پروین شاکر اور منیر نیازی کی برسی کا دن ہے۔ پروین شاکر نے اپنے کلام میں رومانس اور جدائی کو بڑے کمال طریقے سے پیش کیا ہے اور منیر نیازی نے ڈر اور دُکھ کو اپنی شاعری کا محور بنایا۔

احمد ندیم قاسمی کی نگرانی میں پروین شاکر کے پہلے شعری مجموعہ "خوشبو" کی اشاعت کے بعد قاسمی صاحب کے مخالف گروپ نے جب ان دونوں کے تعلقات میں دراڑ ڈالنے کے لیے یہ کہنا شروع کر دیا کہ "منصور کے پردے میں خدا بول رہا ہے" (یعنی پروین کی شاعری قاسمی صاحب کی مرہونِ منت ہے) تو اپنے قریبی دوستوں کے مشورے کے بعد پروین شاکر احتیاطََ قاسمی صاحب کے حصار سے باہر آ گئیں اور اُن سے ملنا جلنا کم کر دیا۔ اس دکھ کا اظہار قاسمی صاحب نے اپنے ایک مضمون "میری پروین بیٹی" میں اِن الفاظ میں کیا۔

"مجھے دکھ ہے کہ میں پروین کے آخری دنوں میں اُس کی اُداسی کا سبب بنا۔ "

پروین نے ایک جگہ گلہ کیا "اہلِ قلم اور اہلِ دانش کی کانفرنس منعقد ہوئی مگر عمو، آپ وہاں کہیں نہیں تھے۔ اس لمبے چوڑے پروگرام میں آپ کہیں دکھائی نہیں دئیے۔ (پروین قاسمی صاحب کو والد کی جگہ دیتے ہوئے عمو کہتی تھیں)

قاسمی صاحب اپنے مضمون میں آگے لکھتے ہیں۔ "میں نے اپنے عزیزوں اور دوستوں میں سے کسی کو بھی کانفرنس میں شمولیت سے نہ روکا۔ البتہ میرے اندر دوستی اور محبت کا پندار بیدار رہا اور جو کہتا رہا کہ میرے فلاں فلاں دوست اور خاص طور سے پروین بیٹی تو اس کانفرنس میں شمولیت سے انکار کر دے گی، جس میں شمولیت سے میں نے انکار کر دیا تھا مگر وہ شامل ہوئی اور مجھے اس کا دکھ ہوا۔ بیٹی، کانفرنس میں تمہاری شمولیت سے مجھے منصور حلاج یاد آ رہا ہے، جو لوگوں کے پتھر کھا رہا تھا مگر چپ تھا۔ البتہ جب اس کے ایک اپنے نے اس پر ایک پھول، پتھر کی طرح پھینکا تو وہ بلک اُٹھا"۔

پروین شاکر کا احمد ندیم قاسمی سے باپ بیٹی سا رشتہ تھا جس کو زمانے کی ہوا چاٹ گئی تھی۔ اس تعلق میں دراڑ ڈالنے کے لیے کئی صف اول کے شعراء بھی پیش پیش رہے۔ پروین کی شاعری پر طعن و طنز کے نشتر بھی برسائے گئے مگر وہ سب سے بے نیاز ہو کر لگی رہی اور اردو شاعری میں اپنا نام و مقام بنایا۔

چچا محسن نقوی میرے والد مرحوم کے پھپھا زاد بھائی تھے مگر اس سے کہیں بڑھ کر سگے بھائی جیسا رشتہ تھا۔ سیالکوٹ جب آتے ہمارے گھر قیام کرتے۔ میرا بچپن محسن نقوی کو دیکھتے گزرا۔ اس وقت میں چھوٹا بچہ تھا مجھے بڑوں کی باتوں کی کچھ سمجھ نہ تھی۔ محسن نقوی کے جگری دوست خالد شریف تھے جو اکثر انہی کے ساتھ ہمارے گھر میں قیام کیا کرتے۔ خالد شریف نے پروین شاکر کا قصہ سنایا۔

"لندن میں محسن، میں اور پروین مشاعرے بھگتا کر ایک دن سیر کو نکلے۔ پروین پاکستان کال کرنے کی غرض سے ایک پبلک ٹیلی فون بوتھ میں داخل ہوئی اور کافی دیر ہم باہر کھڑے انتظار کرتے رہے۔ جب وہ باہر نکلی تو کہنے لگی۔ محسن فوری پاکستان بات کرنی ہے تو کر لو۔ یہ بوتھ شاید پیسے کم کاٹتا ہے۔ میں نے ون پاؤنڈ کا سکہ ڈال کر آدھا گھنٹہ بات کر لی ہے۔ یہ سن کر ہم دونوں بھی بوتھ میں داخل ہوئے۔ سکہ ڈالا مگر کال نہ مل سکی۔ انکشاف ہوا کہ بوتھ کسی سبب خراب ہے۔ باہر نکلے تو پروین نے قہقہہ لگاتے کہا "میں بھی آدھ گھنٹا ٹرائی کرتی رہی کہ کسی طرح ون پاؤنڈ کوائن واپس ہی نکل آئے"۔

چھبیس دسمبر کی صبح پروین شاکر کی گاڑی بس کے ساتھ حادثے کا شکار ہوگئی جو جان لیوا ثابت ہوا۔ پروین کی شاعری سے ایک شعر میرا پسندیدہ ترین ہے۔ یاد آ گیا تو پیش ہے۔

طائرِ جاں کے گزرنے سے بڑا سانحہ ہے

شوقِ پرواز کا ٹوٹے ہوئے پَر میں رہنا۔

سنہ 2005 میں منیر نیازی سے ملاقات کو اک بار میں بڑے جتن و چاؤ کے ساتھ سیالکوٹ سے لاہور آیا۔ نئی نئی جوانی تھی اکیس سال عمر تھی، شاعری کا شوق تو تھا ہی گرمیوں کے دن تھے۔ شدید حبس تھی۔ جھکے جھکے چلتے آئے۔ دروازہ کھولا اور مجھے کڑکتی دھوپ میں لان میں بیٹھنے کو کہا۔ کرسی لوہے کی تھی۔ جیسے ہی میں بیٹھا میری چیخیں نکل گئیں۔

وہ خود تو کسی کام سے اندر چلے گئے۔ میں نے کرسی اٹھائی اور سائے میں کر لی۔ مگر اس کرسی پر بیٹھا نہیں جا رہا تھا۔ اتنے میں وہ باہر آئے اور کہنے لگے " او منڈیا، اندر آ جا"۔ اندر پہنچا تو پنکھا بند۔ میں نے رسمی باتیں کر کے حال احوال پوچھ کر پوچھا کہ سر بجلی گئی ہوئی ہے کیا؟ میرا حبس و پسینے سے برا حال ہوا جا رہا تھا۔ بولے "او نئیں نئیں، بجلی دا بل سوہنیا بڑا آ گیا اے، میں ڈردا پکھا نئیں چلاندا"۔

نیازی صاحب نے عمر کا آخری حصہ نہایت تنگدستی میں گزارا۔ اس دن میرے بیٹھے پی ٹی وی سے انٹرویو لینے کچھ لوگ آ گئے۔ ان کو اندر بلایا تو وہ اپنے ساتھ لائٹس لائے ہوئے تھے تاکہ انٹرویو ریکارڈ کرتے وقت لائٹ اچھی ہو۔ منیر نیازی مرحوم نے بڑی بڑی دو تین لائٹس دیکھیں تو بولے "ایناں نے میری ساری بجلی چوپ جانی اے۔ او منڈیو باہر ہی آ جاؤ دھوپ وچ ریکارڈ کر لو"۔ میں نے اجازت چاہی اور واپس آ گیا۔ پتا نہیں وہ ریکارڈنگ کہاں ہوئی پھر۔

منیر نیازی مرحوم سناتے تھے کہ اک بار مجھے ضد کر کے کشور ناہید وزیراعظم کے عشایئے میں ساتھ لے گئیں۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ نوازشریف صاحب سے ملوا کر میری نوکری یا وظیفے کے لئے سفارش کر دیں۔ وہاں نواز شریف آئے تو کشور ناہید نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا "یہ منیر نیازی ہیں"۔ میاں صاحب بولے " اچھا، اچھا، یہ کیا کرتے ہیں؟" کشور نے بتایا کہ یہ اس ملک کے نامور شاعر ہیں تو میاں صاحب بولے "اچھا اچھا، آپ سب کھانا کھائیں۔ اسپیشل ڈشز بنوائیں ہیں"۔

منیر دل کے آدمی تھے۔ سچے شاعر سچا فنکار۔ غربت و تنگدستی میں عمر بیت گئی مگر کبھی اصولوں پر سمجھوتا نہیں کر پائے۔ ریاست نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو ریاست فنکاروں کے ساتھ کرتی ہے۔ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ اب جب مجھے منیر نیازی کی یاد آتی ہے تو ان کا شعر ذہن میں گونجنے لگتا ہے۔

آنکھوں میں اُڑ رہی ہے لُٹی محفلوں کی دُھول

عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو۔

Check Also

Labour Day

By Hussnain Nisar