Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. 2 Manzer Naame

2 Manzer Naame

2 منظر نامے

منظر نامہ 1

شمال کے ضلع استور کے مرکزی بازار سے دائیں ہاتھ آلو کے کھیتوں اور دیہاتوں کے بیچ گیارہ کلومیٹر لمبی سڑک چڑھائی چڑھتی سیدھی چونگڑا پہاڑ کے دامن میں واقع راما گاوں میں جا اترتی ہے۔ سڑک کے اطراف دیہاتیوں نے اپنی فصلوں کو مویشیوں سے محفوظ رکھنے کو لکڑی کے چوپٹوں سے حاشیہ بندی کر رکھی ہے۔ اس بل کھاتی پہاڑی سڑک پر چلتے قاتل پہاڑ نانگاپربت کی ایک چوٹی نظر سے اوجھل نہیں ہوا کرتی وہیں راہ گزرتے بچے اور مویشیوں کو لے کر چلتے بزرگ ہاتھ بلند کرکے مسافر کا استقبال کرتے جاتے ہیں۔

راما میڈوز ایک گرما کی شام کو جب میری جیپ شام ڈھلے پہنچی آسمان تاریک ہوا چاہتا تھا۔ بادلوں کے ٹکرے کالے ہو چکے تھے۔ راما میں واقع پی ٹی ڈی سی موٹل کے سامنے جیپ کی بریک لگی تو پہاڑی مٹی پہیئوں کے نیچے آ کر چڑچڑائی۔ سامان نکال کر موٹل میں داخل ہوا تو انکشاف ہوا کہ موٹل میں چند فوجی افسران بمعہ اہل و عیال ڈیرہ ڈالے بیٹھے ہیں۔ مینیجر نے مجھ سے معذرت کی مگر ساتھ ہی میرا ہاتھ تھامے کہنے لگا " بخاری صاحب آپ لان میں ٹینٹ لگا لیں، کھانے کا آرڈر دیئے دیتا ہوں، کل رات موٹل فری ہونے کی امید ہے تو آپ کو کمرے میں منتقل کر دوں گا"۔ میں نے پی ٹی ڈی سی کے لان میں اپنا ٹینٹ نصب کر دیا۔

اب رات مکمل اتر چکی تھی۔ ہوا میں سردی بھر آئی تھی۔ موٹل کے اندر رہائش پذیر فیملیز اپنے کمروں میں دبکی بیٹھی تھیں۔ کھانا آیا، ملازم برتن اٹھا لے گیا تو میں نے ٹینٹ سے باہر ننگی گھاس پر میٹرس ڈالا اور اپنے وجود کو سردی سے بچانے کو سلیپنگ بیگ کھول کر اپنے اوپر لے لیا۔ آسمان پر نظر گئی تو دل کی کچھ دھڑکنیں دھڑکنا بھول گئیں۔ ہارٹ بیٹ سکپ ہوئی۔ تاروں کا جھرمٹ لگا ہوا تھا۔ ایک میلہ سا کھل چکا تھا۔ آسمان روشن تھا۔

لان میں جلتے دو زرد برقی قمقمے تاروں کے دیدار میں رکاوٹ بن رہے تھے۔ چوکیدار چلتا ہوا ٹینٹ کے پاس آیا تو میں نے اسے کہا " اگر کسی طرح یہ دو لائٹس بند ہو سکیں تو مہربانی ہوگی"۔ اس نے مجھے گھور کے دیکھا اور بولا " یہ لائٹس تو صبح سے پہلے بند نہیں ہو سکتیں، آپ نے سونا ہے تو اپنے کیمپ کے اندر چلے جائیں"۔ میں نے مجبور سی شکل بنا کر جواب دیا " سونا تو نہیں ہے، ان لائٹس کی وجہ سے تاروں کی نمائش میں خلل پڑ رہا ہے"۔۔ اس نے کھلے منہ کے ساتھ مجھے مشکوک سی نظروں سے پھر گھورا اور بولا " تاریں یہاں کوئی نہیں ہیں نہ کوئی کھمبا ہے، بجلی صبح سے غائب ہے، جنریٹر چل رہا ہے"۔۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ چوکیدار اردو سے ناواقف ہے، میں نے اس کی آسانی کو کہا " چچا، میرا مطلب تھا کہ مجھے ستارے دیکھنے ہیں، ان لائٹس کی وجہ سے ان کی روشنی واضح نہیں ہو پا رہی اگر یہ بند ہو جائیں تو جنریٹر کا پٹرول بھی شاید کچھ تو بچے گا"۔۔ چوکیدار کے چہرے پر اب کے ہلکی مسکراہٹ ابھری اور چلتے چلتے بولا " تارے تو روز نکلتے ہیں یہ کونسی نئی بات ہے"۔

وہ رخصت ہوا تو میں اٹھا اور ریسپشن پر موجود مینیجر صاحب کو درخواست کی کہ اگر لان کے لائٹس آف ہو سکیں تو نوازش ہوگی۔ انہوں نے بات مان لی اور کچھ منٹوں بعد بتیاں بجھا دی گئیں۔ رات کے گیارہ بج رہے ہوں گے۔

راما مکمل تاریکی میں ڈوبا تو آسمان پر تاروں کی جھلمل برقی قمقموں کو شرمانے لگی۔ یہ چاند کی آخری تاریخ تھی۔ آسمان پر کہکشاں بکھری ہوئی تھی۔ تاروں کا جھرمٹ یوں لگا ہوا تھا کہ اس پر ہلکے سفید بادل کے ٹکرے کا گمان ہوتا۔ نجانے کب تلک میں لان میں لیٹا کھلی آنکھوں میں تاروں کی روشنی بھرتا رہا۔ ہوا کے سرد جھونکے آنکھ سے ٹکراتے تو ان میں نمی چھوڑ جاتے۔ پھر رات مزید سرد ہوئی۔ مسافر نے ٹینٹ کی راہ لی۔ اگلی صبح میں نے پی ٹی ڈی سی کا لان چھوڑ دیا۔ رات کی سردی سے مجھے ہلکا نزلہ زکام لگ چکا تھا۔ جیپ روانگی کے لئے سٹارٹ ہوئی تو مجھے زکام کی بدولت "شوں شوں" کرتے دیکھ کر چوکیدار قریب آ کر بولا " سردی لگ گئی ناں؟ میں رات کو آ کر یہی کہنے والا تھا کہ سردی لگ جائے گی اپنے ٹینٹ میں جا کر لیٹو مگر آپ سگریٹ پر سگریٹ جلاتے ستاروں کو دیکھنے میں لگے رہے، میں نے سوچا کہ یہ تو آیا ہی ستارے دیکھنے کو ہے"۔ وہ بات کہہ کر کھلکھلا کے ہنسا۔ اس کی ہنسی راما کے وسیع میدان میں گونجتی رہی۔

منظر نامہ 2

یہ پی ٹی ڈی سی پھنڈر ہے۔ پورے چاند کی رات ہے۔ وادی پھنڈر کے عین اوپر چاند گم صم سا ٹکا ہوا ہے۔ میں موٹل سے باہر واقع پارکنگ میں کرسی لگائے بیٹھا ہوں۔ میرے نیچے پھنڈر جھیل ہے جس کے پانیوں میں چاند کا عکس گھلا جا رہا ہے۔ اس کے دودھیا پانی میری آنکھوں کو خیرہ کر رہے ہیں۔ مکمل خاموشی ساری وادی پر چھائی ہوئی ہے۔ کبھی کبھار مرکزی سڑک سے کوئی بائیک والا گزرتا ہے تو اس کا شور دور دور تک خاموشی کو توڑتا جاتا ہے اور پھر وہی ہو کا عالم۔ موٹل خالی پڑا ہے۔ یہ اکتوبر کا اختتام ہے۔ سیاحتی سیزن آف ہو چکا ہے۔ شمال میں سردی کی لہر اترا چاہتی ہے۔ چاند کے گرد ہلکے بادلوں نے ہالہ تان رکھا ہے۔ گوز ڈاون جیکٹ میں بھی سردی لگ رہی ہے۔ ملازم میرے پاس آتا ہے اور دھیمے لہجے میں کہتا ہے " سر، سردی بڑھ گئی ہے۔ آپ اندر آ جائیں۔ اگر نہیں آنا چاہتے تو ہم سونے لگے ہیں۔ کوئی چیز چاہیئے ہو تو بتا دیں"۔ میں اسے دیکھے بنا جھیل کے چاندنی گھلے دودھیا پانیوں پر نظریں ٹکائے کہتا ہوں" ہاں سو جائیں آپ، مجھے کچھ نہیں چاہیئے۔ "۔ وہ پلٹتا ہے، پھر چند قدم چل کر واپس آتا ہے " سر، اندر آ جائیں تو اچھا ہے۔ باہر بہت سردی ہو چکی ہے۔ جھیل کا پانی بھی کناروں سے جم گیا ہے"۔ اب کے میں اسے مڑ کر دیکھتا ہوں اور مسکراتے ہوئے کہتا ہوں" یار! یہ منظر دیکھنے تو میں آتا ہوں، اب جب چودھویں کا چاند ہے اور جھیل سردی سے جم رہی ہے تو مجھے کہہ رہے ہو اندر آ جاوں"۔ وہ سن کر مسکراتا ہے اور لوٹ جاتا ہے۔

اس کے رخصت ہوتے ہی میں پی ٹی ڈی سی کی اونچائی سے اترتا ہوا ایک پتھریلی پگڈنڈی پر چلتا ہوں اور کچھ ہی دیر میں اترائی اتر کر پھنڈر جھیل کے جمتے ہوئے کناروں تک پہنچ جاتا ہوں۔ یہاں حشرات کے ٹرٹرانے کی آوازیں بہت اونچی ہیں۔ پانی کے کناروں پر جہاں پانی تھما ہوا ہے وہاں ایک برفانی سلیٹ سی جمتی جا رہی ہے۔ چاند اور پانی کے سفید جادو نے شاید جھینگڑوں کو بھی میری طرح بے چین کر رکھا ہے۔ اس منظر نامے کا حصہ بنے میں کچھ دیر جھیل کے کناروں پر ٹہلتا رہتا ہوں اور پھر موسم بدلتا ہے۔ تیز ہوا کے جھونکے آنے لگتے ہیں۔ پانی کی سطح بےقرار ہوا چاہتی ہے۔ لہریں بڑھ بڑھ کر اپنے کناروں پر جمتی برفانی سلیٹ کو توڑنا چاہتی ہیں۔ چاند ایک بڑے سے بادل کے ٹکرے میں جا چھپا ہے۔ ہوا کے سر تیز ہوا چاہتے ہیں۔ موسیقی کی دھن بدل رہی ہے۔ لے اونچی ہو رہی ہے۔ ہوا کا شور وائلن سا بجانے لگا ہے۔ میری اپنے کمرے کو واپسی ہوتی ہے۔ پی ٹی ڈی سی سنسان پڑا ہے۔ رات کے آخری پہر میں ہوا وادی کو چار چفیرے سے گھیر چکی ہے۔ یہ خزاں کی ہوا ہے۔ جب چلا کرتی ہے تو شجر و حجر سب اکھاڑتی جاتی ہے۔ گرم بستر پر لیٹے کمرے میں تیز جھونکوں کا شور سنتے نیند اتر آتی ہے۔ اگلی صبح وادی زرد رنگ میں رنگی اپنا روپ دکھاتی ہے۔ درختوں پر خزاں اتر چکی ہے۔

آسمان روشن ہے۔ جیپ سٹارٹ ہوتی ہے۔ ملازم جیپ کے قریب آ کر کہتا ہے " آپ رات گئے سردی میں جھیل کنارے اتر گئے تھے۔ پہلے میں آپ کو لینے کو آنے لگا تھا کیونکہ یہاں رات گئے کچھ عجیب واقعات بھی پیش آ جایا کرتے ہیں جس سے مقامی لوگوں کو بھی ڈر لگتا ہے"۔ (پہاڑی علاقوں میں بسے لوگوں کا بھوت پریت پر ایمان کی حد تک یقین ہے لہذا ایسی مافوق الفطرت داستانیں شمال میں جا بجا پھیلی ہیں)۔ میں یہ سن کر مسکرا دیتا ہوں اور کہتا ہوں" مجھ سے بڑا جن اگر کوئی ہوا تو خود ہی سامنے آ جائے گا، پہلی بار تو نہیں آیا یہاں"۔۔ وہ سن کر کھلکھلا کر ہنستا ہے۔ پھنڈر کی خزاں رسیدہ وادی میں اس کی ہنسی ایکو کرتی جاتی ہے۔

پی ٹی ڈی سی کے وہ تمام موٹلز اور ان میں کام کرتے ملازم جو اب نجانے کہاں ہوں گے مجھے یاد آ رہے ہیں۔ ان کی نوکریاں ختم ہو چکی ہیں۔ پی ٹی ڈی سی کا آپریشن بند ہو چکا ہے۔ دعوی تو یہ تھا کہ پی ٹی ڈی سی کو restructure کیا جائے گا۔ بجا، مگر ہائے وہ لوگ جن کو ملازمتوں سے برخاست کر دیا گیا کاش ان کی rehabilitation کا بھی کچھ خیال ہوتا۔ پی ٹی ڈی سی کو ری سٹرکچر کرنے کا دعوی بھی اس شخص نے کیا تھا جس کو ایک رپورٹر نے سوال پوچھا کہ پاکستان میں آپ کے مطابق سب سے خوبصورت مقام کونسا ہے؟ صاحب دو منٹ تو سوچتے رہے اور پھر بولے " اس کا جواب ابھی نہیں آ رہا، پھر کبھی سہی۔ "۔ ہائے وہ لوگ جن کی ہنسی وادیوں کا نغمہ بنا کرتی۔ ہائے وہ کہانیوں میں سانس لیتے دن۔ ہائے اپنا دل جو بیتے لمحوں اور ان لمحوں میں بسرے لوگوں کو یاد کرتا دھڑکتا کم ہے پھڑکتا زیادہ ہے۔

مگر کہتے ہیں ناں ڈیزاسٹر کسی کے واسطے مواقع بھی لاتا ہے سو اسی واسطے عوامی خدمت کو آئبیکس قیام و طعام سارے شمال میں کھُل رہے ہیں جس کے سبب روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ سول ادارہ بند ہوا تو کیا، فوجی بندوبست حاضر ہے!

Check Also

2017 Ki Ikhtetami Tehreer

By Mojahid Mirza