Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Jawad Shah
  4. Hamari Eid Aur Eid e Ghaza

Hamari Eid Aur Eid e Ghaza

ہماری عید اور عیدِ غزہ

اب عید آگئی۔ اللہ کا شُکر ہے کہ ہماری عید کی تیاریاں مکمل ہوچُکی ہیں اور اگر کوئی کسر رہ بھی گئی ہے، تو وہ بھی آج، کل میں پوری ہو جائے گی۔ ایک دوست نے خوشی خوشی بتایا "عید کے تینوں دنوں کے لیے کپڑوں کے الگ الگ جوڑے سلوائے ہیں کہ بھلا اس گرمی میں ایک ہی سوٹ کون پہنے ہوئے گھومے اور اِس بار تو جوتے بھی بہت اچھے مل گئے کہ ہمارے پسندیدہ مال میں ورائٹی کی بہار آئی ہوئی تھی۔ پھر دوستوں کے اصرار پر کلائی کی گھڑی بھی نئی لی ہے، جو خاصی اسٹائلش ہے۔ سچ پوچھیں تو منہگائی کے باوجود اِس بار عید خریداری میں بہت مزہ آیا کہ شاپنگ مالز بہترین اشیاء سے بَھرے ہوئے تھے"۔

اللہ سب کو عید کی خوشیاں مبارک کرے، مگر ہمارے وجود کے ایک حصّے "غزہ"، جہاں مائیں تباہ شدہ مکانات کے ملبے سے پرانے کپڑے تلاش کر رہی ہیں تاکہ عید پر اپنے بچّوں کو پہنا سکیں، جب کہ نوجوان بھی کھنڈرات سے ایسے ملبوسات اور جوتے ڈھونڈ رہے ہیں، جنھیں وہ عید پر پہن سکیں، کیوں کہ عید تو عید ہے۔ مگر وہ نئے کپڑے کیسے بنائیں کہ بازاروں میں اشیاء کی شدید قلّت ہے اور اگر کپڑے اور جوتے دستیاب ہیں بھی، تو جیبیں خالی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق، 11 لاکھ افراد کے پاس خوراک مکمل طور پر ختم ہوچُکی ہے۔ چھے بچیوں کی ماں کہہ رہی ہے"مَیں تو ایک ٹماٹر تک نہیں خرید سکتی، باقی چیزیں کہاں سے لاؤں؟" دنیا بَھر میں فاقہ کشی کی صُورتِ حال پر نظر رکھنے والے ادارے، آئی-پی-سی نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ "مقبوضہ فلسطین کے علاقے، غزہ کے تمام شہری مئی تک قحط کا شکار ہوجائیں گے"۔

اُدھر عالمی ادارۂ صحت کی ترجمان، مارگریٹ ہیرس نے عالمی میڈیا کو بتایا کہ "غزہ میں بھوک اور فاقہ کشی کے سبب بوقتِ پیدائش کم وزنی کے باعث بچّوں کی اموات واقع ہو رہی ہیں"۔ جب کہ عالمی ادارۂ محنت کا کہنا ہے کہ "غزہ میں پانچ لاکھ سے زائد افراد کے روزگار مکمل طور پر ختم ہو چُکے ہیں"۔ ایسے میں وہاں کیا عید اور کیا عید کی خریداری؟ ہاں، البتہ کفن بہت بِک رہے ہیں اور وہ بھی گز، ڈیڑھ گز کے، صاف ستھرے کفن، جن میں نرم و نازک، ننّھی کلیاں مٹّی سے محفوظ رہ سکیں۔

عموماً عید سے پہلے گھروں کی صفائی ستھرائی کی جاتی ہے، چادریں، پردے تبدیل ہوتے ہیں، مکان کے قابلِ مرمّت حصّوں کی حالت بہتر بنائی جاتی ہے کہ آنے والے مہمان کیا کہیں گے، کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ یہ سب کام غزہ میں بھی ہو رہا ہے۔ ہاں! بس فرق اِتنا ہے کہ اُن کے مکانات تو کھنڈر بن چُکے ہیں اور اُن کے باسی قبرستانوں میں جابسے، تو وہ قبرستانوں ہی میں صفائی اور روشنی کے انتظامات کر رہے ہیں کہ سارے پیارے تو وہیں ہیں اور عید کا دن پیاروں ہی کے ساتھ گزارا جاتا ہے۔

نجانے کیوں غزہ کی لڑکیاں بالیاں بھی اِس بار مہندی کی باتیں نہیں کر رہیں، شاید اِس لیے کہ اُن کے ہاتھ تو پہلے ہی اپنے پیاروں کے خون کی سُرخی سے سجے ہیں۔ یہ جو بچّے آج غزہ کی گلیوں میں بھوکے پیاسے، در در کی ٹھوکریں کھاتے پِھر رہے ہیں، یہ بھی کسی کے جگر پارے تھے، کسی کی زندگی تھے، کوئی اِنہیں بھی عید کو بناتا، سنوارتا تھا، اِن کے لیے بھی نئے کپڑے سِلتے تھے، یہ بھی نئے کپڑے، جوتے پہن کر اِتراتے چلتے تھے، کلائی پر بندھی گھڑی میں بار بار وقت دیکھتے تھے، مگر آج، سوا رب مسلمانوں کے ہوتے یہ یتیم بے آسرا ہیں، نئے کپڑوں سے محروم ہیں، اِنہیں کوئی عیدی دینے والا نہیں۔ یہ کھلونوں کو حسرت بَھری نظروں سے دیکھتے ہوئے سوچ رہے ہیں کہ اے کاش! ماں زندہ ہوتی۔

اِنہیں طرح طرح کے پکوان کہاں سے ملیں کہ سادہ روٹی تک دستیاب نہیں۔ آپ کو اور مجھے عید مبارک، مگر اِن کی عید کہاں ہے،؟ یہ جو بوسیدہ کپڑے پہنے، پھٹے جوتوں والی، روتی بِلکتی، لاوارث بچّی نظر آ رہی ہے ناں، اِس کا باپ اِسے اپنے ساتھ عیدگاہ لے جاتا تھا، اِس کے پاس بھی کھلونے ہوتے تھے، یہ بھی سب گھر والوں کو بھاگ بھاگ کر، گھوم گھوم کر بڑی چاہت سے اپنے خُوب صُورت ریشمی فراک دِکھاتی تھی، مگر اب نہ کوئی کندھے پر بِٹھانے والا رہا، نہ کوئی کپڑے دِلانے والا اور اُنھیں دیکھ کے خوش ہونے والا۔ سب منوں مٹّی تلے جا سوئے۔

حسرت و یاس کی تصویر بنے، ملبوں پر بیٹھے اور قبروں سے لپٹے یہ بچّے، اُس اُمّتِ مسلمہ کی طرف دیکھ رہے ہیں، جو اُن رحمتِ عالم ﷺ کے پیروکار ہے، جن سے متعلق کہا گیا"وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا، مُرادیں غریبوں کی بَر لانے والا، مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا، وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا، فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماویٰ، یتیموں کا والی، غلاموں کا مولیٰ"۔ وہی یتیموں کے والیﷺ، جنھوں نے ایک بار غزوۂ اُحد میں شہید ہونے والے، حضرت عَقرَبہؓ کے یتیم بیٹے، بشيرؓ کو روتے دیکھا، تو قریب آکر بہت شفقت اور پیار سے پوچھا "اے پیارے! کیوں روتے ہو؟ کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ مَیں تمہارا باپ اور عائشہؓ تمہاری ماں ہو جائے؟" (یعنی ہم دونوں تمہیں ماں، باپ کا پیار دیں اور محبّت و شفقت سے پرورش کریں)"۔ حضرت بشیر بن عقربہؓ فرماتے ہیں" مَیں نے عرض کیا" کیوں نہیں، اور یہ سُن کر میرے اداس، غم زدہ دل کو سکون و قرار آ گیا"۔

عید کا موقع ہے اور غزہ کے یتیم و لاوارث بچّے ہر آتے جاتے شخص کو دیکھتے ہیں کہ کوئی بڑھ کر اُنہیں اپنے سینے سے لگائے، تو ہے کوئی، جو اپنے نبیٔ اکرم ﷺ کی سُنّت ادا کرتے ہوئے آگے بڑھ کر اِنہیں اپنائے، اِنہیں اپنی پیار بھَری بانہوں میں سمیٹ لے! اگر ہم کچھ اور نہیں کرسکتے، تو کم از کم یہ عید اہلِ غزہ کے نام تو کر ہی سکتے ہیں۔

اپنے بچّوں کو عیدی دیتے ہوئے اُس بچّی کو بھی تصوّر میں لائیں، جو دن بَھر، بمبوں کے شور میں اِس لیے گلیوں میں تنِ تنہا پِھرتی رہی کہ اُس کا گھر اور گھر والے اسرائیلی بم باری کا نشانہ بن گئے ہیں۔ وہ باپ بھی نظروں سے اوجھل نہ ہونے پائے، جو اپنے تین لختِ جگر سپردِ خاک کرکے واپس لَوٹا، تو گھر میں دو جنازے مزید تیار تھے۔ آسمان کی طرف ہاتھ پھیلائے وہ مائیں بھی بھولنے نہ پائیں، جن کا غم اُن کا ربّ ہی جانتا ہے کہ ممتا پر ایسی قیامتیں کم ہی گزری ہیں۔

ہم اپنے عید کے اخراجات میں کچھ کمی کرکے باقی رقم غزہ کے مظلوم و بے کس عوام کے لیے بھیج سکتے ہیں، اپنے بچّوں کو ترغیب دی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی عیدی اپنے غزہ کے بھائی، بہنوں کے ساتھ شئیر کرلیں۔ پکوانوں کی تعداد کم کرکے رقم اُن افراد کے لیے بھیج سکتے ہیں، جو روٹی کے دو لقموں تک کو ترس گئے ہیں اور اِس فریضے کی تکمیل کے لیے"مختلف فلاحی ادارے" موجود ہیں، جن کے ذریعے اہلِ غزہ کو عید کی خوشیوں میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ غزہ اور اہلِ غزہ ہمارے ہیں اور ہم اُن کے ہیں۔ آج اِس رشتے کی آزمائش ہے اور اُمّتِ مسلمہ کو اِس آزمائش پر ہر صُورت پورا اُترنا چاہیے۔ (اِن شاء اللہ تعالیٰ)۔

ہم رائل سٹوڈنٹس ویلفیئر سوسائٹی پاکستان اس بار اپنی عید اور اپنی عیدی غزہ/ فلسطین کے نام کر چکے ہیں اور آپ سب کو بھی لمحہ فکر دے رہا ہوں ہمارے ساتھ شامل ہوکر اپنی امداد اپنے فلسطین ماؤں بہنوں بھائیوں بزرگوں اور معصوم بچوں کو دیں ہم ان کا غم کم نہیں کرسکتے مگر ان کے اس مشکل گھڑی میں کچھ لمحوں کا سہارا تو بن سکتے ہیں۔

ذرا سوچئے

Check Also

Na Milen Ke Bharam Qaim Rahe

By Rauf Klasra