Tehreek e Insaf Ka Siasi Ittehad
تحریک انصاف کا سیاسی اتحاد
کل پاکستانی سیاست میں ایک اہم پیشرفت ہوئی، تحریک انصاف نے اپنے آزاد ممبران کی "سنّی اتحاد کونسل" میں شمُولیت کا اعلان کر دیا۔ لیکن یہاں کسی کو اِس نام سے تکلیف نہیں ہوئی کہ یہ مسلکی جماعت ہے جس کے نام میں ہی اِس کے مسلک کا نام لکھا ہے۔ اب کوئی اس جماعت کا منشُور نکال کر شقوں پر اعتراض نہیں کر رہا اور نہ انہیں دائرہِ اسلام سے خارج کر رہا ہے۔
بات حقیقت میں یہ ہے کہ شیعہ اس ملک میں دُوسرے درجے کے مسلمان ہیں، کچھ بڑے حلقے تو خیر انہیں مسلمان ہی تسلیم نہیں کرتے۔ یہ بات کہیں لکھی ہوئی تو نہیں ہے لیکن عملی طور پر ایسا ہی ہے۔ ریاستی اداروں کی سرپرستی میں اس مسلک کے خلاف اتنی نفرت پھیلا دی گئی ہے کہ ایک سادہ اتحاد بھی لوگوں کو ہضم نہیں ہوتا۔ مولانا فضل الرحمان کی پارٹی جمعیت علمائے اسلام کے کارکنان جو کہ خود ایک مسلکی تنظیم ہے، تحریک انصاف کی مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ اتحاد پر سوشل میڈیا پر غلاظت انڈیلتے نظر آئے۔
ہمیں اِس میں کوئی اعتراض نہیں کہ تحریک انصاف نے "سُنّی اتحاد کونسل" کے ساتھ اتحاد کیا ہے، بلاشُبہ صاحبزادہ حامد رضا کی یہ جماعت بینُ المسالک ہم آہنگی کو فروغ دیتی ہے نیز ہمارے دلوں میں تمام مسلمان مسالک کے لئے کافی وُسعت اور رواداری ہے۔ لیکن ایک متعصّب طبقے نے جس طرح کا ردِّ عمل ظاہر کیا ہے وہ پاکستان کی شیعہ آبادی کو یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ نئے پاکستان میں تمہارا کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہے۔ ان کا بس نہیں چلتا ورنہ پاکستان میں اہل تشیُّع کو غیر مسلم قرار دے دیں، گو یہ مہم تو طویل عرصے سے اُنہوں نے چلا رکھی ہے۔
اس غلاظت کا ایک نمُونہ ان نمُونوں کی طرف سے تحریک انصاف سے وابستہ لوگوں کا مجلسِ وحدتِ مُسلمین کے ساتھ اتحاد پر نکاح ٹوٹنے کا فتوی ہے۔ معلوم نہیں اِن کے نکاح فوراً کیسے ٹُوٹنے لگتے ہیں، اِس پر اعلی تعلیمی اداروں میں تحقیق ہونی چاہیے۔ یہ لوگ ذہنی و سماجی مریض ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی مذہبی اشرافیہ پر یہی لوگ قابض ہیں۔
اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے جہاں فرقہ واریت اور مسلکی بنیادوں پر نفرت اپنے عروج پر ہے۔