Tehreek e Insaf Aur Molana Fazal Ur Rehman Mein Mafahmat
تحریک انصاف اور مولانا فضل الرحمٰن میں مفاہمت
کل پاکستانی سیاست میں ایک اہم پیشرفت ہوئی، تحریک انصاف کے وفد نے مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کے بعد مل کر دھاندلی کے خلاف احتجاج کا فیصلہ کیا۔ مولانا صاحب اس بار خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکے، اور دوسری طرف مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور کنٹرول ٹاور نے انہیں گھاس نہیں ڈالی جس کی وجہ سے وہ شدید ناراض ہو چکے ہیں اور پارلیمانی سیاست کو ترک کرکے "مرتا کیا نہ کرتا" کے مصداق غیر پارلیمانی سیاست کے لئے کمربستہ ہو چکے ہیں۔ اس اتحاد میں تعجب انگیز بات یہ ہے کہ دونوں کی سیاست ایک دوسرے کی ضد پر قائم ہے۔
تحریک انصاف کے سپورٹرز پچھلے تمام تر کرپشن اور دھاندلیوں میں مولانا کو نواز شریف اور زرداری کے ساتھ شریک کرتے رہے ہیں، ان کو مولوی ڈیزل، فضلو یا فضلہ جیسے القابات سے نوازتے رہے ہیں، جس میں خود بانی تحریک انصاف بھی شامل تھے۔ دوسری طرف مولانا صاحب عمران خان کو یہو-دی ایجنٹ قرار دیتے رہے۔ کل جے یو آئی کے ایک بڑے کارکن کی ٹویٹ دیکھی جس میں وہ عمران خان کے متعلق فرما رہے تھے کہ وہ یہو-دی ایجنٹ تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ مولانا نے برملا کئی فورمز پر کہا ہے کہ عمران خان یہودی اور بھارتی لابی کا ایک اہم مہرہ ہے۔
دوسری طرف جمعیت علمائے اسلام (ف) حالیہ انتخابات میں دھاندلی کا الزام اس لئے لگا رہی ہے کہ وہ خیبر پختونخواہ سے کوئی بھی نیشنل اسمبلی کی سیٹ نہیں جیت پائے۔ تحریک انصاف نے خیبر پختونخواہ میں ان کی سیاست مٹی میں گاڑ دی ہے جہاں عمران خان بے تاج بادشاہ ہے۔ اس صورت میں مولانا سے اتحاد خود تحریک انصاف کی سیاسی ہار نہیں؟ اور کیا یوں تحریک انصاف مولانا کی ڈوبتی سیاست کو نادانستہ سہارا فراہم نہیں کر رہی؟ کیا یہ ان کی طرف سے حماقت نہیں ہے؟
پھر مولانا کا الزام ہے کہ خیبر پختونخواہ میں خوب دھاندلی ہوئی جس کی وجہ سے وہ بری طرح ناکام ہوئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس دھاندلی کے نتیجے میں کس کی جیت ہوئی؟ یقینا تحریک انصاف نے وہاں کلین سویپ کیا ہے۔ تحریک انصاف یہاں مولانا کا ساتھ دیتی ہے تو کیا وہ اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ واقعی تحریک انصاف کے حق میں دھاندلی ہوئی ہے؟
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف نے وفاق میں مجلس وحدت المسلمین کے ساتھ اتحاد کا اعلان کیا جس کے بعد ایک خاص مکتب فکرکے تکفیریوں کے درمیان ہلچل ہوئی اور اپنی قیادتوں کو کوستے رہے کہ انہوں نے عمران مخالف بیانیے کو اس قدر فروغ دیا کہ آج تحریک انصاف جیسی بڑی جماعت شیعوں کے ساتھ اتحاد پر مجبور ہوگئی۔ اب اسی مکتب فکرکے تکفیری مولانا کہ بصیرت کو سلام پیش کر رہے ہیں کہ انہوں نے حکمت عملی سے تحریک انصاف کو رافضیوں سے دور کر دیا۔ شاید اس طبقے کی کوششوں سے یہ پیش رفت ہوئی ہے۔
مندرجہ بالا سطور کی روشنی میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف کا یہ فیصلہ انتہائی حماقت پر مبنی ہے۔ باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ تحریک انصاف کا ایک دھڑا مولانا کے ساتھ اس اتحاد کا مخالف ہے۔ مجھے ذاتی طور پر نہیں لگتا کہ یہ اتحاد دیر پا ہوگا۔ جلد ہی نواز شریف اور کنٹرول ٹاور مولانا کو منا لیں گے کیونکہ بہرحال حکومت کا مسند انہی کو منتقل ہونے جا رہا ہے۔ مولانا صاحب کو اہمیت، عزت اور عہدے چاہییں جو یہ لوگ ان کو فراہم کر لیں گے۔ دوسری طرف میں سمجھتا ہوں کہ دونوں تحریک انصاف میں بعض ایکسپرٹ اور پنڈت اس بات سے آگاہ ہیں کہ یہ اتحاد ان کے لیے زہر قاتل ہوگا۔