Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Jawad Hussain Rizvi
  4. Saneha Chilas

Saneha Chilas

سانحہ چلاس

گزشتہ دنوں ایک بار پھر چلاس میں بلتستان سے جانے والی مسافر بس پر حملہ ہوا جس میں متعدد شہید اور زخمی ہوئے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا، اس سے قبل 2012 میں چلاس، کوہستان اور بابوسر کے مقامات پر مختلف واقعات میں دسیوں مسافروں کو ان کی مسلکی شناخت کے بعد قتل کر دیا گیا۔

گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ فسادات 1970 کی دہائی سے وقتاً فوقتاً جاری ہیں، جن میں کبھی بہت ہی شدت آ جاتی ہے۔ اس میں تڑکا ضیاء الحق دور میں لگا جس کے بعد مختلف فرقہ پرست تنظیموں کی بنیاد رکھی گئی۔ وہاں مقامی افراد کو ہمیشہ یہ تاثّر ملا کہ انتظامیہ ان فرقہ وارانہ عناصر کے ساتھ ہے اور انہی کی ایماء پر یہ سب کیا جا رہا ہے۔ ان عناصر کا ساتھ دینے کے لئے گلگت بلتستان کے مختلف شہروں میں پاکستان کے دیگر حصّوں سے لوگوں کو بسایا جانے لگا تاکہ مقامی آبادی کی demography کو تبدیل کیا جا سکے۔ ان میں سر فہرست گلگت شہر ہے جہاں شیعہ آبادی 1947 میں 80٪ تھی لیکن اب گھٹ کر 39٪ فیصد رہ گئی ہے۔ اب یہی کام اسکردو شہر میں بھی کیا جا رہا ہے۔

کہتے ہیں کہ کچھ خاص عناصر گلگت بلتستان میں تقسیم کی دراڑیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ گویا استعماری دور کی "Divide & Rule" پر عمل کیا جا رہا ہے تاکہ وہاں کے لوگ اپنے اصل مسائل سے غافل رہ سکیں۔ وہاں کا اصل اور بنیادی مسئلہ آئینی شناخت ہے جس سے گلگت بلتستان محروم ہے۔ آئینِ پاکستان میں گلگت بلتستان کا کوئی ذکر نہیں ہے اور پاکستان آفیشلی ان علاقوں کو متنازعہ مانتا ہے تاکہ کشمیر کاز کا دفاع کیا جا سکے۔ لیکن اس اقدام سے فیصلہ ہندوستان کے حق میں جا رہا ہے جو بلا تردّد ان علاقوں کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اور پاکستان متنازعہ مان کر ہندوستان کے دعویٰ کی تائید کر رہا ہے۔

حالیہ کچھ سالوں میں گلگت بلتستان کے نوجوانوں کا شعور بلند ہوا ہے اور اب کھل کر اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ ان مطالبات کو تسلیم کرے اور گلگت بلتستان کو ان کے جائز حقوق دے وگرنہ ان مطالبات میں شدت آتی جائے گی اور حالات کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے۔ یہ واحد خطہ ہے جو پاکستان کا حصّہ بننا چاہتا ہے لیکن پاکستان اس علاقے کو متنازعہ قرار دیتا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی اس پورے خطّے پر گہری نظر ہے اور کبھی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے گا، لہذا سنجیدگی کے ساتھ مسائل کے حل پر توجہ دی جائے۔ اس سلسلے میں کشمیر اور چلاس کے رہنماؤں سے ڈکٹیشن لینے سے گریز کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے لوگوں کو مکمّل شناخت دی جائے۔

بہرکیف اس طرح فرقہ واریت کو ہوا دینے سے مسائل میں اضافہ ہوگا۔ اربابِ اختیار ان مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ دیں۔ باشعور عوام کی ایک تعداد اب سمجھ گئی ہے کہ اس طرح کے واقعات کے پیچھے منظم سازش کارفرما ہوتی ہے۔ یہ فرقہ پرست تنظیمیں سرکاری چھتری تلے پھلتی پھولتی ہیں اور انتظامیہ ان کے خلاف سخت کارروائی کے بجائے ان کو مخفی طور پر سہولیات فراہم کرتی ہیں تاکہ مختلف ایجنڈوں کی تکمیل ہوتی رہے۔

Check Also

Danish Ki Jeet, Bewaqoofi Ki Haar

By Asif Masood