Kya Watan Se Muhabbat Eman Ki Alamat Hai?
کیا وطن سے مُحبّت ایمان کی علامت ہے؟
ایک روایت رسول اکرم ﷺ سے منسوب کی جاتی ہے کہ وطن سے محبّت ایمان کا حصّہ ہے۔ کبھی اس کی نسبت دیگر معصومین سے دی جاتی ہے۔ یہ روایت شیعہ سنّی مُعتبر منابع اولیہ میں موجود نہیں ہے۔ بعض مُتاخّر یعنی بعد کے علماء نے اپنی کتب میں اس روایت کو نقل کیا، لیکن کوئی سند درج نہیں کی۔ جیسے شیخ نمازی شاہرودی نے مُستدرک سفینۃُ البحار میں شیخ حر عاملی کی کتاب "امل الآمل" سے اس روایت کو نقل کیا۔ لہذا اِس روایت کو قطعی طور پر کسی معصوم سے نسبت نہیں دے سکتے، نہ اِس مُتعلق کوئی ظنِّ قوی رکھ سکتے ہیں، بلکہ قرائن کی رُو سے بعید نہیں کہ یہ جعلی ہو۔
استاذ گرامی آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی نے نہج البلاغہ کی شرح "پیامِ امام امیرُ المُؤمنین" میں اس طرف اشارہ کیا کہ روایت مُعتبر منابع حدیث میں نہیں۔ سید جعفر شہیدی جنہوں نے مولانا روم کی مثنوی کی تفسیر لکھی ہے، اُنہوں نے اس شعر کی تشریح میں جہاں مولانا روم نے اِس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے، لکھا ہے کہ اِس کلمے کو حدیث قرار نہیں دیا جا سکتا۔ استاد مُرتضی رحیمی، جو شیراز یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں، کی تحقیق کے مطابق اہل سنّت عُلماء جیسے ابن حجر عسقلانی، بدرالدّین عینی، اور مبارکپوری نے اس روایت کو جعلی قرار دیا ہے۔
سَنًد سے چشم پوشی بھی کریں تو مضمون و مفہوم میں بہت سے اشکالات پائے جاتے ہیں۔ یہاں وطن سے مُراد کیا ہے؟ کیا شرعی وطن مُراد ہے؟ یا موجودہ جغرافیائی حدود ہیں؟ یا وہ جگہ ہے جہاں انسان پیدا ہوتا ہے؟ یا جہاں وہ اس وقت رہ رہا ہے؟ یا پھر کوئی اور مفہوم ہے؟ اور اگر وطن کی تعریف پر مُتّفق بھی ہو گئے تو وطن سے محبّت اور ایمان میں کیا تلازُم ہے؟
کچھ عرصے سے خاکسار نے یہ نوٹ کیا ہے کہ اِس روایت کو نیشنلزم کے معنوں میں پیش کیا جاتا رہا ہے۔ یعنی آپ اپنی نیشنلٹی کی بنیاد پر اپنے ملک سے شدید انداز میں محبّت کریں۔ وہ نیشنلزم جس کی بنیاد پر دنیا میں لاکھوں انسان مارے گئے اور کروڑوں متاثر ہوئے ہیں۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ آیا اِس قسم کی نیشنلزم کی اِسلام میں کوئی جگہ ہے؟
ظاہر ہے اسلام اس طرح کی مادّی سوچ کی جس میں انسان مُتعصّبانہ طور پر اندھا ہو جائے، کبھی تائید نہیں کرتا۔ درحالیکہ نیشنلزم کی تعریف پر بھی اِس کے ماننے والوں میں کوئی اتفاق نہیں ہے۔ کیا نیشسلزم سے مراد آپ کی موجودہ شہریت ہے؟ بسا اوقات ایک مُلک میں کئی قومیتوں کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ جیسے پاکستان میں پنجابی، سِندھی، بلوچ، گلگتی، بلتی اور پٹھان ہیں۔ تو کیا وطن سے مُراد صُوبے ہیں؟ یا قومیتوں کی بنیاد پر آپ کے علاقے ہیں؟ یا پورا مُلک ہے؟ بھارت کی مثال لے لیں، وہاں کشمیر، بنگال اور جنوبی ہند کے رہنے والے الگ قومیتیں کہلائیں گے؟ یا پھر پورا بھارت ایک مُلک ہے؟
یہ بات قابل غور ہے کہ ماضی میں یہ مُختلف علاقے الگ الگ مُمالک بھی رہے ہوں گے اور اب بھی الگ الگ ریاستیں ہیں۔ اسی طرح چین و روس کی مثال لے لیں جہاں الگ الگ ریاستیں اور مُمالک اب ایک مُلک قرار پاتے ہیں، چاہے زبردستی ان کو ایک کیوں نہ رکھا ہو۔ جیسے چین میں تِبّت و مشرقی تُرکِستان (سِنکیانگ) کے علاقے اپنی علحدہ شِناخت اور تشخُّص پر زور دیتے ہیں۔ یورپ میں چھوٹے چھوٹے مُمالک اسی لئے ہیں کہ انہوں نے اپنی قومیتوں کے لئے الگ الگ مُلک تشکیل دیے۔ ماضی کے ممالک بعد میں تقسیم ہو کر الگ مُلک بن جاتے ہیں۔ تو یہ وطن آخر ہے کیا؟
اگر وطن سے مُراد جغرافیائی حدود لے لیتے ہیں تو سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اس طرح کی وطن کی محبّت کا ایمان کے ساتھ کیا تلازُم ہے؟ اگر ایک فاسِق و فاجِر شخص اپنے مُلک سے مُحبّت رکھتا ہے تو کیا ہم اس کو ایماندار قرار دے سکتے ہیں؟ اکثر دیکھا یہ جاتا ہے کہ اس طرح کا نیشنلزم انسان کے اندر عصبیت کو فروغ دیتا ہے جہاں اپنے ملک کی بہت سی غلطیوں سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔ اس کا ملک جس قدر بھی جارح ہو، وطن سے محبّت کا تقاضا یہ قرار پاتا ہے کہ آپ وطن کی ہر غلطی سے چشم پوشی کریں بلکہ حمایت کریں۔ بسا اوقات دیگر مُمالک سے نفرت کی حد تک بھی بات چلی جاتی ہے۔ بہت واضح ہے کہ اِس قِسم کی وطن کی مُحبّت اسلام کی تعلیمات کے بالکُل خلاف ہے۔ قومی عصبیت کو ایمان کی علامت قرار نہیں دیا جا سکتا، اور ایسے ہی لوگ اس قسم کی روایات سے تمسٌّک کرتے نظر آتے ہیں تاکہ اپنی عصبیت کو جسٹفائے کر سکیں۔
کوئی یہاں کہہ سکتا ہے کہ یہاں شرعی وَطَن مقصُود ہے۔ شرعی طور پر وطن وہ جگہ ہے جہاں انسان کی نماز مُکمّل ہوگی یعنی قَصر نہیں پڑھے گا اور جہاں رمضان کے روزے شرعی طور پر واجب ہوتے ہیں۔ شریعت میں لازم نہیں کہ جس جگہ آپ پیدا ہوں وہی آپ کا وطن ہو، بلکہ آپ جس جگہ کو مُستقل رہنے کے لئے چُنتے ہیں وہ آپ کا شرعی طور پر وطن ہے۔ مستقل رہنے کی نیّت کا اعتبار ہے یا نہیں اس پر بھی اختلاف ہے، بعض فقہاء نے حقیقت میں اس قدر کسی جگہ رہنے کو لازم قرار دیا کہ عُرف میں اُس کو وہاں کا رہائشی قرار دیا جائے۔ بعض نے چھ ماہ کی قید لگائی، بعض نے وہاں گھر ہونے کو لازِم قرار دیا۔ علاوہ ازیں یہاں وطن سے مراد کوئی جغرافیائی ملک نہیں ہے بلکہ شہر ہے جہاں آپ رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ بہت واضح ہے کہ یہ شرعی وطن وہ جگہ نہیں ہو سکتی جس سے محبّت کو ایمان کی علامت کہا گیا، کیونکہ یہ وطن شرعی طور پر تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
بعض عُلماء نے فرمایا کہ یہاں وطن سے مُراد جغرافیائی مُمالک نہیں بلکہ پُورا عالمِ اسلام ہے۔ امام خُمینی نے اپنے بیانات اور تقریروں میں مُتعدد بار نیشنلزم کو مغربی افکار کی آفتوں میں سے قرار دیا، جس کے تحت مُسلمان اقوام کو ایک دوسرے کے مُقابلے میں کھڑا کیا جاتا ہے، جیسے عراقی و ایرانی آپس میں لڑے، عراق و کویت ایک دوسرے کے مقابل آ گئے۔ ایک ہی مُلک کے اندر کُرد اور تُرک آپس میں مُقابل کھڑے ہوئے۔ اس نیشنلزم کے زیر اثر مسلمان ایک دوسرے کے خُون کے پیاسے ہو گئے اور مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا ہوا۔ علامہ مُرتضی عسکری نے اِس روایت کو اِنہی معنوں میں لیا ہے یعنی وطن سے مُراد یہاں عظیم اسلامی وطن ہے۔ یہ تعبیر اسلام کے تصوّرِ اُمّت سے سازگار ہے۔ بقول اقبال۔
بُتانِ رنگ و خُوں کو توڑ کر مِلّت میں گُم ہو جا
نہ تُورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی
بعض علماء نے وطن کی مزید تعبیرات بیان کی ہیں۔ جیسے شیخ بہائی نے کشکول میں یہاں وطن سے مُراد آخرت اور بہشت کی طرف رَغبت کو قرار دیا۔ گویا مومن اِس فانی دُنیا میں اجنبی اور غریبُ الوطن ہے، وہ اپنے اندر شوق و رغبت رکھتا ہے کہ جلد سے جلد اپنے اصل سے جا ملے۔ بالفاظِ دیگر بہشت اس کا وطن ہے جہاں سے وہ نکلا تھا، اب رغبت رکھتا ہے کہ جلد سے جلد اپنے وطن واپس لوٹے۔ اِس طرح کی تعبیرات عُرفاء کے ہاں بھی ملتی ہے جو وطن سے مراد وہ عہد و پیمان سمجھتے ہیں جو اَلَست میں لیا گیا، یا جو اللہ نے انسان کی سرِشت میں وَدیعت کر دیا۔
البتہ جس جگہ انسان پیدا ہوتا ہے، یا طویل مُدّت تک رہتا ہے، اس جگہ سے اُنسیت کا پیدا ہونا طبیعی ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ یہ اُنسیت تعصُّب میں نہ بدلے۔
نتائج:
مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں درج ذیل نُکات کی صورت میں نتائج بیان کئے جا سکتے ہیں۔
ا) وطن سے مُحبّت ایمان کی علامت ہے، ایسی کوئی روایت مُعتبر منابع میں نہیں۔ بعض مُتاخر منابع میں بِلا سند نقل ہوئی ہے یعنی معصوم تک مُتّصِل سند نہیں ہے۔ لہذا اس کی نسبت معصوم سے نہیں دے سکتے۔
ب) اگر سند سے چشم پوشی کی جائے تو وطن کو مُتعیّن کرنا سخت مرحلہ ہے۔
ج) کم از کم اتنا آپ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وطن سے محبّت کا مطلب موجودہ زمانے کی جغرافیائی حد بندیوں پر مُشتمل مُمالک سے محبت مراد نہیں جو عصبیت کا باعث ہے، جس سے اسلام سختی سے منع کرتا ہے۔ یعنی یہاں وطن سے مراد آپ کا پاکستانی، بھارتی، ایرانی و چینی ہونا نہیں۔
د) اِس قسم کی وطن پرستی کا کوئی تلازُم ایمان کے ساتھ نہیں ہے۔ انصاف پر مبنی حق بات کرنا ایمان کے ساتھ تلازُم رکھتا ہے، چاہے حق بات آپ کی نیشنلٹی والے ملک کے برخلاف کیوں نہ ہو۔