Kya Ramzan Mein Tafreeh Karna Durust Hai?
کیا رمضان میں تفریح کرنا درست ہے؟
کچھ عرصے سے رمضان المبارک میں ایک ٹرینڈ نظر آ رہا ہے کہ ہماری نوجوان نسل رات بھر تاش، لڈو یا رات بھر ٹی وی شوز دیکھنے اور دیگر تفریحات میں مگن رہتی ہے اور پھر دن بھر سوتے رہتے ہیں، یوں ان کے بقول روزے اچھے گزر جاتے ہیں۔ لیکن پھر ماہ مبارک رمضان کا ایک خاص تقدّس نہیں رہتا، یہ عبادتوں کا مہینہ بننے کے بجائے تفریح کا مہینہ بن جاتا ہے۔
ایک بات واضح کرتا چلوں کہ اسلام تفریحات کے بالکل خلاف نہیں ہے بشرطیکہ تفریح میں شرعی و عقلی لحاظ سے کوئی ممنوع بات نہ ہو۔ لیکن جب حد سے بڑھ جائے تو یہ لہو و لعب کے زمرے میں چلا جاتا ہے یعنی بیہودہ اور عبث کام جس سے انسان کو دنیوی یا اخروی لحاظ سے فائدہ نہیں ہوتا۔ اگر انہی اوقات کو بہترین کاموں میں صرف کیا جائے تو ماہ مبارک رمضان سے دنیوی، اخروی، روحانی و معنوی لحاظ سے مستفید ہوا جاسکتا ہے۔
یہ نکتہ قابل غور ہے کہ رمضان المبارک کی راتوں میں شعر گوئی سے بھی منع کیا گیا ہے، اس حوالے سے ہمارے ہاں معتبر اور صحیح روایات موجود ہیں۔ حالانکہ شعر و شاعری بذات خود بری نہیں لیکن اس کے ذریعے رمضان کی معنویت سے بہرہ مند ہونے کے بجائے طبیعت عبث امور کی طرف ملتفت ہو سکتی ہے، لہذا رمضان میں شعر و شاعری سے بھی منع کیا گیا ہے۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رمضان میں کردار سازی کی کس قدر اہمیت ہے۔ پھر عقل و منطق کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جب شعر گوئی ممنوع ہے تو رمضان میں رات بھر تاش کھیلنے یا دیگر تفریحات کا کیا حکم ہوگا؟ یاد رہے کہ فقہاء نے ان روایات کو کراہت پر محمول کیا ہے۔
اب سوال یہ بنتا ہے کہ رمضان کی با برکت راتوں کو کیسے گزارا جائے؟ کوشش کریں کہ مطالعے کی عادت ڈالیں یا لیکچرز اٹینڈ کریں جن میں مختلف علوم و فنون کے ماہرین سے آپ مستفید ہو سکیں۔ آجکل تو ہر موضوع پر مواد ویڈیوز کی شکل میں موجود ہیں۔ یا مختلف دوست مل کر کتب بینی کرکے یا کوئی خاص علمی ویڈیوز کا مشاہدہ کرکے باہم ڈسکشن وغیرہ کر سکتے ہیں، یا اپنی محافل میں علماء و دیگر علوم کے ماہرین کو مدعو کرکے ان سے فیضیاب ہو سکتے ہیں۔
غرض آپ ان ایّام کا درست استعمال کرنا چاہیں تو بہت آپشنز آپ کو مل سکتے ہیں۔ واجب نمازوں کے ساتھ نافلہ نمازوں کا بھی اہتمام کریں۔ سحری کے اوقات میں بہترین دعائیں وارد ہوئی ہیں، ان کو پڑھیں، تہجّد کی عادت ڈالیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس مہینے اپنے گرد و پیش ضرورت مندوں اور مستحق افراد کا خیال رکھیں۔