Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Jawad Hussain Rizvi
  4. Ahal e Mimber Aur Falsafa e Azadari

Ahal e Mimber Aur Falsafa e Azadari

اہلِ مِنبر اور فلسفۂ عزاداری

آج کل یہ بحث زوروں پر ہے کہ مجالس میں فقط ذکرِ حسینؑ ہونا چاہیے یا پھر مجالس میں دیگر اہم مسائل بھی ڈسکس کر سکتے ہیں۔ کھُل کر بات کی جائے تو بحث اس پر ہے کہ مجالس میں سیاست اور انقلاب پر فوکس کیا جائے یا فقط ذکرِ حٌسینؑ پر۔ اس سے بھی واضح بات کریں تو بحث اس میں ہے کہ آج کے یزید کی مُذمت کی جائے یا مرے ہوئے یزید پر ہی لعنت پر اکتفا کیا جائے۔

بعض خطباء اس سلسلے میں کافی واضح کلمات ارشاد فرما رہے ہیں، گو کہ ان کی تعداد چند ہے۔ تاریخ میں بھی برّصغیر کے خُطباء و عُلماء یزیدیت اور حسینیت کو ایک تسلسل کے طور پر دیکھتے آئے ہیں۔ "حُسینیت زندہ باد" اور "یزیدیت مردہ باد" کے نعرے ہمیشہ سے لگتے آئے ہیں جو اس خطے کے بیدار مغز ہونے کی علامت ہے۔ یہ کچھ نئی آوازیں ابھر رہی ہیں جو ذکرِ حُسینی کو فقط کُچھ موضوعات تک قید کرنا چاہتے ہیں، یہ تعداد میں کم ہیں لیکن چونکہ انقلاب مخالف جذبات کافی ابھر چکے ہیں لہذا اِن کو کافی پذیرائی مل رہی ہے۔

یہ امتیاز بھی ہمیں ہی حاصل ہے کہ ہم اس طرح کی آوازوں کو پذیرائی بخشتے ہیں ورنہ دیگر ممالک میں مجلس کا مطلب فقط ذکرِ حسینؑ نہیں لیا جاتا، بلکہ امام حسینؑ کی تعلیمات، اہداف و مقاصد کا بھی ذکر کیا جاتا ہے، اور کربلا کی تحریک کی روشنی میں اس کی تطبیق موجودہ زمانے سے بھی دی جاتی ہے۔ میرے پر دادا و نانا آقا سید ابراہیم شاہ رضوی مرحوم (میر واعظ پاری کھرمنگ) ہمارے بچپن میں بچوں کو اکٹھا کرکے عربی میں نوحہ خوانی کرتے تھے، جو انہوں نے عراق میں قیام کے دوران سنے تھے۔ ہمیں جب ہوش آیا تو ان نوحوں میں امریکہ کا ذکر ہوتا تھا اور کبھی اسرائیل کا اور کبھی ایران کا جو اس زمانے یعنی شاہ ایران کے دور میں امریکا و اسرائیل کا بہت بڑا اتحادی تھا۔ یہ نوحے یہ افراد سن لیں تو شاید ان کی رُوح قفسِ عنصری سے پرواز کر جائے۔

ان افراد کا بنیادی دعوی یہ ہے کہ آئمہؑ نے جو امام حسینؑ کے لئے محافل برگزار کیں ان میں فقط حُسین حُسین ہوتا تھا۔ ان سے سوال ہے کہ ان ارشادات و فرمودات میں دیگر مسائل پر بات کرنے سے منع بھی کہاں گیا ہے؟ دوسری بات یہ کہ آئمہؑ سے لوگ ہر قسم کا سوال کرتے رہے ہیں، ہزاروں روایات ہم تک پہنچی ہیں بلکہ لاکھوں کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ یقینا ان میں وہ سوالات بھی ہوں گے جو محرّم کے ایام میں بھی لوگوں نے پوچھے ہوں گے۔ آئمہؑ نے کہیں پر نہیں فرمایا کہ محرّم میں فقط حُسینؑ حُسینؑ ہوگا اور دیگر موضوعات پر گفتگو نہیں ہو سکتی۔

دراصل اس گفتگو کے پیچھے قیام امام حسینؑ کے فلسفے کی تفہیم ہے۔ بعض کے نزدیک امام کا کربلا سفر کا مقصد شہادت پیش کرنا اور اپنی اولاد اور ساتھیوں کی قربانی دینا تھا۔ امام کا مقصد کسی اِنقلاب کی بُنیاد نہیں تھا بلکہ فقط شہادت تھی کیونکہ ان سے اس کا عہد و پیمان لیا گیا تھا۔ ہر زمانے کے امام کو خُصوصی احکامات تھے جن پر اُس کو عمل کرنا تھا، امام حسینؑ نے ان احکامات پر عمل کیا۔ اس فلسفے کی رُو سے امام حسینؑ کا قیام انقلابی نہیں تھا، اس سے ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ امام حسینؑ کا عمل ہمارے لئے اُسوہ نہیں ہے۔ جب یہ کہا جائے کہ مجلس میں انقلاب کی بات نہ کریں تو ان افراد کے لاشعور میں یہی فلسفہ ہوتا ہے کہ بس یزید وہی ایک شخص تھا، اور حسینؑ بھی وہی تھا۔ تو بس اسی مرے ہوئے یزید پر لعنت کرنا چاہیے اور حسینؑ پر ہی فقط گریہ کرنا چاہیے۔ ان افراد کو "حُسینیت زندہ باد" اور "یزیدیت مردہ باد" کے نعروں کا مطلب سمجھ نہیں آتا، اور ان کو ان نعروں سے سیاست کی بو آتی ہے۔

دوسری طرف ایک بڑی تعداد ہے جو کربلا کو ایک تحریک کے طور پر دیکھتی ہے۔ جن کے نزدیک کربلا آپ کو ہر دور کی یزیدیت سے نفرت کرنا اور اس کے خلاف عملی قدم اٹھانا سکھاتا ہے۔ یزیدیت ظلم و استبداد کی علامت ہے اور ہر ظالم و جابر شخص یا سسٹم زمانے کا یزید ہے۔ اِس فِکر کی رُو سے عزاداری کا مقصد اس اہم اصول کو زندہ و جاوید رکھنا ہے۔ امام حُسینؑ کے خاص اہداف تھے جن کے حصول کے لئے انہوں نے یہ قربانیاں پیش کیں۔ عزاداری کا مقصد امام حسینؑ کے ان عظیم اہداف سے مطابقت رکھنا چاہیے ورنہ اس عزاداری کا فائدہ نہیں ہے۔

یہ دو قسم کے افکار ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حق دوسرے گروہ کے ساتھ ہے۔ پہلا گروہ عزاداری امام حسینؑ کو محدود کرنے کا مُرتکِب قرار پاتا ہے، ان کے نزدیک امام حُسینؑ کی تحریک تا قیامت نہیں ہے، بس اس کا ہدف فقط اس زمانے کا یزید تھا، نیز امام حسینؑ کا یہ عمل اُسوہ حسنہ نہیں ہے جس پر اگلے زمانے کے لوگ کاربند نہیں ہو سکتے ہیں۔ ہمیں بس گِریہ ہے کیونکہ ہمیں رونے کا حکم ہوا ہے۔

عزاداری کا ہدف سمجھنے کے لئے ہمیں قیامِ امام حُسینؑ کے عِلَل و اسباب کی طرف نظر دوڑانی چاہیے۔ جو امام حسینؑ کا ہدف و مقصد ہوگا وہی عزاداری کا ہدف و مقصد ہوگا اور وہی عزاداری کا موضوع ہونا چاہیے۔ آئیے امام حسینؑ کے قیام کے عِلل و اسباب پر ایک طائرانہ نظر دوڑاتے ہیں۔

الف) معروف روایت ہے کہ جب امام حسینؑ مدینہ سے نکل رہے تھے تو آپ نے فرمایا: "وإنما خرجت لطلب الإصلاح في أُمّة جدّي" یعنی میں اپنے جد رسول اللہ ﷺ کی اُمّت کی اصلاح کے لئے خروج کر رہا ہوں۔ (بحارالانوار ج44 ص 329، مقتل خوارزمی ج 1 ص 188)

واضح ہے کہ امام حسینؑ کے قیام کا مقصد اُمّت کی اصلاح ہے۔ اسی لئے مجلسِ حُسینی کا بھی مقصد معاشرے کی اصلاح ہونا چاہیے وگرنہ عزاداری مقصدِ حُسینی سے مُطابقت نہیں رکھے گی۔

ب) امام حسینؑ نے بصرہ کے سرکردہ افراد کو خط لکھا جن میں ان کو اپنی نصرت کی دعوت دی، اور اپنے قیام کی وجہ بتائی۔

وأنا أدعوكم إلى كتاب الله وسنة نبيه ﷺ، فان السنة قد أميتت، وإن البدعة قد أحييت

میں تم لوگوں کو اللہ کی کتاب اور سنت نبوی کی طرف دعوت دیتا ہوں کیونکہ سُنت کو ختم کیا جا رہا ہے اور بدعتوں کا احیاء کیا جا رہا ہے۔ (موسوعة كلمات الإمام الحسين، ص383)

گویا امام حسینؑ کا ہدف لوگوں کو کتاب اللہ اور سنّتِ رسُول کی طرف دعوت دینا تھا۔ نیز آپ سنّتوں کا احیاء اور بدعتوں کا خاتمہ چاہتے تھے جن میں سرِفہرست اسلامی امامت و خلافت کے تصوّر کو ملوکیت میں تبدیل کرنے کی بدعت تھی۔ پس عزاداری کے مقاصد میں یہ اہداف شامل ہونے چاہییں تاکہ امام حسینؑ کے اعلی اہداف و مقاصد زندہ رہیں۔ ان مجالس میں لوگوں کو اللہ کی کتاب کی طرف دعوت دی جائے اور رسول اکرم ﷺ اور معصومینؑ کی حیات مبارکہ کے مختلف پہلوُؤں پر بات کی جائے، نیز زمانے میں موجود بدعتوں کی بیخ کنی کی جائے۔

ج) جب امام حسینؑ کے نمائندے اور سفیر حضرت مسلم بن عقیل کو گرفتار کیا گیا تو آپ نے ابن زیاد سے فرمایا: آتیناهم لنامر بالعدل و ندعو الی حکم الکتاب

یعنی ہم آئے ہیں تاکہ ہم لوگوں کو عدالت کا حکم دیں اور اللہ کی کتاب کے احکامات کی طرف دعوت دیں۔ (الارشاد شیخ مفید، ص 196)

اس سے واضح ہوتا ہے کہ امام حسینؑ کی تحریک معاشرے میں عدالت کو قائم کرنے کے لئے تھی۔ اگر کسی معاشرے میں عدالت نہیں تو وہاں اس کو قیام کرنے کی کوشش انقلاب حسینی ہے اور امام حسینؑ کی تحریک کا ہدف ہے۔ نیز اللہ کے کلام میں موجود احکامات کی طرف لوگوں کو دعوت دی جائے تاکہ عزاداریِ امام حسینؑ کے مقصد و اہداف کو آگے پہنچانے اور تا قیامت زندہ رکھنے کا ذریعہ بنے۔

د) جب حُر بن یزید ریاحی کی امام حسینؑ سے بیضہ کے مقام پر ملاقات ہوئی تو آپ نے ایک خُطبہ ارشاد فرمایا جس میں سے اہم جُملے یہ ہیں۔

أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: «مَنْ رَأَى سُلْطَانًا جَائِرًا مُسْتَحِلًّا لِحُرَمِ اللَّهِ نَاكِثًا لِعَهْدِ اللَّهِ مُخَالِفًا لِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَعْمَلُ فِي عِبَادِ اللَّهِ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ فَلَمْ يُغَيِّرْ مَا عَلَيْهِ بِفِعْلٍ وَلَا قَوْلٍ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يُدْخِلَهُ مُدْخَلُهُ»۔ أَلَا وَإِنَّ هَؤُلَاءِ قَدْ لَزِمُوا طَاعَةَ الشَّيْطَانِ وَتَرَكُوا طَاعَةَ الرَّحْمَنِ وَأَظْهَرُوا الْفَسَادَ وَعَطَّلُوا الْحُدُودَ وَاسْتَأْثَرُوا بِالْفَيْءِ وَأَحَلُّوا حَرَامَ اللَّهِ وَحَرَّمُوا حَلَالَهُ، وَأَنَا أَحَقُّ مَنْ غَيَّرَ

"اے لوگوں! رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ اگر کوئی دیکھے کہ ظالم حُکمران حُقوقِ الہی اور احکامِ دین میں تجاوُز کر رہا ہے، اللہ تعالی سے کئے گئے پیمان کو توڑ رہا ہے اور سنّتِ رسول سے رُوگردانی کر رہا ہے، اللہ کے بندوں سے ظُلم و ستم کے ساتھ برتاؤ کر رہا ہے لیکن وہ شخص ایسے ظالم حکمران کو گُفتار و کردار کے ذریعے روکنے کے لئے اقدام نہیں کر رہا تو جان لو کہ ایسے شخص کو اللہ وہاں لے جائے گا جہاں ظالم کو لے جائے گا (یعنی اس کے ساتھ مجشور کرے گا)۔ آگاہ ہو جاؤ کہ حُکمران طبقہ شیطان کی پیروی کو اپنا شعار بنا چکا ہے، اطاعتِ خداوندی کو ترک کر چکا ہے، فساد ظاہر کر چکا ہے بلکہ اس کو رواج دے چکا ہے، حُدود و مُقرّراتِ الہی کو مُعطّل کر چکا ہے، بیتُ المال کو اپنی ذاتی جاگیر بنا چکا ہے، اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام قرار دے رہا ہے، چنانچہ حالات کو ٹھیک کرنے کے لئے میں باقی سب لوگوں سے زیادہ شائستگی رکھتا ہوں (یعنی میری ذمہ داری بنتی ہے)"۔ (الکامل فی التاریخ ابن اثیر ج 3 ص159، بحارالانوار ج44 ص382)

گویا زمانے کا یزید وہ ہے جو لوگوں پر ظلم و ستم کر رہا ہے، عدالت کو چھوڑ چکا ہے، اللہ کے مقرر کردہ حدود کو توڑ رہا ہے، عدالت پر مبنی سنّتِ نبوی کو مردہ کر رہا ہے اور ظلم پر مبنی بدعات کو رواج دے رہا ہے تو اس کے خلاف لب کشائی سیرت حسینی ہے۔ جب بھی مالی معاملات میں اور دیگر امور میں بے راہ روی دیکھیں تو ان پر لب کشائی کرنا مقصد حسینی ہے۔ عزاداری میں امام حسینؑ کے اعلی اہداف کا ذکر ہونا چاہیے اور لوگوں کو سیرتِ حُسینی پر کاربند ہونے کی تلقین کرنی چاہیے۔

اسی خطبے میں آگے چل کر فرماتے ہیں"فَلَكُمْ فِيَّ أُسْوَةٌ" یعنی میری ذات میں تم لوگوں کے لئے اُسوہ ہے۔ یعنی جب مندرجہ بالا نقائص معاشرے میں واضح ہو جائیں تو میری اس روش پر تم عمل کرو، اور زبان و کردار و عمل سے اس کی شدید مخالفت کرو۔ اگر ایسا نہیں کرتے تو یہ عزاداری امام حسینؑ کی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھے گی۔

قارئین کرام! آپ دیکھ سکتے ہیں کہ امام حسینؑ کی اس تحریک کا مقصد کیا تھا۔ عزاداری ان مقاصد و اہداف سے مطابقت رکھے تو تبھی ان قربانیوں کے ذکر کا حق ادا ہوگا۔ البتہ واضح کرتا چلوں کہ میری گفتگو کا ہرگز مقصد نہیں ہے کہ ذکرِ حسینیؑ نہ ہو، ذکرِ حُسینیؑ نہ ہو تو یہ اہداف کیسے پورے ہوں گے؟ لیکن ہمارا مُدّعا یہ ہے کہ ذکرِ حُسینیؑ کے ساتھ ساتھ مندرجہ بالا اہداف و مقاصد حسینیؑ کا بھی خیال رکھا جائے۔ کربلا ایک درس گاہ کی صورت ہو جہاں ہر حُسینیؑ انقلابی ہو اور اس کے اندر روحِ حسینیؑ بیدار رہے اور یزیدیت سے بیزار رہے۔

ہے ہماری درس گاہ کربلا کربلا
حق کا سیدھا راستہ کربلا کربلا

Check Also

Tareekhi Merger

By Khateeb Ahmad