Tik Tok Ke Hamam Mein Sabhi
ٹک ٹاک کے حمام میں سبھی
موجودہ صدی میں سائنس کی ترقی نے فتوحات کے ایسے جھنڈے گاڑھے ہیں کہ کیا کہنے، سائینسی ترقی نے ایسی ایسی باکمال ایجادات کی ہیں کہ انسان کی زندگی کا ہر آنے والا پل پہلے سے مزید سہل اور بہتر ہوتا چلا جارہا ہے۔ زندگی کا شاید ہی کوئی شعبہ ہوگا، جہاں جدید ٹیکنالوجی نے اپنے اثرات مرتب نہ کیے ہوں۔ آج ہزاروں میل کا سفر گھنٹوں میں طے ہو رہا ہے، زرائع آمد و رفت نہ صرف برق رفتار ہوئے ہیں بلکہ ان کا میعار بھی پہلے سے کئی گنا بہتر ہے۔
اگر بات ابلاغ عامہ کے بارے میں کی جائے تو، دنیا اب ففتھ جنریشن ٹیکنالوجی پر منتقل ہو چکی ہے، جس کی بدولت، پیام رسانی، بھاری مقدار میں ڈیٹا ٹرانسفر پلک جھپکنے میں ممکن ہو چکا ہے، رسمی میڈیا نے پوری دنیا میں لوگوں آگاہی اور شعور بیدار کرنے کے لیے اپنا کلیدی کردار اداء کیا، مگر اس کے ساتھ ساتھ آج کے اس جدید دور میں، سوشل میڈیا نے بھی اپنی اہمیت کا لوہا منوا لیا ہے۔ آج ایک ہیش ٹیگ پوری کی پوری تحریک کی شکل اختیار کر لیتا ہے، اب عوامی مسائل سے آنکھ چرانا اور ان سے پہلو تہی کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے، ایکس (سابقہ ٹوئٹر)، واٹس ایپ، فیسبک، ٹیلیگرام، انسٹا گرام، سنیپ چیٹ اور ٹک ٹاک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے لوگوں کا انداز زندگی ہی بدل دیا ہے۔
اکثر سنا ہوگا کہ ترقی کی قیمت اداء کرنی پڑتی ہے، اب اس ترقی قیمت کیا ہو سکتی ہے، یہ ایک الگ بحث ہے، وقت کے بدلتے تقاضوں کے پیشِ نظر، اس دور میں سوشل میڈیا نے جس قدر عروج پایا ہے، اس کی نذیر تاریخ میں نہیں ملتی، مگر بدقسمتی سے ہماری قوم کا ایک المیہ رہا ہے کہ ہم ہر اچھی سہولت کا صرف منفی استعمال کرنا جانتے ہیں۔ دنیا میں واٹس ایپ، ٹیلیگرام، انسٹاگرام، اور ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز کو اپنے کاروبار کی تشہیر اور وسعت دینے، نئے نئے علوم سیکھنے اور جدید تجارت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جب کہ یہی پلیٹ فارمز پاکستان میں منفی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ٹک ٹاک ایک اہم سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے، مگر پاکستان میں ٹک ٹاک کا استعمال ایسے ہی ہو رہا ہے کہ جیسے اگر بندر کے ہاتھ میں بندوق تھما دی جائے تو وہ اس سے اپنا اور دوسروں دونوں کے نقصان کا باعث بنے گا۔
ایسا نہیں کہ پاکستان کے سبھی ٹک ٹاکرز، منفی مواد بنا رہے ہیں، لیکن اکثریت میں اسے ایسے لوگ استعمال کر رہے ہیں کہ جو نہایت اوچھے، گھٹیا اور غیر میعاری کانٹنٹ بنا کر کر بد ترین معاشرتی بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں اور رہی سہی کسر ٹک ٹاک پر نئے فیچر ٹک ٹاک لائیو نے پوری کر دی ہے۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز کی بیسیوں رپورٹس، اس امر کی شاہد ہیں کہ ٹک ٹاک پر ویڈیوز بنانے اور اور وائرل ہونے کے جنون کو سر پر سوار کیے بہت سے لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
ٹک ٹاک کے بے جا استعمال اور جنون نے ہمارے خاندانی نظام کو بے حد متاثر کیا ہے، یاد رہے کہ یہ وہی ٹک ٹاک ہے کہ جس کی وجہ سے بارہا ملکی وقار کو شدید ٹھیس پہنچی ہے۔ آج سے چند سال قبل مینار پاکستان میں عائشہ ٹک ٹاکرکے ساتھ جو ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ حال ہی میں چند ٹک ٹاکرز اپنی نہایت فحش اور نازیبا ویڈیوز کی وجہ سے خبروں کا محور بنی ہوئی ہیں۔ یہ سلسلہ نہایت تشویشناک ہے، پاکستان میں ٹک ٹاک پر اعلیٰ عدالتیں، اس غیر محفوظ اور ناقابل اعتبار سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک پر جز وقتی عدالتی پابندی عائد کر چکی ہیں۔
آج کل ٹک ٹاکرز کی نازیبا ویڈیوز لیک ہونے کا معاملہ کافی عام ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کیا یہ ویڈیوز واقعی غلطی سے لیک ہوتی ہیں یا جان بوجھ کر ایسا کیا جاتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ مشہور ہونے کے لیے لوگ اکثر اپنے آخری حربے کے طور پر نازیبا مواد کا سہارا لیتے ہیں۔
دنیا بھر میں، اور اب پاکستان میں بھی، یہ ایک معمول بنتا جا رہا ہے کہ جب کسی ٹک ٹاکر یا انفلوئنسر کے ویوز اور فالوورز کم ہونے لگتے ہیں تو وہ کوئی ایسی ویڈیو لیک کر دیتے ہیں جو لوگوں کی توجہ حاصل کرے۔ جیسے ہی یہ ویڈیو لیک ہوتی ہے، لوگ فوری طور پر اس شخص کو سرچ کرنا شروع کر دیتے ہیں، اس کی ٹک ٹاک، فیس بک اور انسٹاگرام پروفائلز دیکھتے ہیں، اور کچھ تو اسے فالو بھی کر لیتے ہیں۔ نتیجہ؟ وہ انفلوئنسر پھر سے ٹرینڈ میں آ جاتا ہے، نیوز میں اس کا ذکر ہوتا ہے اور اس کے فالوورز کی تعداد دوبارہ بڑھنے لگتی ہے۔ پاکستان میں بھی اب یہ رجحان تیزی سے پھیل رہا ہے۔ کچھ ٹک ٹاکرز جان بوجھ کر اپنی نازیبا ویڈیوز لیک کروا کر دوبارہ شہرت حاصل کرتے ہیں اور اس کا فائدہ اٹھا کر پیسے کمانے لگتے ہیں۔ یہ طریقہ کار وقتی طور پر ان کی سستی شہرت میں اضافہ تو کر دیتا ہے اور انہیں بڑی تعداد میں فالوورز اور پیسہ فراہم کرتا ہے۔
اس سوشل میڈیا کلچر میں رات و رات شہرت کے حصول کا حوس جنون کی صورت اختیار کر چکا ہے اور اسی جنون میں مبتلا ہو کر اخلاقیات کو نظر انداز کرنا ایک خطرناک رجحان بنتا جا رہا ہے۔ ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم کس چیز کو فروغ دے رہے ہیں اور کس حد تک جانے کو تیار ہیں، یہ معاملہ نہایت حساس اور فوری طور پر توجہ طلب ہے۔
پاکستانی ٹک ٹاکرز کی اکثریت کا تجزیہ کرنے پر آشکار ہوتا ہے کہ، جیسے ٹک ٹاک حمام میں سبھی برہنہ ہیں، سکیورٹی ایجنسیز، سائبر کرائم کنٹرول، ایف آئی اے اور دیگر اہم اداروں کو اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے، کوئی جامع حکمت عملی مرتب کرکے، اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے استعمال پر یا تو مستقل پابندی عائد کرنا ہوگی، یا پھر ایسے اقدامات کیے جائیں کے ہم اپنی اگلی آنے والی نسلوں کو، بے راہروی سے محفوظ رکھ سکیں۔
ہم ایک اسلامی ریاست ہیں اور آئین میں اسلام کو ملک کا ریاستی مذہب قرار دیا گیا ہے۔ ہم ایسے کی امر کو ناقابل قبول سمجھتے ہیں جو کہ ہمارے دین کی بنیادی تعلیمات سے متصادم ہو، ریاست پاکستان کو آئین پاکستان کے احترام اور اسلامی اقدار کی مکمل پاسداری کرنے کے لیے، ایسے تمام اقدامات کی بیج کنی کرنا ہوگی کہ جو آئین اور اسلام کے منافی ہوں۔
حکومت کو چاہیے کہ پاکستان میں ٹک ٹاک پر مستقل پابندی عائد کی جائے اور ملک کا وقار پامال کرنے والے ٹک ٹاکرز کو قانون کے کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سزاء دی جائے تاکہ آئندہ کسی بھی مفاد پرست کو ملکی وقار اور تشخص کو پامال کرنے کی جرات نہ ہو سکے، پاکستان پائندہ باد۔
ہم تو مٹ جائیں گے اے ارضِ وطن لیکن تم کو
زندہ رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک