Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Imran Ali Shah
  4. Sirf Cricket He Kyun

Sirf Cricket He Kyun

صرف کرکٹ ہی کیوں

ایک صحت مند جسم ہی ایک صحت مند دماغ کا ضامن ہوا کرتا ہے، آج کل کے اس مصروف اور برق رفتار دور اپنے آپ کو تندرست اور توانا رکھنے کے لیے جسمانی ورزش اور کھیل کود ناگریز ہو چکا ہے، جہاں ایک طرف جسمانی کثرت انسان کو جسمانی طور پر مضبوط کرنے میں ایک مؤثر کردار اداء کرتی ہے تو دوسری جانب یہ انسانی دماغ کو بھی بے حد تقویت پہنچانے کا سبب بنتا ہے، اس کی سوچ کو جلا بخشتا ہے۔

اس دور جدید میں کھیل ایک منافع بخش انڈسٹری کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، دنیا میں سینکڑوں کھیل کھیلے جاتے ہیں، جن کی اپنی اہمیت ہے، ان میں فٹبال، ہاکی، بیڈمنٹن، والی بال، باسکٹ بال، لان ٹینس، سکوائش، کشتی، کبڈی، نیزہ بازی، پولو اور کرکٹ مقبول ترین ہیں، آج بھی دنیا میں مشہور کھیل سوکرہے جو کہ فٹ بال کہلاتا ہے، فٹبال یعنی سوکر دنیا کے تقریباً ہر حصے میں کھیلا جاتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق 4 بلین سے زیادہ لوگ فٹ بال کے پرستارہیں، اس کھیل کے کرہ ارض پر سب سے زیادہ پرستار ہیں اور یہ دنیا میں سب سے زیادہ کھیلا جانے والا کھیل ہے۔ سوکر کی ابتدا 3000 سال پہلے مختلف قدیم تہذیبوں میں ہوئی اور 19ویں صدی میں انگلینڈ میں اس کا جدید شکل میں ارتقاء ہوا۔ فٹ بال فیڈریشن انٹرنیشنل دی فٹ بال ایسوی ایشن یعنی کہ فیفا کے زیر انتظام ہے، جو ہر چار سال بعد ورلڈ کپ کا انعقاد کرتا ہے، جو کہ دنیا کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا کھیل کا ایونٹ ہے۔

فٹ بال بہت سی وجوہات کی بناء پر مقبول ہے، جیسے کہ اس کی سادگی، رسائی، آفاقیت، اور جوش و خروش۔ ساکر ایک سادہ کھیل ہے جس کو کھیلنے کے لیے صرف گیند اور میدان کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے کسی کے لیے سیکھنا اور لطف اندوز ہونا آسان ہو جاتا ہے۔ فٹ بال ہر عمر، جنس، ثقافت اور پس منظر کے لوگوں کے لیے بھی قابل رسائی ہے، کیونکہ اس کے لیے مہنگے آلات یا سہولیات کی ضرورت نہیں ہے۔

فٹ بال ایک عالمگیر کھیل ہے جو قومی، لسانی اور مذہبی حدود سے ماورا ہے، کیونکہ اسے مختلف ممالک اور خطوں کے لوگ کھیلتے ہیں اور اس کی تعریف کر تے ہیں۔ فٹ بال ایک دلچسپ کھیل ہے جس میں مہارت، حکمت عملی، ٹیم ورک اور غیر متوقع صلاحیت شامل ہوتی ہے۔ مقبولیت کے لحاظ سے کرکٹ کا عالمی سطح پر دوسرا ہے مگر یہ فٹبال کی نسبت قدرے مہنگا اور سست رو کھیل ہے اور مقبولیت کے لحاظ باسکٹ بال تیسرے نمبر پر آتا ہے۔

کھیلوں کی دنیا میں ہاکی کو بھی ایک زبردست پزیرائی حاصل ہے، جبکہ پاکستان کا تو قومی کھیل ہی ہاکی ہے جس میں پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ، ہاکی کا پہلا ورلڈ کپ بھی پاکستان نے جیتا تھا۔

پاکستان کی ہاکی ٹیم کو تین اولمپک گولڈ میڈل، چار عالمی کپ، تین چمپئنز ٹرافی جیتنے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ وہ دور تھا کہ پاکستان کی ٹیم اگر کوئی ٹورنامنٹ نہیں بھی جیتتی تھی تب بھی وکٹری سٹینڈ پر اس کی موجودگی طے سمجھی جاتی تھی۔ لیکن اب یہ دور ہے کہ وکٹری سٹینڈ پر پہنچنا ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ پاکستان نے آخری مرتبہ عالمی کپ 1994 میں جیتا اور اس کے بعد پاکستانی ٹیم کی کارکردگی بری ہی ہوتی گئی ہے۔ اس سال ہونے والے اولمپک گیمز میں بڑے وعدوں اور دعوؤں کے ساتھ شرکت کرنے والی پاکستان کی ٹیم نے خراب کارکردگی کے تمام پرانے ریکارڈ توڑ دیے اور بارہ ٹیموں میں آٹھویں نمبر پر آئی۔

پاکستان کے ہاکی ماہرین نے جن ایشیائی ملکوں کی ٹیموں کو ہاکی کھیلنا سکھایا وہی ایشین ٹیمیں آج پاکستان پر بھاری ہیں اور پاکستان دنیا میں آٹھویں اور ایشیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں قومی کھیل کے زوال کے بہت سے اسباب میں سے، کرکٹ پر بے جا توجہ اور گلیمر بھی ہے، پچھلے چند عشروں میں تو کرکٹ کے کھیل کو عوام کے اعصاب پر ایک جنون بنا کر طاری کردیا گیا ہے، پاکستان کی قومی (مینز)کرکٹ نے بہت سارے اعزازات اپنے نام کیے جس میں ایک روزہ کرکٹ ورلڈکپ 1992 قابل ذکر ہے، اس کے علاوہ ٹی 20 اور ٹسٹ کرکٹ میں بھی بہت سے اہم ٹائٹل اپنے نام کیے، مگر یہاں یہ بات نہایت تشویشناک ہے کہ، کرکٹ کو محض ایک کھیل کی حیثیت سے لیا جانا چاہیے تھا، مگر عوام نے تو اسے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا ہے، جب ٹیم جیت رہی ہوتی ہے تو انکی بہت تہنیت کی جاتی ہے، لیکن دوسری طرف اگر کرکٹ ٹیم کو شکست کا سامنا ہو تو، شائقین کی جانب سے سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر نہایت منفی اور جارحانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے یہاں تک کہ لوگ کھلاڑیوں کے ساٹھ ذاتیات پر اتر آتے ہیں جو کہ کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہے، یہ بات بھی درست ہے کہ جب کرکٹ ٹیم اپنے شائقین کی امیدوں پر پورا نہیں اترتی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتی ہے تو شائقین کی بھی شدید دل آزاری ہوتی ہے، مگر بدزبانی اور غیر مناسب رویے کے استعمال کی کوئی گنجائش نہیں ہے، یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ، کیا ملک میں صرف ایک ہی کھیل باقی رہ گیا ہے، بدقسمتی سے کرکٹ کے حکومت کی جانب سے حد سے زیادہ توجہ نے دیگر تمام کھیلوں کو زبردست متاثر کیا ہے۔

ہمارے قومی کھیل ہاکی کی زبوں حالی کی اہم ترین وجہ بھی کرکٹ کو ہی گردانا جاتا ہے، پاکستان کے اگر دیگر کھیلوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ، کرکٹ کے علاوہ بہت سے ایسے کھیل ہیں کہ جن پر اگر تھوڑی سی توجہ کی جائے تو، ان کھیلوں کی بدولت پوری دنیا میں ملک کا نام روشن کیا جاسکتا ہے، ایک دور ایسا تھا کہ سکواش کے کھیل میں پاکستانی کھلاڑیوں کی نے طویل عرصے تک زبردست حکمرانی کی، مگر کرکٹ کا کھیل تو جیسے سبھی کھیلوں کو نگل گیا ہے، جب کرکٹ کے ایونٹس ہو رہے ہوتے ہیں تو دیگر کھیلوں کو ٹھیک سے کوریج تک نہیں ملتی، ابھی حال ہی میں پاکستان کی سکواش کھلاڑی نے گولڈ میڈل حاصل کیا، پاکستانی کھلاڑی ماہ نور علی نے ملک کا نام دنیا بھر میں روشن کیا، پاکستان کی اسکواش کھلاڑی ماہ نور علی نے چینی کھلاڑی سے مقابلے کے بعد سنگاپور جونیئر اسکوائش اوپن چیمپیئن شپ اپنے نام کی، اتنے بڑے اعزاز کے باوجود یہ خبر اتنی پزیرائی ہی نہ حاصل کر پائی، اب سوال یہ بنتا ہے کہ، حکومت کی جانب سے صرف اور صرف کرکٹ پر ہی اتنی مہربانی کیوں ہے، کیا کرکٹ کے کھیل پر اتنی بے جا توجہ کسی خاص حکمت عملی کا حصہ ہے، یا اس میں کوئی اور اہم راز مضمر ہے، اگر ملک میں صرف کرکٹ کا کھیل جاری رکھنا ہے تو دیگر تمام کھیلوں پر پابندی عائد کردی جائے، کیونکہ یہ کرکٹ کا کھیل دیگر کھیلوں کے لیے ناسور بنتا کیا رہا ہے، اگر ہم نے اس ملک کے نوجوانوں کو بہتر مستقبل سے ہمکنار کرنا ہے تو پھر، کرکٹ کے ساتھ ساتھ دیگر تمام اہم کھیلوں کی فلاح کے لیے زبردست حکومتی سرپرستی درکار ہے، فٹبال، ہاکی، سکواش، باسکٹ بال، لان ٹینس اور کبڈی جیسے اہم کھیلوں کے میدانوں کو بھی مکمل معاونت فراہم کی جانی چاہیے، حکومت کو چاہیے کہ وفاق، صوبے، ڈویژن، ضلع اور تحصیل کی سطح پر کرکٹ کے ساتھ ساتھ تمام کھیلوں کو پروان چڑھانے کے لیے ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام شروع کرے، پاکستان سپر(کرکٹ)لیگ کی طرز پر پاکستان ہاکی سپر لیگ، پاکستان فٹبال سپر لیگ، اور پاکستان کبڈی و کشتی سپر لیگ جیسے مقابلوں کا قومی سطح پر انعقاد کیا جائے تاکہ، عوام الناس میں یہ کھیل بھی مقبول ہوں، دنیا ہمارے ملک کے ٹیلنٹ سے روشناس ہو، اب وقت آچکا ہے کہ، تمام کھیلوں اور ان سے وابستہ ٹیلنٹڈ کھلاڑیوں کی بھرپور پزیرائی کی جائے تاکہ پاکستان کے مستقل کو پر امن اور تابناک بنایا جا سکے۔

About Syed Imran Ali Shah

Syed Imran Ali Shah, a highly accomplished journalist, columnist, and article writer with over a decade of experience in the dynamic realm of journalism. Known for his insightful and thought-provoking pieces, he has become a respected voice in the field, covering a wide spectrum of topics ranging from social and political issues to human rights, climate change, environmental concerns, and economic trends.

Check Also

Hikmat e Amli Ko Tabdeel Kijye

By Rao Manzar Hayat