Nayi Hukumat e Punjab Aur Tawaquat
نئی حکومت پنجاب اور توقعات
ملک پاکستان میں ایک طویل مدت سے سیاسی شورش جاری و ساری ہے، ہر بار عام انتخابات کے بعد شکست خوردہ سیاسی جماعتوں کا انتخابات کے نتائج پر ہمیشہ سے ہی تحفظات رہے ہیں، اسے سیاسی فہم و فراست اور حکمت عملی کا فقدان کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومتوں کے اقتدار میں رہنا ایک بہت بڑا چیلنج بنتا رہا ہے، دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اس قسم کے مسائل وقوع پذیر ہوتے ہیں مگر پاکستان میں، سیاسی اختلافات کو اس قدر ہوا ملتی ہے کہ عوامی مسائل بجائے کم ہونے یا حل ہونے کے مزید بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔
بدقسمتی سے پچھلے چند عشروں میں، سیاسی اختلافات نے پوری قوم کے مزاج پر بہت منفی اثرات مرتب کیے ہیں، جس سے خطرناک حد تک عدم برداشت کے منفی رویوں نے فروغ پایا ہے، جو کہ کسی طور بھی ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ جمہوری عمل کے تسلسُل کو قائم رکھنے کے لیے، انتخابات کا ہونا بہت ناگزیر ہوا کرتا ہے، کیونکہ جمہوریت ہی ایک ایسا مضبوط سیاسی نظام ہے کہ جس میں عوامی رائے کو مقدم رکھا جاتا ہے۔ 2024 کے عام انتخابات سے قبل عوام الناس میں بہت تذبذب اور ابہام پایا جاتا تھا کہ نہ جانے ملک کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا، اس علاوہ سوشل میڈیا پر موجود فیک نیوز فیکٹریوں نے بھی ملک بھر میں جھوٹی اور بے بنیاد افواہوں کا بازار گرم کر رکھا تھا کہ، شاید ملک میں سیاسی نظام آگے ہی بڑھ پائے یا خدانخواستہ انتخاب سرے سے منعقد ہی نہ ہوں۔
مگر 8 فروری 2024 کو ملکی تاریخ کے بارہویں عام انتخابات کا انعقاد کیا گیا اور تمام بے بنیاد پراپیگنڈا اور قیاس آرائیوں نے دم توڑ دیا، نگران حکومت نے انتخابات کو پرامن بنانے کے لیے پاک فوج اور دیگر سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا، تاکہ کسی بھی قسم کے ناخوشگوار واقعے سے محفوظ رہا جا سکے، اس بناء پر انتخابات میں پورے ملک میں فوج، پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں نے پوری ذمہ داری سے اپنے فرائض منصبی انجام دیے اور کہیں سے بھی کسی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع موصول نہ ہوئی۔
ان انتخابات کے نتیجے میں مرکز میں پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز اور ایم کیو ایم پاکستان نے کی اتحادی حکومت قائم ہوئی، جس میں شہباز شریف بطور وزیر اعظم منتخب ہوئے اور آصف زرداری کو دوسری بار بطور صدر پاکستان منتخب کیا گیا۔ خیبر پختون خواہ میں سنی اتحاد کونسل (پاکستان تحریک انصاف) نے حکومت بنائی، صوبہ سندھ میں حسب سابق پی پی پی نے واضح اکثریت کی بنیاد پر حکومت بنائی، صوبہ بلوچستان میں پی پی پی اور مسلم لیگ نواز نے اکثریتی نشستیں حاصل کیں اور حکومت سازی کی، جب کہ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نواز نے میدان مارا جبکہ دوسرے نمبر پر سنی اتحاد کونسل (پاکستان تحریک انصاف) نے ووٹ حاصل کیے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار مریم نواز شریف بطور وزیر اعلیٰ منتخب ہوئیں، یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ مریم نواز نے اپنے والد کی عدم موجودگی میں چچا شہباز شریف کے ساتھ اپنی جماعت کے معاملات کو آگے بڑھایا مقدمات کا سامنا کیا اور جیل بھی کاٹی، مگر ایک طویل سیاسی جدوجہد کے بعد انھوں نے 2024 کے انتخابات میں حصہ لیا، جس میں کامیاب ہو کر وزارت اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئیں، ان کی حکومت کو شاید بہت سے مسائل درپیش ہوں۔ اس نئی حکومت کے لیے ایک طرف جہاں بیسیوں مسائل سر اٹھائے راستہ دیکھ رہے ہیں وہاں عوام کی ان سے بہت سی توقعات بھی وابستہ ہیں کہ جن پر پورا اترنے کے لیے ان کو روایتی طرز سیاست و حکومت ترک کرکے، مزید محنت اور نہایت پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کرنا پڑے گا جو کہ ان پاس موجود ہے، تاکہ عوام کے مسائل کا حل کرکے ان کے دلوں میں گھر کر سکیں۔
جنوبی پنجاب کی محرومیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں جہاں آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی بنیادی ضروریات زندگی کی سہولیات کا بدترین فقدان ہے، صحت و تعلیم جیسے اہم شعبہ جات کی حالت ناگفتہ بہ ہے، پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، یہاں بہت سے علاقوں رہائش پذیر لوگ آج بھی بارش کا جمع شدہ پانی پی کر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
ایک طرف دنیا چاند پر جا پہنچی ہے تو دوسری طرف جنوبی پنجاب کے نواحی علاقوں میں آج بھی مریضوں کو ہسپتال لے جانے کے لیے، گدھا گاڑی اور چنگچی رکشہ کا استعمال کیا جاتا ہے، جنوبی پنجاب سے گزرنے والی اہم ترین شاہرات آج بھی آثار قدیمہ کی یاد دلاتی ہیں۔ پنجاب، کے پی کے، سندھ اور بلوچستان کو آپس میں ملانے والی انڈس ہائی بدترین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس پر آئے روز حادثات کی وجہ سے سینکڑوں قیمتی جانوں نقصان ہوتا ہے۔
جنوبی پنجاب کی شہرہ آفاق بدنام زمانہ شاہراہ ملتان میانوالی روڈ المعروف قاتل روڈ حادثات کا گڑھ بن چکی ہے، اس کی مرمت کا کام نہایت سست رفتاری سے چل رہا ہے، مظفر گڑھ، ملتان روڈ بھی جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے اور اس پر بھی آئے روز ٹریفک حادثات تواتر سے ہوتے رہتے ہیں۔ ضلع بھکر کو پورے پنجاب اور ڈیرہ اسماعیل خان سے ملانے والی شاہراہ جو قدیم بھکر شہر کے اندر گزرتی ہے وہ کروڑ لعی عیسن تک مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے جو اس علاقے میں وقوع پذیر ہونے والے ٹریفک حادثات کا سب سے بڑا سبب ہے۔
لیہ، تونسہ پل کی تکمیل نہ ہوسکی، یہ علاقہ مکینوں کے لیے وبال جان بنا ہوا اور اسے ایک ایک طویل عرصہ بیت چکا ہے، جہاں ایک طرف جنوبی پنجاب کی شاہرات تباہ حال ہیں تو دوسری جانب یہاں کے مکینوں کے لیے سفری سہولیات کا بھی شدید فقدان ہے اور جو نجی ٹرانسپورٹ سروس یہاں چلتی ہے، اس میں سواریوں کے ساتھ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک برتا جاتا ہے۔ جنوبی پنجاب میں سب سے زیادہ چلنے والی ٹرانسپورٹ ہائی ایس وین جس میں اس وقت بھی ایک سیٹ پر چار چار بندے ٹھونس ٹھونس کر بٹھائے جاتے ہیں اور اسی ناقص ٹرانسپورٹ سے لاکھوں ملازمت پیشہ خواتین بھی سفر کرنے پر مجبور ہیں۔
جنوبی پنجاب میں دل کے امراض کا سب سے بڑا ہسپتال ملتان انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر مریضوں کی کثیر تعداد کا زبردست بوجھ ہے، جنوبی پنجاب میں نشتر ہسپتال ملتان اور بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال کے ناموں کے بعد لسٹ ہی ختم ہو جاتی ہے۔ جنوبی پنجاب میں جامعات کی صورت حال بھی کچھ خاص نہیں ہے، غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے علاوہ دیگر تمام جامعات کے حالات نہایت ابتر ہیں، ضلع مظفر گڑھ جیسے بڑے ضلع میں یونیورسٹی سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
یونیورسٹی آف لیہ میں آج تک مستقل وائس چانسلر تعینات نہیں کیا جا سکا جس کی وجہ سے اس جامعہ بھی ڈھیروں مسائل سر اٹھائے کھڑے ہیں، کیونکہ عارضی طور پر آنے والا وائس چانسلر اپنے فرائض منصبی اتنی خوش اسلوبی سے سرانجام ہی نہیں دے سکتا۔
جنوبی پنجاب کے بہت سے اضلاع میں، بہت ساری انتظامی افسران کی تعیناتی ہی نہیں کی جاسکی، ایک ایک افسر کے پاس دو یا دو سے زیادہ ڈیپارٹمنٹ کے چارجز ہیں، اعلیٰ افسران کے آئے روز تبادلوں سے بھی ڈھیروں مسائل جنم لیتے ہیں، جب ایک ضلع کا ڈپٹی کمشنر ایک سال میں دو دو بار ٹرانسفر کیا جائے یا اسے ٹکنے ہی نہ دیا جائے اور اس کے کام میں بار بار خلل پیدا کیا جائے گا، تو ایسے میں مسائل میں مزید اضافہ ہی ہونا ہے۔
پچھلے دور حکومت میں تونسہ اور کوٹ ادو کو ضلع کا درجہ دیا گیا مگر وہ ابھی تک ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے ساتھ ملحق ہے، جس سے انتظامی معاملات مزید بگاڑ کا شکار ہو رہے ہیں، اسی لیے کوٹ ادو اور تونسہ کو ضلع لیہ کے ساتھ ملا کر لیہ کو ڈویژن بنانا از حد ضروری ہو چکا ہے، لیہ ڈویژن کے وجود میں آنے سے اس علاقے میں ترقی کے نئے باب کا آغاز ہوگا۔ جنوبی پنجاب کے علاقے میں تقریباً ہر سال سیلاب آنے سے اربوں روپے کا نقصان ہو جاتا ہے، جب کہ یہاں بین الاقوامی ڈونرز اور اداروں کو کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی، جس کی وجہ سے سیلاب متاثرین کی بحالی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
جنوبی پنجاب میں ٹیکس فری زون نہ ہونے کی وجہ سے یہاں پر انڈسٹری کا فقدان ہے، یہ وہ تمام اہم ترین مسائل ہیں کہہ جن کا حل کرکے علاقے کی محرومیوں کا ازالہ کیا جا سکتا ہے، جنوبی پنجاب کی عوام کو نو منتخب حکومت سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں کہ یہ حکومت جنوبی پنجاب پر خصوصی توجہ اور شفقت کرے، نئی حکومت جنوبی پنجاب کے تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے بہترین اور جامع حکمت عملی اختیار کرے، اور جنگی بنیادوں پر ان مسائل تدارک کرے۔
جنوبی پنجاب میں انڈسٹریز کے فروغ کے لیے ٹیکس فری انڈسٹریل زون بنا کر یہاں پر تعلیم یافتہ افراد کے لیے باعزت روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں، پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے، بین الاقوامی اداروں، ڈونرز اور این جی اوز کو بروئے کار لا کر ان مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے گا۔ ضلع تونسہ اور ضلع کوٹ ادو کو ضلع لیہ کے ساتھ ملا کر لیہ ڈویژن بنایا جائے، ضلع مظفر گڑھ میں فوری طور پر یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے، یونیورسٹی آف لیہ میں مستقل طور پر وائس چانسلر تعینات کیا جائے، تاکہ یہ مادر علمی اپنے پیروں پر کھڑی ہو کر علاقے کی نوجوان نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کر سکے۔
نئی حکومت کو چاہیے کہ وہ جنوبی پنجاب میں بین الاقوامی ترقیاتی اداروں اور این جی او کو تمام قواعد و ضوابط پر عملدرآمد کے بعد سکیورٹی کلئیرنس کرکے پراجیکٹس لانے کی اجازت دے تاکہ وہ حکومت کے ساتھ مل کر عمومی حل طلب مسائل کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں۔ جنوبی پنجاب کی تمام اہم شاہراہوں کو برق رفتاری سے نہ صرف مکمل کیا جائے بلکہ جہاں ممکن ہو وہاں ون دے تعمیر کی جائے۔ لیہ تونسہ پل کی جلد از جلد تکمیل کو یقینی بنایا جائے تاکہ اس علاقے میں معاشی طور پر مضبوطی آئے اور اس کے ثمرات عوام تک پہنچ پائیں۔
جنوبی پنجاب میں سیاحت کے فروغ کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جانے چاہیے ہیں تاکہ حکومتی ذرائع آمدنی میں اضافہ ہو، اور حکومت عوام فلاح کے نئے منصوبوں کا آغاز کر سکے، یہ تمام تر مسائل حل کیے جا سکتے ہیں، جنوبی پنجاب کے ٹرانسپورٹ کے نظام کو مؤثر بنایا جانا چاہیے، نجی طور پر چلنے والی گاڑیوں کی زبردست نگرانی اور سخت چیکنگ کا نظام متعارف کیا جانا چاہیے۔ گیس سلنڈر پر چلنے والی گاڑیوں کو مکمّل طور پر بند کیا جانا چاہیے، پبلک ٹرانسپورٹ میں اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ خواتین کے لیے محفوظ اور الگ نشستوں کا نظام وضع کیا جائے تاکہ وہ بلا خوف و خطر سفر کر سکیں، نئی حکومت کے پاس ذرائع محدود ہیں مگر بہتر حکمت عملی، جامع منصوبہ بندی اور سخت نگرانی کے ذریعے سے تمام مسائل کو حل کرکے جنوبی پنجاب کے علاقے میں ترقی کے نئے دور کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔
پنجاب میں برسر اقتدار نئی سیاسی قیادت اوائل سے ہی بہت متحرک دکھائی دیتی ہے، یقیناً وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی اولین ترجیحات میں جنوبی پنجاب کی محرومیوں کے ازالے اور ترقی کے لیے کوئی جامع حکمت عملی ضرور ہوگی، جنوبی پنجاب کی عوام کی بھی ان سے یہی توقعات ہیں کہ، وہ ان کے تمام مسائل کے ممکنہ حل کے لیے کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گی۔