Islam, Muhabbat, Aman Aur Ehtram e Admiyat Ka Naam Hai
اسلام، محبت، امن اور احترام آدمیت کا نام ہے
دین انسان کو اپنے خالق کی پہچان اور اس سے جوڑنے کے ضابطے اور راستے کا نام ہے، دنیا کے جتنے بھی مذاہب ہیں وہ اپنے پیروکاروں کے لیے، راہنماء کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ان تمام مذاہب میں ایک قدر مشترک ہے وہ یہ کہ، دنیا کے ہر مذہب میں انسان اور انسانی جان کو بہت اہمیت حاصل ہے۔
بات اگر دین اسلام کے حوالے سے کی جائے تو اسلام کو دین فطرت کہا جاتا ہے، فطرت محبت اور احساس باہمی کی متقاضی ہوتی ہے، دین اسلام میں حصول علم کی اہمیت اسی وجہ سے ہے کہ، انسان کی دولت سے مالا مال ہو کر، زندگی کو بہتر انداز میں جینے کے طور اطوار سیکھے، تاکہ وہ اپنے ساتھ بسنے والے دوسرے لوگوں کے ساتھ امن و آشتی کے ساتھ رہے اور ان کے لیے آسانیاں پیدا کرے، پاکستان 14 اگست 1947 کو ایک آزاد اسلامی ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا، دو قومی نظریہ برصغیر کی تقسیم کی اساس بناء، تحریک آزادی پاکستان کے رہنماؤں نے، اسلام کے جداگانہ تشخص کو تسلیم کروا کر انگریز سامراج سے آزادی حاصل کی۔
آزادی ملنے پر بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا کہ، آج سے آپ آزاد ہیں، آپ اپنی عبادت گاہوں میں مکمّل آزادی سے اپنے دین کے مطابق رسومات ادا کریں۔
مگر قائد کا پاکستان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، مذہبی منافرت، فراقہ واریت، دہشتگردی اور شدت پسندی کا شکار ہوتا چلا گیا، جو ملک اسلام کے نام پر لیا گیا تھا، اسی ملک میں مسلمانوں نے ایک دوسرے پر کفر و شرک کے فتوے عائد کرنا شروع کر دیے۔
پچھلے چند عشروں میں پوری دنیا میں دین اسلام کی نفرت کو باضابطہ سازش کے تحت بہت فروغ دیا جا رہا ہے، دنیا میں اسلامو فوبیا اس قدر بڑھ چکا ہے کہ، اسلام کو دہشتگردی سے جوڑا جانے لگا۔
پاکستان میں شدت پسند عناصر نے بھی ملکی وقار اور دین اسلام کی ساکھ کو نقصان پہنچانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا، آج سے چند سال پہلے سیالکوٹ میں ایک سری لنکن شہری کو مذہبی بے حرمتی کا الزام لگا کر بہیمانہ تشدد کرکے اسے سر عام جلا کر اس کی بے حرمتی کی گئی، جب قانون نافذ کرنے والے اداروں اور تحقیقاتی اداروں نے چھان بین کی تو معلوم پڑا کہ یہ واقعہ مذہبی بے حرمتی کا نہیں بلکہ ذاتی عناد کا تھا، مگر اسے مذہب سے جوڑ کر مذہب اور ملک کے نام کو نقصان پہنچایا گیا، اس واقعے کے ذمے داروں کو پولیس نے پکڑ کر عدالت میں پیش کر دیا جہاں انہیں عدالت نے بدترین اور عبرت ناک سزائیں سنائیں، مگر اس کے باوجود یہ سلسلہ ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔
ابھی حال ہی میں چند ماہ قبل فیصل آباد کے نواحی شہر جڑانوالہ میں ایک بار پھر مذہبی بے حرمتی کو جواز بنا کر، مسیحی برادری کی رہائش گاہوں اور گرجا گھر کو آگ لگا دی گئی، جس وہاں شدید خوف و ہراس پھیل گیا، اس تکلیف دہ واقعے نے ایک بھر پھر پوری دنیا میں ملکی ساکھ کو نقصان پہنچایا اور پوری دینا میں موجود اسلام کے پیروکاروں پر انگلیاں اٹھائی گئیں، جبکہ دین اسلام خالصتاً، انسان سے محبت اور اس کی عزت کا درس دیتا ہے، اسلام کا لفظ س، ل، م، سَلَمَ سے نکلا ہے۔ اس کے لغوی معانی بچنے، محفوظ رہنے، مصالحت اور امن و سلامتی پانے اور فراہم کرنے کے ہیں۔ حدیث نبوی میں اس لغوی معنی کے لحاظ سے ارشاد ہے:
الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ منْ لِّسَانِه وَيَدِه۔
"بہتر مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں"۔
اسلام میں ہر شخص کو حدود و قیود رہنے کا حکم دیا ہے، کوئی شخص یہ اختیار نہیں رکھتا کہ کسی دوسرے کو اپنی ذاتی فہم و ادراک کے پیشِ نظر سزا دے، آج سے چند روز قبل پاکستان کے سب سے اہم ترین شہر لاہور میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ جس نے ایک بار پھر، مذہبی شدت پسندی جیسے خوفناک مسئلے پر سوچنے پر مجبور کردیا، کہ کیا ہم بحیثیت مسلمان ایک دوسرے سے محفوظ بھی ہیں کہ نہیں۔
لاہور میں عربی حروف تہجی "حلوہ" والا لباس پہننے پر مشتعل ہجوم نے خاتون پر توہین مذہب کا الزام لگایا، اس موقع پر خاتون پولیس افسر، سیدہ شہربانو نقوی نے بے مثال بہادری اور دانشمندانہ اقدام کرتے ہوئے بروقت کارروائی سے صورتحال کو نہ صرف بگڑنے سے بچایا بلکہ خاتون کو بھی مشتعل ہجوم سے بحفاظت نکال لیا۔ یہ واقعہ 25 فروری 2024 کو لاہور کے کاروباری علاقے اچھرہ میں پیش آیا۔ پولیس کے مطابق خاتون اپنے شوہر کے ہمراہ شاپنگ کرنے گئی تھی، خاتون نے ایک لباس پہنا ہوا تھا جس میں کچھ عربی حروف تہجی لکھے ہوئے تھے جس پر لوگوں نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور خاتون سے فوری طور پر لباس کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا۔
متاثرہ خاتون نے بھی اس ویڈیو بیان میں کہا کہ میں اچھرہ بازار شاپنگ کے لیے گئی تھی اور میں نے جو کرتا پہنا تھا وہ ڈیزائن سمجھ کر لیا تھا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس پر ایسے الفاظ لکھیں ہیں جنہیں لوگ عربی سمجھیں گے، میری ایسی کوئی نیت نہیں تھی، یہ جو کچھ بھی ہوا یہ لاعلمی میں ہوا، لیکن میں پھر بھی معافی مانگتی ہوں، میں مسلمان ہوں اور کبھی توہین مذہب یا توہین رسالت کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتی، دوبارہ ایسا نہیں ہوگا۔
ایک خاتون کو غلط فہمی کی بنا پر مشتعل ہجوم کے درمیان سے بہادری سے نکالنے پر پنجاب پولیس نے ایس ڈی پی او گلبرگ سیدہ شہربانو نقوی کے لیے سرکاری اعزاز قائد اعظم پولیس میڈل کی سفارش کردی، بلاشبہ ایک اس بہادر پولیس افسر نے نہ صرف، اس متاثرہ عزت اور جان محفوظ کی، تو دوسری طرف عوام الناس میں اپنے ادارے کا اعتماد بحال کرنے میں بھی ایک بہترین کردار اداء کیا۔
اس واقعے نے ڈھیروں سوالات کو جنم دیا، کیا لوگوں کے پاس کسی کو بھی سزاء دینے کا کوئی جواز ہے، ہجوم میں موجود 90 فیصد سے زائد افراد کو تو عربی زبان پر عبور بھی نہیں ہوگا تو انہوں نے مذہبی بے حرمتی کو کس پیمانے کی کسوٹی پر پرکھا، اسلام میں تو انسانی جان سب سے مقدم ہے، فتَح مکہ جیسی تاریخی فتح میں ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے، پوری دنیا کو بتایا کہ کیسے ایک فاتح نے خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر امن اور محبت سے سرزمین مکہ فتح کیا، اسلام بقائے باہمی کا دین ہے، اسلام دین حنیف ہے، اسلام میں تو جانوروں تک کے حقوق موجود ہیں، خدارا ہم بحیثیت پاکستانی قوم ہوش کے ناخن لیں، اور رواداری کو اپنائیں، دین اسلام کی حقیقی تعلیمات کو اپنائیں، جو انسان کی عظمت اور حرمت کا حکم اور درس دیتا ہے، ہمارے دین میں شدت پسند اور شدت پسندی کی قطعی کوئی جگہ نہیں ہے، بقول عالمی شہرت یافتہ شاعر، کنور مہندر سنگھ بیدی۔
ہم کسی دین سے ہوں، قائلِ کردار تو ہیں
ہم ثناء خواںِ شہِ حیدرِ کرارؓ تو ہیں
نام لیوا ہیں محمدﷺ کے پرستار تو ہیں
یعنی مجبور پئے احمدﷺ مختار تو ہیں
عشق ہو جائے کسی سے، کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمدﷺ پہ اجارہ تو نہیں
میری نظروں میں تو اسلام محبت کا ہے نام
امن کا، آشتی کا، مہر و مروت کا ہے نام
وسعت قلب کا، اخلاص و اخوت کا ہے نام
تختۂ دار پہ بھی حق و صداقت کا ہے نام
میرا اسلام نیک و نام ہے، بدنام نہیں
بات اتنی ہے کہ اب عام یہ اسلام نہیں