Anjam e Gulistan Kya Hoga
انجام گلستاں کیا ہوگا
پروردگار عالم کا فرمان عالیشان ہے کہ "پس تم اپنے پروردگار کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہونا"۔ بے شک ناامیدی اپنے رب کی رحمت پر بھروسہ نہ ہونے کے مترادف ہے، انسان کو "جب تک سانس تب تک آس" کے مقولے کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے، اور زندگی میں آنے والے ہر پل کو اس امید سے جینا چاہیے کہ، آنے والے وقت میں حالات بہتر ہونگے۔
ملک پاکستان کو ہزار ہا مسائل اور چیلنجز کا سامنا رہا ہے، جن کا احاطہ کرنے کے لیے شاید الفاظ کم پڑ جائیں، آج کے اس جدید ترین ٹیکنالوجی کے دور میں جہاں ایک طرف ترقی یافتہ قومیں، مصنوعی ذہانت کو بروئے کار لا کر، نت نئی ایجادات کرنے میں سرگرم عمل ہے تو دوسری جانب، ملک پاکستان کا شمار ابھی تک ان ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں لوگوں کو آج بھی بنیادی ضروریات زندگی میسر نہیں ہیں۔
صحت و تعلیم جیسے اہم ترین شعبہ جات کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہم دنیا سے کس قدر پیچھے رہ چکے ہیں، تقریباً پوری دنیا نے پولیو جیسے موذی مرض سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پا لیا ہے، جب کہ پاکستان آج بھی دنیا کے ان چند ممالک میں ہے، کہ جہاں پولیو کا مرض آج بھی موجود ہے۔ بے شک اس کی شدت میں کمی واقع ہوئی ہے، مگر یہ مرض مکمل طور پر ختم نہیں ہو پایا ہے۔
پاکستان میں اگر بات شعبہ تعلیم کے حوالے سے کی جائے تو حالات یہاں بھی بے حد تشویشناک نظر آتے ہیں، عالمی ادارے یونیسیف کے کی تحقیق کے مطابق، پاکستان میں دو کروڑ کے لگ بھگ سکول جانے کی عمر کے قابل داخل بچے، سکولوں سے باہر ہیں، ان کے مستقبل کا ذمہ دار کون ہے، ریاست اس اہم ترین معاملے پر کس قدر سنجیدہ ہے، اس ادراک تو قومی و صوبائی بجٹ میں تعلیم کے شعبے کے حوالے مختص رقم سے بخوبی لگایا سکتا ہے، یہ معاملات تو اپنی جگہ نہایت اہم ہیں، مگر شعبہ تعلیم سے متعلق کچھ ایسے معاملات ہیں جو بڑی حساس اور اہم ترین نوعیت کے ہیں، اس میں سب بڑا مسئلہ سکول و کالج میں زیرِ تعلیم بچے، بچیوں، طلباء و طالبات کے زرائع آمد و رفت کا ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے بچوں کی اکثریت جس اپنے تعلیمی اداروں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے جس قسم کی ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتے ہیں وہ نہایت غیر میعاری اور غیر محفوظ ہے۔ شہروں اور دیہاتوں میں یکساں طور پر موٹر سائیکل رکشے کثرت سے محض اسی لیے استعمال کیے جاتے ہیں کیونکہ وہ نسبتاً سستے پڑتے ہیں جب کہ یہ سواری کسی طور بھی قابل اعتبار نہیں ہے، اب تک ہزاروں کی تعداد میں اس سواری کے حادثات رونما ہو چکے ہیں، ان موٹر سائیکل رکشوں پر، بے حد اوور لوڈنگ کی جاتی ہے۔
حد تو یہ ہے کہ رکشہ اور کیری ڈبہ ڈرائیورز بچے، بچیوں کو اپنی گود تک میں بٹھا لیتے ہیں، جس ان کا جنسی استحصال ہونے کا احتمال رہتا ہے۔
اپنے گھروں سے دور دراز علاقوں میں تعلیم کی غرض سے جانے والے بچے بچیاں لوکل بسوں اور ویگنوں پر سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، لیکن یہ سواری بھی نہایت غیر محفوظ ہوتی ہے، اکثر و بیشتر تو، ان بسوں پر سوار طلباء کو بسوں کے اندر نشتیں میسر نہیں ہوتی ہیں، جن کی وجہ سے وہ بسوں کی چھتوں پر یا پھر بس کے پیچھے لٹک کر سفر طے کرتے ہیں، جنوبی پنجاب کی شاہراہوں کی اکثریت تباہ حال ہے ایسے میں بارہا ناخوشگوار واقعات اور حادثات جنم لیتے ہیں۔
جب طلباء و طالبات کو اس قسم کی غیر میعاری اور غیر محفوظ سواری کے ذریعے سے سفر کرنا ہو تو، ان کے والدین کے ذہنوں میں ہمہ وقت پریشانی رہنا ایک فطری عمل ہے۔
آج سے چند سال قبل جاپان سے ایک خبر موصول ہوئی تھی کہ جاپانیوں کے نزدیک تعلیم اتنی اہم کہ جاپانی ریلوے نے صرف ایک طالبہ کے لیے اسٹیشن کو ختم کرنے کا فیصلہ موخر کر دیا جاپانی ریلوے کے اس فیصلے کو دنیابھر میں سراہا گیا تھا، جاپانی ریلوے نے تین سال قبل دوردراز علاقے ہوکائیڈو کے ریلوے اسٹیشن کو بند کرنے کا فیصلہ کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ اس اسٹیشن پر ٹرین صرف دن میں دو بار ایک ہی مسافر کے لیے رکتی ہے۔
مسافر کے بارے میں چھان بین کی گئی تو وہ کوئی کاروباری شخصیت نہیں بلکہ ایک ہائی اسکول کی طالبہ نکلی جس پر جاپانی ریلوے نے فیصلہ کیا کہ طالبہ کی گریجویشن مکمل ہونے تک یہ ریلوے اسٹیشن بند نہیں ہوگی۔ ایک جاپانی ہیں جو ایک طالبہ کے لیے پوری ٹرین چلا دیتے ہیں، اور دوسری جانب ہم ہیں کہ جہاں ہمارے بچے بچیاں زیور تعلیم سے آراستہ ہونے کی غرض سے نہایت ناکارہ اور ناقص زرائع آمد و رفت کے استعمال پر مجبور ہیں۔
یہ مسئلہ بظاہر سادہ دکھائی دیتا ہے مگر یہ مسئلہ نہایت اہم نوعیت کا ہے، والدین کو چاہیے کہ وہ، اپنے بچوں کے لیے ہر ممکنہ حد تک محفوظ ترین سواری کے انتظام کو یقینی بنائیں، رکشہ اور وین ڈرائیورز کو تاکید کریں کہ، ان کے بچوں کے ساتھ کسی قسم کی بدسلوکی سے باز رہیں، اوور سپیڈنگ کسی صورت نہ کی جائے، سکول کے اوقات میں ہائی وے پولیس اور ٹریفک پولیس اہلکار اس امر کو یقینی بنائیں کہ موٹر سائیکل رکشے، عام رکشے اور سکول وینز وغیرہ اوور لوڈنگ اور آوور سپیڈنگ سے مکمل اجتناب کریں۔ گنجائش سے زیادہ سواریاں بٹھانے والوں کے خلاف تادیبی کاروائی کی جائے، سکول کے اوقات میں ٹریفک کی روانی کو معمول سے کم رکھا جائے، ٹرانسپورٹ اتھارٹی غیر محفوظ گاڑیوں کے خلاف بروقت کارروائی عمل میں لائے تاکہ قیمتی انسانی جانوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ سروے کروائے کہ کن علاقوں میں طلباء وطالبات کی زیادہ تعداد روزانہ کی بنیاد پر تعلیم حاصل کرنے کے لیے سفر کرتے ہیں، ان علاقوں میں گورنمنٹ کی جانب سے بین الاقوامی معیار کی ماحول دوست اور سستی ٹرانسپورٹ کا نظام نافذ کیا جائے، یہ بچے ہمارا مستقبل ہیں، ہمارا آنے والا کل ہیں، اگر ہم ان کو ہی محفوظ نہ کر سکے تو انجام گلستاں کیا ہوگا۔
یہ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ، اپنی قوم کے مستقبل کو اپنی قوم کے بچوں کو محفوظ بنانے کے لیے اپنا بہترین کردار ادا کرے۔
پاکستان پائندہ باد۔۔