Shaam, Siyah Daur Ka Khatma Aur Iske Mumkina Asraat
شام، سیاہ دور کا خاتمہ اور اسکے ممکنہ اثرات
بشار الاسد جو اپنے والد حافظ الاسد جو خود بھی انیس سو اکہتر سے دو ہزار کے درمیان شام کے صدر رہے تھے کی وفات کے بعد دو ہزار میں صدر بنے تھے۔ ان کی اور انکے والد کی حکومتیں بد ترین آمریت پر مبنی تھیں۔ اس خاندان کا تعلق شام کے علوی فرقے سے ہے، جو شیعہ اسلام کی ایک شاخ ہے واضح رہے کہ الاسد خاندان ایک ایسے ملک میں حیران کن طور پہ ترپن سال سے حکومت میں تھا جہاں کی چوہتر فیصد آبادی سنیوں کی ہے اور صرف تیرہ فیصد بشار الاسد کے خاندان کے شیعیوں کی ہے، کرسچئیین کی دس فیصد آبادی سے بمشکل تین فیصد زیادہ۔
شام میں اقلیت میں ہونے کے باوجود پچھلے ترپن سال سے حکومت پہ قابض رہنا شیعیوں کی اپنی اس تاویل اور لاجک کے خلاف ہے کہ جو وہ صدام حسین اور بحرین کی الخلیفہ خاندان کے خلاف دہائیوں پہ محیط اپنی سیاسی اور مسلح جہد و جہد کے لئے دیا کرتے تھے کہ چونکہ عراق اور بحرین میں آبادی کے لحاظ سے انکی اکثریت ہے اسلئے حکومت کی تشکیل کا حق بھی انکا بنتا ہے۔ لیکن دنیا کا اور بالخصوص امت مسلمہ کا یہ دیرینہ مسئلہ ہے کہ جسکو جب اور جہاں طاقت ملتی ہے وہ پھر کسی اخلاقی اور جمہوری اصول کے پابند نہیں رہتے اور امت مسلمہ میں یہ المیہ خلافت کی ملوکیت میں بدلنے کے بعد سے چلا آ رہا ہے۔
بشار الاسد خاندان کا ترپن سالہ طویل دور اقتدار بد ترین شخصی آمریت کا دور تھا جس میں ہر قسم کی شخصی اور سیاسی آزادیاں ناپید تھیں۔ انکے والد کی بعث پارٹی جسکی تشکیل مائیکل افلاق (جو ایک یونانی رجعت پسند عیسائی تھے) اور صلاح الدین البطار(جو ایک سنی مسلم تھے) نے رکھی تھی بعث پارٹی کا نظریہ عرب نیشنلزم، سوشلزم اور سیکولرزم اور اسکا نعرہ اتحاد، ازادی اور سوشلزم تھا۔ اس پارٹی کا بنیادی مقصد عرب ممالک کی بیرونی تسلط سے آزادی، عرب ممالک کا انضمام، ایک متحدہ عرب ریاست کی تشکیل اور اسکے اندر ایک سوشلسٹ معاشی نظام کا قیام تھا۔
1958 میں بعث پارٹی اپنی ابتدائی کوشش میں کامیاب ہوئی جب مصر اور شام کی یونائیٹڈ عرب ریپبلک(UAR) کے نام سے ریاست قائم کی گئی جسکے پہلے سربراہ مصر کے جمال عبد الناصر تھے۔ لیکن اپنے قیام کے صرف تین سال بعد ہی اس ریاست کو تحلیل کر دیا گیا۔ 1960 میں بعث پارٹی اندرونی اختلافات کا شکار ہوئی اور دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک طرف روایت پسند تھے جو بانی جماعت افلاق اور البطار کے ساتھ تھے اور دوسری طرف انقلابی اور شامی فوج کے اراکین تھے جنکا مطمع نظر ایک مطلق العنان سوشلسٹ اسٹیٹ کا قیام تھا۔
حافظ الاسد نے 1950 میں بعث پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور جلد ہی اسکی صفوں میں نمایاں حیثیت اختیار کی۔ 1963 میں بعث پارٹی نے شام میں فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پہ قبضہ کیا جس کو انقلاب 8 مارچ کا نام دیا گیا۔ بعث پارٹی کی ملٹری اور سویلین رہنماؤں کے درمیان یہ کشمکش 1970 تک جاری رہی یہاں تک کہ حافظ الاسد نے بعث پارٹی میں ایک غیر خونی انقلاب کے ذریعے اقتدار پہ قبضہ جمالیا اور اسکے بعد پارٹی کو اپنی مطلق العنان رجیم کے لئے بطور ایک آلہ کے استعمال کیا۔ اگرچہ بعث پارٹی حافظ الاسد کی اٹھان سے بہت پہلے وجود میں آئی تھی لیکن اسکو شام کی سیاست میں ایک نمایاں غالب مقام دلانے میں حافظ الاسد نے اہم کردار ادا کیا اور اس نے پارٹی کو اپنے خاندان کے مفادات اور اقتدار کے تسلسل کے لئے استعمال کیا۔
پچھلے ترپن سال کی اسد خاندان کی حکمرانی کے دوران جمہوریت اور جمہوری قدریں ناپید تھیں۔ حافظ الاسد کی بطور صدر ابتدائی تعیناتی ایک ریفرنڈم کے ذریعے سات سال کے لئے ہوئی تھی۔ انکی نامزدگی بعث پارٹی کی ریجنل کمانڈ نے کی تھی جبکہ اسکی منظوری پیپلز کونسل آف سیریا (پارلیمنٹ) نے دی تھی جس میں (ہمارے ملٹری ڈکٹیٹرز جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے ریفرنڈم) کی طرح حافظ الاسد واحد امیدوار تھے اور شامی عوام کو ہاں اور ناں میں جواب دینا تھا۔ یہی عمل تقریباََ اسکی موت تک جاری رہا اور بعد میں اسکے بیٹے کے دور میں بھی دو ریفرنڈم اسی طریق کار کے تحت منعقد ہوئے اور ان ریفرنڈمز میں مضحکہ خیز طور پہ عوام کی طرف سے "ہاں" کی شرح پچانوے فیصد سے اوپر ہی رہی۔
بین الااقوامی دنیا کے دباؤ پہ بشار الاسد کی حکومت نے 2012 میں آئین میں ترمیم کرکے ایک سے زیادہ امیدواروں کو انتخاب میں کھڑے ہونے کی اجازت دی اور اس میں صدارتی انتخاب لڑنے کی معیاد کو دو مسلسل ٹرم تک محدود کر دیا گیا لیکن مضحکہ خیز طور پہ اس قانون کا اطلاق بشار الاسد پہ نہیں کیا گیا۔ اس نئے آئین کے تحت ہونے والے 2014 اور 2021 کے ریفرنڈمز میں بھی بشار الاسد 88.7 اور 95.1 فیصد شرح کے ساتھ کامیاب ہوئے لیکن اسے دنیا نے ایک فراڈ الیکشن سے تعبیر کیا جس میں مخالفین کو دبایا گیا اور بڑے پیمانے پہ دھاندلی کرکے من پسند نتائج حاصل کئے گئے۔
2011 میں تیونس سے شروع ہونے والا "عرب اسپرنگ" نے شام کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بڑے پیمانے پہ حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے جنہیں بشار الاسد کی حکومت نے سختی سے دبانے کی کوشش کی۔ اسد حکومت پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے مظاہروں اور خانہ جنگی کے دوران سنی مسلمانوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا۔
بشار الاسد کی حکومت نے اپنے مخالفین کو کچلنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا، جس میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال تک کے الزامات شامل ہیں ان سخت حکومتی اقدامات کے نتیجے میں ملک میں خانہ جنگی شروع ہوئی جس میں داعش، القاعدہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہوئیں۔ اسکے بعد شام بین الاقوامی طاقتوں کی مفادات کے ٹکراؤ کا مرکز بن گیا۔ ایک طرف اگر روس اور ایران بشار الاسد کی حمایت میں سامنے آگئے تو دوسری امریکہ اور نیٹو حزب اختلاف اور مسلح جنگجووں کی پشت پہ تھے۔ اس جنگ نے دیکھتے دیکھتے وہ بھیانک شکل اختیار کر لی کہ لاکھوں افراد کی ہلاکت اور در بدری کا باعث بنی۔
23 ستمبر 2014 میں امریکہ نے شام پہ براہ راست بمباری کی اور بہانہ داعش اور الخراسان گروپ کی تنصیبات کا نشانہ تھا۔ اسکے جواب میں روس نے 30 ستمبر 2015 کو شام میں فضائی حملے کئے عذر تو بظاہر انکا بھی داعش کی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا تھا لیکن ہدف اینٹی بشار اور پرو امریکن سیرئین ڈیموکریٹک فورسسز کی تنصیبات تھیں۔ روس کی اس کاروائی نے جنگ کا پانسہ مکمل طور پہ بشار الاسد فورسسز کے حق میں بدل دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اگلے کچھ سالوں میں انکی حکومت نے باغیوں سے تقریباََ ستر فیصد علاقہ واپس چھین لیا۔
ایران نے بھی اسد حکومت کو مالی، فوجی اور سیاسی امداد فراہم کی اور لبنان میں اپنی حمایت یافتہ حزب اللہ کو شام میں حکومت کی حمایت کے لیے اتارا۔ دوسری طرف پڑوسی ہونے کی وجہ سے ترکی کے اوپر بھی اس جنگ کے شدید اثرات مرتب ہوئے ایک تو لاکھوں مہاجرین کی انکے ہاں پناہ لینے کی شکل میں اور دوسری طرف داعش، القائدہ اور ترکی سے آزادی مانگنے والے کردش علحدگی پسندوں کی اس جنگ میں شمولیت کی وجہ سے۔ اسلئے ترکی بھی وقتاََ فوقتاََ کبھی داعش اور کبھی کردش علحدگی پسندوں کی تنصیبات کو شام کی سرحد عبور کرکے نشانہ بنانے کی غرض سے اس جنگ میں شامل ہوتا رہا۔ لیکن ان سب کچھ کے باوجود بشار الاسد کی حکومت کے خلاف یہ آٹھ سال پہ محیط بغاوت ناکام اور انکی حکومت محفوظ رہی تھی۔
2019 تک تقریباََ بشار الاسد کی حکومت نے ملک کے ستر فیصد رقبے پہ واپس قبضہ جما لیا تھا سوائے ادلیب اور شمالی شام کے علاقوں کے کہ جہاں حیات التحریر شام کا قبضہ تھا، جسے ترکی اور دوسرے بین القوامی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی۔ لیکن دسمبر کے پہلے ہفتے میں جس طرح اچانک ابو محمد گولانی کی قیادت والی حیات التحریر شام نے ادلیب سے نکل کے صرف ایک ہفتے کے اندر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹایا اس نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
حیات التحریر شام جسکی تشکیل 2017 میں کی گئی ہے جو جہادی تنظیموں کا ایک اتحاد ہے جو شروع میں جبہ النصرة کے اتحاد کا حصہ تھی جو سابقہ القاعدہ اتحادی تنظیم ہے۔ یہ ایک سخت گیر اسلامی جہادی نظریات رکھنے والی جماعت ہے جسکا مقصد شام میں ایک اسلامی ریاست کا قیام ہے۔ انکا یہ بھی دعویٰ ہے کہ یہ بیت المقدس اور شام کی گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل سے آزاد کرائیں گے جیسے کہ 8 دسمبر کو اپنی فتح کے پہلے خطاب میں اس کے سربراہ ابو گولانی نے اپنے اس عزم کو دہرایا۔ القاعدہ کی اتحادی تنظیم رہنے کی وجہ سے (اگرچہ بعد میں اس نے القاعدہ سے دوری اختیار کر لی ہے) امریکہ، رشیا اور دیگر ممالک اسے پہلے ہی ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔
رشیا اور ایران تو بشار کی اتحادی ہونے کی وجہ سے اس تبدیلی سے ناخوش ہی ہے امریکہ، اسرائیل، نیٹو اور ترکی جیسے اینٹی بشار طاقتیں بھی اس اچانک رجیم چینج کو احتیاط سے دیکھ رہے ہیں اور انکا ردعمل بھی کوئی اتنا زیادہ مسرت والا نہیں ہے۔ اسد خاندان کی ترپن سال سیاہ استبداد والے دور کے خاتمے سے شام اور اس خطے پہ کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، کیا اس سے شام میں تیرہ سال سے جاری طویل خامہ جنگی کا خاتمی ہوگا یا پھر ایک نیا بحران شام کا منتظر ہے یہ تو وقت بتائے گا۔
بہر حال بشار الاسد کی حکمرانی کو ایک بدترین آمریت اور ظلم و بربریت کی مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا کہ جہاں طاقت کے زور پر مخالفین کو دبانے کی روایت رہی۔ جہاں شخصی حکمرانی کو پروان چڑھایا گیا اور لاکھوں انسانوں کو اپنے اقتدار کی خاطر قربانی کی بھینٹ چڑھایا گیا۔