Kabul Ki Punjab Se Dushmani Rauf Klasra Ki Zubani
کابل کی پنجاب سے دشمنی رؤف کلاسرہ کی زبانی
رؤف کلاسرہ نے اپنی تازہ تحریر مطبوعہ روزنامہ دنیا بتاریخ چار اکتوبر میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے ایک بیان کا حوالہ دیا ہے جس میں موصوف نے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اور اسکی جماعت کی طرف سے پنجاب پہ چڑھائی کو افغانستان اور سنٹرل ایشیا سے آنے والے حملہ آوروں سے تعبیر کیا ہے۔ اس پہ موصوف کالم نگار نے سابق وزیر اعظم (جسکی شخصیت اور حکومت کے وہ ماضی میں ہمیشہ بڑے ناقد واقع ہوئے ہیں) کی شخصیت کے اس پوشیدہ پہلو کو سراہا ہے کہ وہ ہمیشہ سچی بات کہنے سے کتراتے نہیں ہیں بلکہ اسکے لئے ان کو جنتی بھاری قیمت چکانی پڑے وہ تیار رہتے ہیں اور اسکے لئے دوست احباب کے مخلصانہ مشوروں تک کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔
کالم نگار نے نواز شریف کے بیان پہ کچھ تاریخی حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ دراصل افغانوں یا با الفاظ دیگر پشتونوں کی پنجاب کے ساتھ نفرت کی تاریخ بڑی پرانی ہے اور دراصل اس نفرت کے پیچھے رنجیت سنگھ کے ہاتھوں افغان جنگجووں کی وہ ہزیمتیں ہیں جو انھیں اٹھانی پڑی ہیں اور اس میں ملتان میں ابدالی سلطنت کے نمائندے نواب مظفر حسین خان کی بیدخلی سے لے کے تخت کابل تک کو ہندوستان کی حکمرانی کے زیر اثر لانا شامل ہے۔
کلاسرہ بڑے مستند صحافی ہیں ماضی میں انکی نواز شریف اور دیگر حکومتوں میں میگا کرپشن سکینڈلز پہ کی گئی تحقیقاتی رپورٹنگ کا بڑا فین رہا ہوں۔ سنٹرل پنجاب کی ساؤتھ پنجاب کے ساتھ ظلم اور سرائیکی الگ صوبے کے حوالے سے ان کی تحریروں اور کاوشوں کا بھی معترف رہا ہوں لیکن اب نواز شریف اور پنجاب کے انکے اس مقدمے نے پنجاب اور اہل پنجاب کے ساتھ محبت کی انکی شخصیت کے اس نئے پہلو کو اجاگر کیا ہے۔
خیر وقت کے ساتھ ساتھ انسان کی سوچ اور فکر میں تبدیلی آتی رہتی ہے اور خصوصا پنجاب میں سوچ اور فکر کی یہ تبدیلی ایک فطری عمل سے بھی کچھ زیادہ ہی تیزی کے ساتھ روبہ عمل ہوتا ہے اسلئے موصوف صحافی کو اسکا الزام نہیں دیا جا سکتا آخر وہ بھی اسی صوبے کا باسی ہے اور انکو حق ہے کہ وہ اپنے صوبے اور قوم کا مقدمہ ہر پلیٹ فارم پہ لڑیں اور پنجاب اور اہل پنجاب کی تاریخ کے جو روشن پوشیدہ پہلو ہیں ان سے پردہ اٹھائیں۔ ہم ذیل کے سطور میں حقائق کے نام پہ چھاپے گئے انکے تاریخی حقائق اور کابل، افغانوں یا پشتونوں کی پنجاب کے ساتھ نفرت کے انکے بیان کردہ حقائق کے پس منظر کا جائزہ لیتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ رنجیت سنگھ نے پنجاب میں سکھ سلطنت کے قیام اور اسکی توسیع میں اہم کردار ادا کیا۔ 1799 میں لاہور پہ قبضے کے ساتھ سکھ سلطنت کی بنیاد رکھنے والے رنجیت سنگھ نے 1818 میں ملتان اور 1834 میں پشاور کو درانی سلطنت سے آزاد کروانے کے ساتھ ہی پنجاب میں افغانوں کے غلبے اور تسلط کے چار سو سالہ عہد کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا لیکن تخت کابل تک کو ہندوستان کے زیر تسلط لانے کی جہاں تک بات ہے یہ صرف موصوف صحافی کی ذہنی اختراع ہی ہوسکتی ہے حقیقت سے اسکا دور تک کا بھی تعلق نہیں کیونکہ تخت کابل کبھی بھی کسی بیرونی طاقت کے تسلط میں نہیں رہا۔
اینگلو-افغان تین جنگیں ہوئیں ہیں پہلی 42-1839 دوسری 80-1878 اور تیسری 1919 می۔ ں اس میں صرف 80-1878 والی جنگ میں برٹش فورسز تھوڑا بہت اثر ڈال کے گئے تھے اور 1880 میں نکلتے ہوئے گندمک کا معاہدہ کیا تھا جسکے تحت افغانستان کی خارجہ پالیسی کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیا تھا لیکن 1919 میں آخری جنگ میں واپس برٹش فورسسز کو بدترین پسپائی پہ مجبور کرکے نکالا گیا اور مکمل آزادی حاصل کی گئی۔ ماضی کو کچھ لمحے کے لئے ایک طرف رکھ کے عصر حاضر کی تاریخ یعنی صرف پچھلے چالیس سالوں میں معاصر دنیا کی دو بڑی طاقتوں رشیا اور امریکہ کی افغانستان میں بد ترین شکست کے بعد پسپائی کا نظارہ کر چکے ہیں۔ جن میں سے رشیا کے خلاف دس اور امریکہ کے خلاف بیس سال پہ محیط جنگیں لڑی گئیں جسکی مزاحمتی جنگوں کی دنیا میں شاذ و نادر ہی کوئی مثال ملتی ہے۔
بظاہر رنجیت سنگھ کی حیثیت انگریز کے ایک معاونت کار کی رہی ہے کہ جن کی ساری جنگیں افغان جنگجووں کے خلاف رہی ہیں اور انکے ان جنگوں نے اس خطے میں انگریز کے اقتدار کو مضبوطی اور استحکام بخشا لیکن دوسری طرف اس نے انگریز کے ساتھ کسی قسم کے براہ راست تصادم سے اجتناب برتا اور انکے ساتھ 1809 میں معاہدہ امرتسر کیا جسکی رو سے دریائے ستلج انکی اور انگریز سلطنت کے درمیان باؤنڈری لائن قرار پایا لیکن عصبیت میں انسان تاریخی حقائق کو بھلا دیتا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ پنجاب کی اکثریتی آبادی والے اس ملک میں پچھلے ستتر سال سے اس ملک کی تاریخ کی کتابوں میں جن افغان اور ترک حملہ آوروں کو بطور ہیروز پیش کیا جاتا رہا ہے اور جنکے ناموں سے اپنے میزائلوں کے نام تک منسوب کئے گئے ہیں لیکن اب پچھلے کچھ سالوں سے پنجاب صوبے کے کچھ لکھاریوں اور تاریخ دانوں کو رنجیت سنگھ کو بطور ہیرو پیش کرنے اور انکے ہاتھوں افغان حملہ آوروں کی ہندوستان سے مکمل صفایا ہونے کی نئی تاریخی حقائق سے پردہ اٹھایا جا رہا ہے۔
افغان حملہ آوروں کے بارے میں لکھا جا رہا ہے کہ انکا دین کی ترویج و اشاعت سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ وہ تو یہاں لوٹ مار کے لئے آتے تھے اور اس برصغیر پاک و ہند کے لوگ انکی وجہ سے نہیں بلکہ یہاں آنے والے اولیاء اللہ کی تبلیغ کی وجہ سے مسلمان بنے تھے تو کاش یہ لکھاری ان اولیاء اللہ کی تاریخ کا بھی مطالعہ کرتے کہ وہ کہاں سے آئے تھے۔ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری، بابا فرید گنج شکر اور بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمھم اللہ علیہ اور پنجاب کے چپے چپے میں دفن دوسرے اولیاء کرام میں سے اکثریت افغانستان ہی سے اس خطے میں دعوت دین کی تبلیغ کے لئے آئے تھے۔ اس لئے معزز لکھاریوں کی جانب سے جتنی بھی کوششیں کی جائیں افغانوں کی اس خطے کے لوگوں کی زندگیوں میں contribution سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
کلاسرہ صاحب نے انکے ایک پشتون دوست صحافی کا انکے ہاں"پنجابی" کے لفظ کو بطور گالی کے استعارے کے طور پہ استعمال کرنے کے واقعے کا تذکرہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس نفرت کے پیچھے ماضی کے وہ تاریخ ہے جو پشتونوں سے اب جانے ان جانے میں پنجاب سے اس نفرت کا اظہار گاہے بگاہے کرواتی رہتی ہیں۔
موصوف 1979 میں رشیا کی افغانستان پہ حملے کے بعد سے ہماری اسٹیبلشمنٹ کی افغانستان میں مسلسل مداخلت اور اس کے نتیجے میں اس ملک کی تباہی و بربادی کے فیصلوں کے بڑے سخت نقاد رہے ہیں اور افغانوں کی ہمارے ملک سے نفرت کی اس بنیادی سبب کے قائل بھی رہے ہیں لیکن پتہ نہیں اب ایسے باخبر صحافی ان سارے حقائق کو پس پشت ڈال کے ایک عام پنجاب کے باسی کی طرح سطحی قسم کی جزئیات میں پڑھ کے اپنے مقدمے کو اس بہتر انداز میں کیوں نہ پیش کر سکے جیسے کہ انکی خاصیت رہی ہے۔