Halaat Yehi Rahen Ge
حالات یہی رہیں گے
اگر آپ کو لگتا ہے کہ کوئی آ کر حالات بہتر کر دے گا تو آپ خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ حقیقت کی دنیا کچھ اور بتاتی ہے۔ اب نواز شریف آئے، زرداری آئے، عمران خان آئے یا فوج آ جائے۔ ملک کے حالات مزید بگڑ تو سکتے ہیں لیکن سنبھلنا ممکن نہیں۔ شاید سننے میں یہ سب برا لگے لیکن حقیقت کی دنیا ایسی ہی ہے۔
میں نے اخبار، ٹی وی، شوبز اور پبلک ریلیشنز کے ساتھ ساتھ جرائم کی دنیا میں یہ سب بہت قریب سے دیکھا ہے۔ یہ گلیمر کی دنیا ہے جس میں نظر کچھ آتا ہے لیکن ہوتا کچھ اور ہے۔ بظاہر صحافی بہت امیر سمجھے جاتے ہیں لیکن میں نے یہاں ایک ہی کمرے میں بھوک اور دولت کو اکٹھے کام کرتے دیکھا ہے۔ حامد میر رپورٹنگ میں آ کر نام اور دولت کما لیتا ہے لیکن اس سے سینئر رپورٹر بےروزگاری کی سزا کاٹتے ہیں۔ سلیم صافی کو سب کچھ مل جاتا ہے لیکن اس کے استاد آج بھی نیوز روم میں 20، 25 ہزار کی ملازمت کر رہے ہیں۔
اقرارالحسن کی تنخواہ لاکھوں میں ہوتی ہے لیکن اسی ادارے میں اسی وقت اس کا بھائی ہزاروں میں تنخواہ لیتا ہے۔ یہاں تمام سیاست دانوں کا بھی اصلی چہرہ سامنے آ جاتا ہے۔ پروگرام کے سیٹ پر کچھ اور بولا جاتا ہے اور وقفہ میں پورا منظر نامہ ہی کچھ اور ہو جاتا ہے، جلسے کے اسٹیج اور ڈرائینگ روم کی گفتگو میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس لیے مجھے یہ بات کلیئر ہے کہ حالات بہتر نہیں ہونے۔ یہ کہانی اس سے آگے ہی جانی ہے۔
سب کو چھوڑیں آپ خود اینالسز کر لیں۔ ایک نظر پچھلے 75 سال پر ڈال لیں۔ دس بیس روپے کا چند روزہ فرق الگ بات ہے لیکن ڈالر آج تک اوپر ہی گیا ہے۔ یہ مزید اوپر جائے گا۔ ہم صرف نعرے لگانے کی حد تک روس اور امریکا کو شکست دیتے ہیں، حقیقت میں ہم شکست کھاتے ہیں۔ امریکا آج بھی سپر پاور ہے، روس دنیا کی بڑی طاقت ہے لیکن ہم دیوالیہ ہونے کو ہیں۔
سونا ہمیشہ مہنگا ہی ہوا ہے اور مزید مہنگا ہوگا۔ روپے کی قدر میں ہمیشہ کمی ہی آئی ہے، اس میں مزید کمی ہی آئے گی۔ پٹرول کچھ عرصہ کے لیے دس پندرہ روپے کم ہوا تو ہوا ورنہ یہ مہنگا ہی ہوا ہے۔ اس کی قیمت بھی مزید بڑھے گی۔ اس بڑھتی قیمت کو نہ عمران خان روک پایا اور نہ زرداری یا نواز شریف۔ اپنے ذہن کو فلیش بیک کریں۔ بیس سال پہلے کی صورت حال کا جائزہ لیں اور اب کی صورت حال سے تقابل کریں۔ آپ کو ان سب کا گراف مسلسل اوپر جاتا نظر آئے گا مہنگائی بھی اسی طرح بڑھ رہی ہے۔ پٹرول، بجلی، سونا، ڈالر اور پراپرٹی کا ریٹ تیزی سے مسلسل اوپر جا رہا ہے۔
اب بھی مہنگائی کے اثرات سامنے آ رہے ہیں۔ کمپنیاں اور ادارے مہنگائی کی شرح کا مقابلہ نہیں کر پا رہے۔ کل حکومت نے فری ڈیجیٹل ہنر دکھانے والا پورا ڈیپارٹمنٹ ختم کر دیا اور سب ملازمین کو ملازمت سے نکال دیا۔ آج پاکستان کے ایک بڑے سافٹ ویئر ہاؤس نے اچانک دو دو ماہ کی تنخواہیں ادا کرکے اپنے 40 ملازمین کو ایک لمحہ میں ملازمت سے نکال دیا ہے۔ اداروں کے پاس تنخواہیں دینے کا بجٹ نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ بےروزگاری مزید بڑھے گی۔
ایک بات یاد رکھیں۔ حالات یہی رہیں گے۔ بےروزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ ان حالات میں تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ پس رہا ہے۔ جس شرح سے مہنگائی بڑھ رہی ہے اس شرح سے تنخواہ نہیں بڑھ رہی۔ آج جو حالات ہیں کل اس سے بھی برے ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اگر آپ آج اپنے مستقبل کا نہیں سوچیں گے تو کل مزید بدحالی کا شکار ہو جائیں گے۔
دس سال پہلے بھی آپ کو زندگی مشکل لگتی ہوگی، سیونگ نہ ہونے کے برابر ہوگی لیکن جب آج آپ کمپیئر کرتے ہیں تو لگتا ہے اس وقت حالات بہت بہتر تھے۔ بزرگوں سے پوچھیں تو انہیں لگتا ہے ان کے دور میں چیزیں بہت سستی تھی حالانکہ اس دور میں ایلیٹ کلاس میں وہ بھی شامل نہ ہو سکے لیکن جب موجودہ اور اس وقت کا تقابل کرتے ہیں تو پہلا دور سستا لگتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس سستے دور میں انہوں نے اپنے اور آپ کے لیے کیا بنایا؟ یقیناََ کچھ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ اپنے اور اپنے بچوں کے لیے کیا بنا رہے ہیں؟ یقیناََ کچھ نہیں۔
یہ وقت ہے۔ اس روایتی رونے دھونے سے باہر نکلیں۔ اپنی آمدنی میں سے سیونگ کریں۔ ہر ماہ اپنی ذات اور اپنے مستقبل پر دس پندرہ ہزار لگائیں۔ یہی دس پندرہ ہزار آپ کی زندگی بدلتے ہیں۔ اگر آج بھی ایسا نہیں سوچیں گے تو یاد رکھیں تنخواہ نہیں بڑھتی لیکن گھروں کے کرایے ہر سال بڑھ جاتے ہیں۔ ساری عمر اپنی تنخواہ کرایہ کی مد میں اجاڑنے کی بجائے کچھ سال کی تنگی کاٹ کر اپنا پلاٹ خریدیں۔ پلاٹ ہوگا تو اس پر چھت بن ہی جاتی ہے۔