Ehad e Turabi Se Ehad e Jauhari Tak
عہدِ ترابی سے عہد جوہری تک
دو دن سے قبلہ علامہ طالب جوہری صاحب کی وفات کی وجہ سے گھر کے ماحول میں عجب دکھ کی سی کیفیت شامل ہے۔ آج شام ایسے ہی بیٹھے یو ٹیوب پر "علامہ" لکھا تو سامنے سب سے اوپر دو نام آئے
۱- علامہ رشید ترابی
۲- علامہ طالب جوہری
پڑھ کے ذہن میں خیال آیا یو ٹیوب سے بھی پوچھو تو وہ علامہ کے جواب میں ان شخصیات کا نام دیتی ہے اور ہمارے ہاں؟ ہر وہ شخص جو فیصلہ کرتا ہے کہ مجلس پڑھوں گا مجلس بعد میں پڑھنا شروع کرتا ہے علامہ پہلے بن جاتا ہے۔ آپ کو علامہ لکھنے کا شوق ہے تو سمجھ لیجیے یہ ہستیاں معیار ہیں۔ خود کو علمی طور پر اس مقام پر لے کر آئیے ورنہ اس قوم پر رحم کیجیے اور اس گراں قدر خطاب کو بچوں کا کھیل مت سمجھیے۔
علامہ رشید ترابی پہلی ہستی تھے جنہیں خطیب عالمِ اسلام کا خطاب دیا گیا۔ اپنوں بیگانوں سب نے علامہ مانا۔ قائدِ اعظم کی ذاتی خواہش پر آپ حیدرآباد دکن سے پاکستان تشریف لائے اور پھر اپنی زندگی ذکر محمد و آلِ محمد ص کی ترویج کے لیے وقف کر دی۔ آپ انکی مجلس سنئیے آپ کو احساس ہو گا کہ ان کو بحیثیت عالم کس شدت سے اپنی شرعی ذمہ داری کا احساس تھا۔ ایک مجلس میں کہتے ہیں "یہ مجالس ریکارڈ ہو رہی ہیں شاید کل کبھی آپ کے کام آ جائیں آپ کے نہیں تو آپکی اولاد کے کام آ جائیں۔"
کیا احساس تھا قوم کا۔ کیا درد تھا کہ قوم تک بات پہنچ جائیں۔ آج ان کی وفات کے ۴۶ برس بعد بھی آپکی مجالس ملت کے لیے رہنمائی کا کام دے رہی ہیں۔ کوئی خطیب نہیں بنتا جب تک علامہ کو ازبر نہ کر لے۔ میرے نزدیک میر انیس اگر خطیب ہوتے تو رشید ترابی ہوتے اور آپ اگر شاعر ہوتے تو میر انیس ہوتے۔
پاکستان میں اگر عزاداری کو ادوار میں تقسیم کیا جائے تو اس کے دو ہی دور بنتے ہیں۔ قیام پاکستان سے ۷۴ تک عہد ترابی اور ۷۴ سے ۲۰۲۰ تک عہد جوہری۔
دسمبر ۷۳ کی یخ بستہ رات کو جب علامہ رشید ترابی تمام عمر خدمتِ عزاداری کے بعد بارگاہِ پنج تن علیہم السلام میں پیش ہو گئے ایک عہد تھا جو تمام ہوا، آفتابِ خطابت تھا جو غروب ہوا تو وہ وقت تھا ایک اور سورج کے طلوع کا جس نے اگلے پچاس سال بھرپور انداز میں ہر سو اجالا پھیلانا تھا۔ وہ آفتابِ عالم تاب تھے علامہ طالب جوہری اور آنے والے ماہ و سال پھر ان کے نام سے منسوب کیے گئے۔ علامہ طالب جوہری کا دور پاکستان میں شیعہ قوم کے لیے نہایت پر آشوب دور تھا، بیرونی چیلنجز تو ایک طرف آپس میں ہی دست و گریبانی شروع ہو چکی تھی مگر آپ یہاں بھی مثلِ سایہ دار درخت نظر آئے۔ اس پر خار وادی میں آپ نے اپنا دامن چھلنی ہونے سے بچائے رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں بہت سے قائدِ ملتِ جعفریہ ہونے کے دعوےدار نظر آئے وہاں قوم نے آپ پر ایسی وارفتگی کے ساتھ محبت نچھاور کی کہ آپکو سرمایہ ملت جعفریہ قرار دیا گیا۔
علامہ صاحب نے کبھی القابات پر یقین نہ کیا۔ کم عمری میں ہمراہ دیگر اجازہ جات کے اجازہ اجتہاد مل گیا۔ مگر آپ نے کبھی آیت اللہ یا مجتہد کا سابقہ نہ لگایا۔ فقط علامہ طالب جوہری کہلائے۔ ایک مرتبہ ایک مجلس میں راقم ناظمِ منبر کے فرائض ادا کر رہا تھا علامہ صاحب کو بلاتے ان کے تعارف میں زبان و بیان کا سہارا لیا اور کچھ القابات استعمال کیے۔ مفسّرِقرآن، منبر کی شان، مجالس کی آن، موجد مجالس بہ استدلال بالقرآن، خطیبِ مجلس شامِ غریباں وغیرہ وغیرہ جب علامہ رونق افروز منبر ہوئے تو خطبے کے بعد مجھ سے گویا ہوئے فرماتے
میاں، القاب تو تم نے خوب دیے لیکن یاد رکھو
جو بات نام میں ہے وہ لقب میں کہاں
جو بات علی میں ہے وہ امیر المومنین میں کہاں
اس لیے ہم جو ہیں بس وہی ٹھیک ہیں۔
فقط یہ کہنا تھا کہ لوگ تھے کہ دیوانہ وار داد دینے لگے۔ ایک جملے میں تاریخ بیان کر دی اور آلِ محمد ص کی پالیسی سمجھا دی۔ یہ تھے علامہ جن میں کردار تھا، انکساری تھی، علم تھا، طمع نہ تھی، شہرت کی حرص نہ تھی۔ جنہوں نے زندگی بھر یا عبادت کی یا پڑھا یا لکھا۔ رزق، عزت، شہرت خود ان کے قدموں میں کھنچی چلی آئی۔ خدا کی خوشنودی کے لیے آپ خود کو وقف کر دیں باقی چیزیں بنا مانگے ملتی ہیں۔
علامہ رشید ترابی ہوں یا علامہ طالب جوہری انہوں نے اپنی زندگیاں مذہبِ حقہ کی ترویج کے لیے وقف کر دیں۔ جب تک منبر رہے گا۔ جب تک اردو سمجھ سمجھی بولی جاتی رہے گی۔ ان کے نام زندہ و پائندہ رہیں گے۔ آنے والے ہر دور کے طلباء، علماء، خطباء، ادباء، فلاسفہ ان سے کسبِ فیض کرتے رہیں گے۔ آلِ محمد ص کا یہ فیضِ عام جاری و ساری رہے گا۔