22 May
22 مئی
22 مئی2011 کا سورج غروب ہو چکا تھا کہ یک دم اپنوں کے روپ میں گھسے دشمنوں نے مہران بیس پر حملہ کر دیا۔ جس وقت اس حملے سے خوفزدہ وہاں موجود سب جان بچانے کو بھاگ رہے تھے ادھر موجود لیفٹنٹ یاسر عباس نے فیصلہ کر لیا کہ میں میدان سے بھاگنے والوں کی اولاد نہیں ہوں۔ وہ دشمنوں کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن گیا۔ سینے پر راکٹ کھایا خود شہید ہو گیا مگر جب تک آرمی وہاں تک پہنچتی اس شیر نے دہشتگردوں کو اکیلے روکے رکھا اور بیس کو بچا کے علی ع کے نوکر ہونے کا حق ادا کر دیا۔
آج بھی ۲۲ مئی تھا۔ آج بھی کراچی پر سے قیامت گزر گئی۔ کہتے ہیں ہر شخص کی زندگی ایک مکمل کہانی ہوتی ہے۔ جس میں ماں باپ ہوتے ہیں شریک زندگی ہوتی ہے، بچے ہوتے ہیں پیار کرنے والے ہوتے ہیں۔ جہاز کریش، ۱۰۸ لاشیں، درجن سے ذیادہ مکانات تباہ۔ کریش ہونے سے سیکنڈز پہلے پائیلٹ کی صدائیں
مے ڈے، مے ڈے۔
وی ہیو لاسٹ آور انجنز سر۔
ان پائیلٹس کی ہمت کو سلام ہے جو زندگی کے آخری جملے بھی جوانمردی سے ادا کر رہے تھے، وہ بے چارے ان کرپٹ بے حس اداروں کے جہاز چلاتے ہیں جہاں جہازوں کی مرمت میں بھی گھپلے کیے جاتے ہیں۔
عید کے لیے لوگ گھروں کو جا رہے تھے۔ کیا کیا ارمان ہوں گے۔ ایک نوجوان زندگی کی پہلی مارچ پاسٹ کر کے والدین کے پاس لوٹ رہا تھا۔ ایک خاندان تین بیٹے والدین لاہور سے کراچی جا رہے تھا۔ جتنے لوگ اتنی کہانیاں۔
آنکھیں بار بار تر ہو رہی ہیں صبح سے۔ طبیعت بھاری ہے۔ میرے ساتھ کام کرتے بھارتیوں نے مجھے تعزیت کے میسج بھیجیے۔ اور ادھر ٹی وی پر خبر آئی ہے کہ پشاور سے مولوی عید کا اعلان کر رہا ہے۔
کیا عید منانے کا دل ہے کسی میں۔ میرے میں ہمت نہیں ۱۰۰ لاشوں کے اوپر نئے کپڑے پہن کر عید مبارک کہوں۔ اور ان مولویوں کو ان دنوں میں بھی اپنے فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے سے فرصت نہیں۔ دوسری سمت جہاز کریش کے بعد لوگ لاشوں پر سے سونا لوٹ رہے تھے۔ ہم بے حس ہو چکے ہیں۔ دھرتی پر بوجھ ہم لوگ۔ مردے کھاتے ہیں۔ اور بعد میں کافر کافر کھیلتے ہے۔
دل دکھی ہے، آنکھیں چھلک رہی ہیں، خدایا ہمیں معاف کر، اس دھرتی پر رحم فرما اور لواحقین کو صبر عطا فرما۔