Haan, Mujhe Khuda Pe Yaqeen Hai
ہاں! مجھے خدا پہ یقین ہے
کبھی کبھی اللہ کی ذات پر یقین ہونے میں اس کی ذات پر مکمل ایمان لانے میں اتنا وقت کیوں لگ جاتا ہے؟ آخر ہم باآسانی اپنے دل کو اس بات کے لئے آمادہ کیوں نہیں کر پاتے ہیں کہ اپنا ہر فیصلہ خدا کی رضا پر چھوڑ کر مطمئن ہو کر کہیں "ہاں! مجھے خدا پہ یقین ہے"۔ یہ بے سکونی، یہ بے چینی ہی ہمارے ایمان کی کمزوری کا سبب ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی اس حقیقت سے انجان نہیں اور نہ ہی جھٹلا سکتا ہے کہ زندگی ایک کٹھن امتحان کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ زندگی میں ایک ایسا لمحہ آجاتا، جب ہم سمجھ جاتے ہیں کہ اب ہم میں کوئی اور دکھ اور درد سہنے کی سکت باقی نہیں رہی۔ بس ہمت ہار جاتےہیں، جیسے ٹوٹ گئے ہوں، بکھر گئے ہوں اور بے پناہ بلک اٹھتے ہیں۔ درد کی شدت اس قدر بڑھ جاتی ہے، مگر پھر بھی چیخنے چلانے کی سکت، ہم میں باقی نہیں رہتی۔ یوں محسوس ہوتا جیسے تپتے صحرا میں، زندہ لاش کی طرح، بغیر دل میں کوئی چاۂ، کسی آسرے کی تمنا کیے بیٹھے ہوں۔
ہاں! ہرانسان کہیں نہ کہیں، زندگی کے کسی موڑ پر اس دشوار سفر سے گزر رہا ہے۔ اس مقصد کے ساتھ کہ وہ اس امتحان میں سرخرو ہو جائے اور اس پریشانی سے نجات حاصل کر سکے۔ اکثر اوقات زندگی کو اس نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ اس کا مقصد کبھی کسی امتحان سے سرخرو ہو جانا ہے تو کبھی کسی مسئلہ پر قابو پا لینے تک محدود ہے۔ جبکہ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ یہ مسائل کبھی بھی حل نہیں ہو پاتے۔ بس کچھ ہی لمحے میں یہ اکٹھا، طوفان کی صورت میں آکر انسان پر حاوی ہو جاتے ہیں اور پھر اچانک ان کا مٹ جانا۔ مگر یہ سلسلہ کبھی بھی رکتا نہیں ہے بلکہ جاری رہتا ہے اور کب تک؟ اس وقت تک جب تک انسان کی سانسیں ابھی باقی ہیں، جب تک جسم اور روح کا رشتہ ختم نہیں ہو جاتا۔
اور دکھ؟ میرا یہ ماننا ہے کہ زندگی میں کوئی بھی چیز اضافی نہیں ہوتی سوائے دکھ کے اور پھر کیا؟ پھر یہ کہ زندگی کے اس کٹھن سفر میں سکون کہیں کھو جاتا ہے۔ بلاشبہ یہ پریشانیاں، یہ مسائل تو زندگی کا حصہ ہوتی ہیں۔ مگر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کہ بعض اوقات وقت ہمیں ایسے امتحان میں ڈال دیتا ہے کہ ان زخموں کے بھرنے میں ایک عمر بیت جاتی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب رہے گا کہ جب انسان زندگی کے آخری مرحلے سے گزر رہا ہوتا ہے، سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں اور موت اس پر غالب ہو جاتی ہے تو پھر یہ دکھ اورغم قبر میں اس کے ساتھ ہی دفن ہو جاتے ہیں۔
آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہم خود کو سمیٹ ہی نہیں پاتے اور پھر ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں؟ کیوں زندگی کو صرف بوجھ سمجھ کر زندہ لاش کی صورت میں گزار دیتے ہیں؟ کیوں اس کم بخت دل کو اس بات پر ہی آمادہ نہیں کر پاتے کہ "ہاں! مجھے خدا پہ یقین ہے؟ "
اس دنیا میں ہوش سنبھالتے ہی ہم ایک خوبصورت زندگی بسر کرنے کے خواب دیکھتے ہیں مگر درحقیقت حالات اور آزمائش صرف ہمیں زندگی گزارنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ میں اکثر سوچتی ہوں کے ایک آئیڈیل زندگی گزارنے کے خواب ہم پھر بھی اپنے ساتھ لے کر چل رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہم ایمان اور یقین کے ساتھ اپنا ہر فیصلہ اللہ کی ذات پر چھوڑ نہیں پاتے کہ ہاں! مجھے خدا پہ یقین ہے۔
کیونکہ، یہ لوگ! جن کی آواز ہمارے کانوں میں گونج کر بار بار یہ بتلا رہی ہوتی ہے کہ بےوقوف! اپنی زندگی سے یہ خواہشات مٹا دو زندگی آسان ہو جائے گی۔ خوابوں کی دنیا میں رہنا صرف بے فیض ہے۔ ان کے طنزیہ قہقہے ہمارے کانوں میں گونج رہےہوتے ہیں کہ ایسی خواہشات لاحاصل ہیں۔ جو تمہارے ہاتھوں کی لکیروں میں ہے وہ ہی تمھارا مقدر ہے۔ کیا تم اپنے نصیب سے لڑ سکتے ہو؟ نہیں۔ مگر انسان سوچتا ہے کے کیا دعائیں تقدیر نہیں بدل سکتی؟ اور جب ایسا ہو تو انسان بے بسی کے ساتھ روتا ہے۔ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ آخر اتنا بے حس کیوں ہو جاتے ہیں کہ بجائے کسی کی امید بننے کے، ان کے دلوں کو کھلونا سمجھ کر کھیلتے ہیں؟ کیوں ان کا سرعام تماشا بنا دیتے ہیں؟
اور یہ بھی کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ انسان ہونے کے باوجود ہم عمر اور زندگی میں فرق سےہی لاعلم ہیں۔ عمر اپنوں کے بغیر بسر کی جاتی اور جو اپنوں میں چاہت اور محبت کے ساتھ گزرے اسے زندگی کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ہاں! اس میں کوئی شک نہیں، کچھ لوگ مقدر کا سکندر ہوتے ہیں وہ اپنی زندگی بھر پور طریقے سے بسر کرتے ہیں ایک سہانے خواب کی طرح اور کچھ لوگ؟ کچھ لوگوں کے لئے مشقت ان کے مقدر میں لکھ دی جاتی ہے۔
زندگی میں ہم مختلف قسم کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں اور کبھی ہم کسی رشتے کو خود سے زیادہ چاہنے لگتے ہیں جسے محبت کا نام دے دیا جاتا ہے۔ جو ہماری سوچ کے پیمانے کو خود بخود بدل دیتی ہے اور یوں ایک ہی انسان میں ہمیں اپنی پوری دنیا دکھائی دینے لگتی ہے۔ مگر یہ یکطرفہ اذیت کسی سزا سے کم نہیں ہوتی ہے۔ ایک ایسی اذیت جس کو بیان کرنے کے لیے الفاظ بھی ساتھ نہیں دے رہے ہوتے بس دل مسلسل یہ چاہ رہا ہوتا ہے کہ کوئی اس خاموشی کو سمجھ لے، سمیٹ لے، سنبھال لے۔
مگر ہم انسان بھی کتنے نادان ہوتے ہیں، بھلا! رب کے علاوہ کوئی اور اس خاموشی کو کیسے سمجھ سکتا ہے؟ ایک ایسا درد جو آواز بھی چھین لیتا ہے اور بجائے ایمان سے یہ کہیں کہ "ہاں! مجھے خدا پہ یقین ہے" ہم بے حس پتھردل لوگوں سے امید لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ آخر کیوں؟ اور پھر بجائے سکون کے لیے تلاوت سنیں موسیقی سن کر سکون تلاش کر رہے ہوتے ہیں جو کہ صرف اور صرف بدروحوں کی غذا ہے۔
ہاں!کسی کے چھوڑ جانے سے کبھی کوئی مرتا نہیں ہے مگر، جینے کی خواہش، ہمارا سکون، مسکراہٹ، ہمارے احساسات کچھ لوگ ہمیشہ کے لئے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں سے تعلق ختم کر دینا اور فیصلہ اللہ کے سپرد کر دینا بعض اوقات ضروری ہو جاتا ہے۔ جن لوگوں سے تعلق رشتہ جوڑنے کے لئے بار بار وضاحتیں، حوالے دینے پڑیں تو آخراس تعلق کا کیا فائدہ؟ ہاں!انا پرست ہونا پڑتا ہے، خود پر قابو پانا لازم ہو جاتا ہے۔ یہ جنگ خود سے اکیلے ہی لڑنی پڑتی ہےاور کیا یہ خوبصورت بات نہیں؟ جب انسان تھک ہار جاتا ہے تو اس کے دل سے آواز آتی "مایوس نہ ہو اللہ تو ہے نا"۔
کیا ہماری زندگی میں اچانک لوگوں کا آنا اس بات کی علامت نہیں کہ ہم اللہ کے قریب ہو جائیں؟ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان تعلق کو اور مضبوط کر سکیں؟ جب انسان کو ان سب باتوں کا علم ہو جائے اور اللہ سے محبت کر بیٹھے تو یہ فانی دنیا اس کے لئے بیکار ہوجاتی ہے۔ ندامت کے سجدے میں وہ اللہ سے گڑگڑا کڑگڑا کر دعائیں مانگتا ہے۔ بےشک! وہ دے کر بھی آزماتا ہے اور لے کر بھی آزماتا ہے اور پھر اپنے بندے کو اس کی چاہت سے بھی نواز دیتا ہے اور پھر کہتا ہے" بتا کون ہے تیرا میرے سوا" درد کی شدت آخری حد تک کیوں نہ چلی جائے، مگر سکون صرف سجدے میں ہی ملتا ہے۔
اے ناشکرے انسان! اپنے رب پر یقین رکھ، اپنا ہر فیصلہ ایمان کے ساتھ اللہ کے سپرد کر دے۔ بے شک! طوفانی اندھیری رات کے بعد صبح کا اجالا ضرور ہوتا ہے۔ اور ہاں! مکافات عمل ضرور ہوتا ہے جو لوگ دوسروں کو دکھ پہنچاتے ہیں، وقت پلٹ کر ان پر بھی آتا ہے۔ مگر صبر کا دامن تھام کر دشوار راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہر مشکلات کا حل صرف اللہ کی "کن" میں رکھا ہے۔ اور پھر ہر مشکل میں، مومن اپنا فیصلہ اللہ پر چھوڑ کر کہتا ہے کہ مجھے رب پہ یقین ہے۔"تو ہاں! پھر ہے ناں مجھے بھی اپنے خدا پہ یقین!! "