Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Summan Tariq
  4. Eman Aur Yaqeen Ka Safar

Eman Aur Yaqeen Ka Safar

ایمان اور یقین کا سفر

زندگی کیا ہے؟ زندگی کا معنی کیا ہے؟ انسان کی زندگی کیسے پرامن ہو سکتی ہے؟ آخر ایک پرسکون زندگی کے لیے کتنی جدوجہد درکار ہوتی ہے؟ یہ وہ چند سوالات ہیں جو انسان اکثراوقات خود سے پوچھتا ہے۔ لیکن ہر کوئی اپنے ذہن میں اس طرح کے سوالات لے کر نہیں آتا ہے۔ کیونکہ کچھ لوگ اس فانی دنیا میں، زندگی کی فانی آسائشوں میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ وہ لمحہ بھر کے لیے بھی نہیں سوچتے کہ ایک نہ ایک دن یہ سب کچھ فنا ہو جائےگا، کچھ ہی لمحے میں یہ سب کچھ صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔

مگر کچھ لوگ! کچھ لوگ مسلسل سکون کی تلاش میں رہتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو دنیاوی کاموں میں، یہاں تک کے خود کو دوسروں کے ساتھ گفتگو میں بھی جتنا مرضی مگن کیوں نہ کر لیں، مگر پھر بھی ایک عجیب سی کشمکش اور بے چینی وہ اپنے ساتھ لے کر، زندگی کے اس ان تھک سفر میں چل رہے ہوتے ہیں۔ جیسے ان کا اندر بہت کھوکھلا سا ہو چکا ہو۔ ہر خوشی ان کے لیے بے معنی ہوتی ہے۔

کبھی ایک طرف وہ کسی قیمتی انسان میں اپنا سکون تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، تو دوسری طرف وہ اس انسان کو کھونے سے ڈرتے ہیں۔ اس کی قسمت اسے ایک حیرت انگیز الجھن میں مبتلا کر دیتی ہے، جیسے حالات نے اسے عجیب و غریب دوراہے میں لا کر چھوڑ دیا ہو۔

کبھی کبھی چیزیں غلط ہوجاتی ہیں تجربات جو ہمارے قابو سے باہر ہوتے ہیں، چٹان کی طرح آکر ہم سے ٹکراتے ہیں۔ جو چیزیں ہم چاہتے ہیں کہ زندگی میں دوبارہ نہ ہوں، مگر وہ ہی پلٹ کر بار بار ہو رہی ہوتی ہیں۔ کبھی آپ کسی شخص سے گہری محبت کر بیٹھتے ہیں، انہیں اپنی ذات سے بھی زیادہ چاہنے لگتے ہیں، اپنی مستقبل کی زندگی ان کے ساتھ تصویر کشی کرنے کے سہانے خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں، لیکن دل کی گہرائیوں سےآپ جانتے ہو کہ ایسا تو ناممکن ہے۔ ارے! مگر یہ بھی کتنی خوبصورت بات ہےناں!، آپ کومعلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص آپ کے مقدر میں نہیں ہے، مگر پھر بھی محبت ہو گئی اس سے،شاید زندگی آپ کے ساتھ ایک انوکھا کھیل، کھیل رہی ہوتی ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو اس کھیل کا تماشا بننا پڑتا ہے۔ کتنی محنت کیوں نہ کرلے، اس دنیا کی سرگرمیوں میں چاہے کتنی بھاگم دوڑ کیوں نہ کر لے۔ مگر تھک ہار کر بھی، وہ لوگوں کے ہجوم میں خود کو تنہا محسوس کر رہا ہوتا ہے۔ ، جیسے اس کا دل و دماغ بیشتر پریشانیوں کی قید میں جکڑا ہوا ہو۔

یہاں تک کہ جب وہ رات کو سکون سے سونا چاہتا ہے، وہ لمحات جنہیں سکون کی گھڑی کے چند لمحات کہا جاتاہے، اس وقت بھی یہ بے چینی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی ہے۔ آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اندرونی تنازعہ کبھی بھی آپ کو سکون کے پل نصیب نہیں ہونے دے گا۔ ان لمحات میں آپ کے لئے یہ توقع کرنا مشکل ہو جاتی ہے کہ کیا زندگی دوبارہ کبھی معمول کی طرف آجائے گی؟

مگر یہ کیسے ممکن ہے، جب سب کچھ مسلسل ٹوٹ کر بکھررہا ہے۔ آپ سوچتے ہو کہ میں کسی کو کیسے بتاؤں کہ میرے ذہن میں آخر کیا چل رہا ہے جب میں خود کو ہی سمجھنے سے قاصر ہوں؟ کاش میں کسی کو اس کی وضاحت کر سکوں، لیکن یہ سب بے معنی ہے۔

مگر کیا کوئی ایک ایسا انسان بھی نہیں جو میرے درد کو سمجھ سکے؟ نہیں؟ مگر ایسا کیوں؟ مسلسل آنسو ان کا ساتھ دے رہے ہوتے ہیں۔ دل ہی دل میں وہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ یااللہ میں ہی کیوں؟ کیا میری زندگی میں پہلے پریشانیاں کم تھیں کہ اب ایک اور؟ میرے دل میں کسی چیز یا کسی ایسے شخص کے لئے خواہش یا چاہ کے شعلے کیوں بھڑکا دیےجب وہ میری ہاتھوں کی لکیروں میں ہی نہیں لکھا؟ بس انسان کی صرف عمر سفر کرتی ہے اور خواب تو وہاں ہی، ادھورے رہ جاتے ہیں۔

لیکن یقینا انہی حالات کے ذریعے ہی ہم امن کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ مگر بعض اوقات انسان کتنا بےبس ہو جاتا ہے کہ وہ سوتے ہوئے سسکیاں بھی نہیں لے سکتا، اس خوف سے کہ کہیں کوئی اسکی بے بسی والی ہچکیوں کا پردہ فاش نہ کر دے۔ بس مسلسل آنسوں اس کا ساتھ دے رہے ہوتے ہیں اور انہی آنسوؤں کے ساتھ، نیند اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔

مگر اللہ تو ہر اس آنسوں کا حساب رکھتا ہے، جو درد میں شدت کی وجہ سے آپ کے آنکھوں سے نکلے۔ اور پھر؟ پھر کیا سکون مل جاتا ہے؟ ارے نہیں نادان انسان، بھلا سکون بھی اتنی آسانی سے کسی کو ملا ہے کبھی۔ اگلے دن آنکھ کھلتے ہی پھر وہ ہی زندگی کی روٹین شروع ہو جاتی ہے، لوگوں کی بھیڑ میں سکون کی تلاش۔

مگر معلوم ہے؟ ارے تمھیں کہاں معلوم ہو گا۔ بھلا میں بھی کس سے پوچھ رہی ہوں۔ ایک ایسے انسان سے جو اس فانی دنیا کی دوڑ میں اس قدر کھو چکا ہے کہ وہ اپنے نفس کو پہچاننے سے ہی قاصر ہے کہ آخر کون ہے وہ؟ اس کی پہچان کیا ہے؟

پھر تھک ہار کر جب انسان کو سکون نہیں ملتا تو انسان اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے کہ اللہ مجھے سکون چاہیئے۔ رات کے پہر، وہ سجدوں میں عاجزی کے ساتھ اللہ کے سامنے گڑگڑا رہا ہوتا ہے۔ اس کو کسی چیز کا بھی ڈر اور خوف نہیں ہوتا ہے کیونکہ وہ باخوبی واقف ہوتا ہے کہ جس کیفیت میں وہ مبتلا ہے صرف اللہ کو پتہ ہے اور وہ ہی اس کے درد کو سمجھ سکتا ہے۔ وہ اس کے درد کو چھپا لے گا اور اس کو سمیٹ لے گا۔

اور پھر انسان کو سکون مل جاتا ہے، جس کی وہ تلاش میں ہوتا ہے۔ وہ اپنے سارے فیصلے اللہ کے سپرد کر کے مطمئن ہو جاتا ہے، صبرکا دامن تھام لیتا ہے۔ اور اس طرح انسان کے ایمان اور یقین کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔

Check Also

Khyber Pakhtunkhwa Ka Jahannam

By Najam Wali Khan