Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sultan Ahmed
  4. Victim Or Victor

Victim Or Victor

وکٹم یا وکٹر

کیا آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ کو کہیں پہنچنے کی جلدی ہو اور حالات آپ کے موافق نہ ہوں مثلا آپ کو کسی تقریب میں پہنچنا ہو اور ٹریفک بہت زیادہ یا پھر آپ کی گاڑی کا پٹرول ختم ہو جائے۔ اور آپکو ایسا محسوس ہونے لگے کوئی ان دیکھی قوت آپکو روکنا چاہتی ہے۔ یا آپ کسی کام میں مگن ہیں اور تمام تر صلاحیتوں کے باوجود وہ کام کرنے سے قاصر ہیں اور حالات ایسے پیدا ہو جاتے ہیں کہ آپ اس کام کی تکمیل نہیں کر پاتے۔

اگر ایسا آپ کی زندگی میں اکثر ہوتا ہے تو یقینا آپ victim ہیں۔ دوسری طرف آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا ہو کے حالات آپ کے مطابق نہ ہوں مگر پھر بھی آپ کا کام بن جائے اور کوئی ان دیکھی طاقت آپ کو کھینچ کر اس مقام پر لے جائے جہاں تک جانا چاہتے ہیں۔ اس دوسری صورت میں آپ victor ہیں۔

دونوں میں ایک سادہ سا فرق ہے۔ victim کو لگتا ہے جیسے چیزیں ان کے ساتھ جان بوجھ کر ہوتی ہیں، کہ ان پر بہت کم یا اس سے بھی کوئی کنٹرول نہیں ہے، اور یہ کہ ہمیشہ ہر کسی کی غلطی ہوتی ہے۔

وکٹر کو لگتا ہے کہ وہ کوئی مہارت یا رویہ استعمال کر سکتے ہیں جو ان کی پوزیشن کو بہتر بنائے گا۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہیں اور ان کے ذمہ دار ہیں، اور یہ کہ وہ اپنی زندگی میں آنے والی مشکلات سے بچنے یا ان کا انتظام کرنے کے لیے مختلف قسم کے اقدامات کر سکتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں دنیا بھر میں بہت سے لوگ "مظلوم ہونے" کے فن میں ماہر ہو گئے ہیں۔ شکار یا فاتح کی ذہنیت کے انتخاب کے درمیان تنازعہ یہ ہے کہ کوئی شخص کس طرح زندگی گزارنے کا انتخاب کرتا ہے۔

منا بھائی ایم بی بی ایس فلم تو ہم سب نے دیکھ رکھی ہے۔ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو کہ یہ فلم ایک حقیقی کردار سے ماخوذ ہے۔ اس سے قبل ہالی ووڈ 90 کی دہائی میں پیچ ایڈم کے نام سے ایک فلم بنا چکا ہے جو ڈاکٹر پیچ ایڈم کی زندگی کی حقیقی کہانی ہے۔ ڈاکٹر بننے سے قبل ہنٹر ڈورتھی "پیچ" ایڈمز نامی شخص حالات کے جبر کا شکار ہو کر بہت تنگ دستی اور مشکلات بھری زندگی سے تنگ آ کر تین بار خود کشی کی کوشش کر چکا تھا۔ جب چوتھی بار اس نے آخر کار مرنے کا فیصلہ کیا تو اسے خیال آیا کیوں نہ اس بار میں مرنے سے قبل کچھ مثبت کرنے کی کوشش کروں، مرنے کا آپشن تو ہر وقت دستیاب ہے۔

یاد رہے کہ خودکشی کرنے والے شخص کے اندر بے پناہ توانائی، عزم اور حوصلہ جمع ہو جاتا ہے اور یہ تینوں قوتیں انسان کو عروج تک جا سکتی ہیں لہذا ہنٹر ایڈمز نے پڑھائی مکمل کر کے ڈاکٹر بننے کا فیصلہ کیا اور وہ ڈاکٹر بن گیا۔ اب اس کے سامنے یہ سوال آیا کہ دنیا میں بے شمار ڈاکٹرز ہیں اس لیے مجھے کچھ نیا کرنا چاہیے۔ اب وہ جب بھی اسپتال جاتا تو جو کر کا روپ دھار کے جاتا اور مریضوں کی دلجوئی کرتا، انہیں ہنساتا، کھلاتا اور ان کی زندگی کی آخری سانسوں میں خوشیاں بھر دیتا۔

یہاں یہ بات بھی کافی دلچسپی کی حامل ہے کہ "پیچ" ہنٹر ایڈمز کے نام کا حصہ نہیں مگر پھر بھی وہ اس کے نام کے ساتھ لگتا ہے۔ دراصل جب اس نے تین مرتبہ خودکشی کی ناکام کوشش کی تو اسے پاگل سمجھ کر پاگل خانے میں داخل کروا دیا گیا۔ وہاں اس نے ایک دوسرے پاگل کے کافی کے مگ میں سوراخ دیکھ کر اس پر چھوٹا سا پیچ لگا دیا جس سے کافی کی لیکیج ختم ہوگی۔ یوں وہ پیچ ایڈمنز کے نام سے مشہور ہو گیا اور آج حقیقی زندگی میں وہ لوگوں کی زندگی میں پیچز لگا کر انہیں راحت و سکون پہنچانے کی کوششیں کر رہا ہے۔

ڈاکٹر پیچ ایڈمز کی زندگی وکٹم سے شروع ہوکر وکٹر تک پہنچ گئی۔ ایک اور حیرت انگیز کہانی جو اس فلم سے جڑی ہے وہ یہ کہ اس میں مرکزی کردار ادا کرنے والے ہالی وڈ کے مشہور آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار ولیم روبنز میں اس فلم میں ڈاکٹر پیچ ایڈمنز کا مرکزی کردار ادا کیا اور اپنی شاندار اداکاری سے سب کے دل جیت لئے مگر حقیقی زندگی میں اسی ولیم رابنز نے حالات سے تنگ آکر خودکشی کی۔ یو ولیم رابنز وکٹر سے وکٹم کی طرف سفر کر گئے۔

ڈاکٹر پیچ ایڈمز کی کہانی چونکہ کافی فلمی تھی تو ہالی ووڈ نے اس کی زندگی پر پیچ ایڈمز کے نام سے فلم بنائی۔ یہی فلم بعدازاں بالی وڈ نے منا بھائی ایم بی بی ایس کی شکل میں اپنا مصالحہ ڈال کر کاپی کرلی۔ ڈاکٹر پیچ ایڈمز آج بھی لوگوں کو ہنسانے ان کا علاج کرنے اور غالبا جادو کی جپھی دینے میں مصروف عمل ہیں۔ انہوں نے ایک اورگنائزیشن کھیل gesundheit کے نام سے بنا رکھی ہے جہاں ناصرف مریضوں کا علاج بلکہ انصافی اور عدم تشدد جیسے مسائل کا صد باب کیا جاتا ہے۔

امریکی مصنف اور موٹیویشنل اسپیکر زیگ زیگلر کا کہنا ہے کہ "آپ کا رویہ آپ کی اونچائی کا تعین کرتا ہے۔ شکار (victim) کی داستان وہ ہے جو فوری مفروضوں کو کھینچتی ہے اور بدترین تصور کرتی ہے۔ یہ ذہنیت ہم سب کو درپیش چیلنجوں سے آگے بڑھنے کی بہت کم گنجائش چھوڑتی ہے، اور دنیا کا سامنا کرنے کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالتی ہے۔

وکٹر ذہنیت کا خیال ہے کہ آپ اپنی زندگی پر قابو رکھتے ہیں اور چیلنجوں کا خیرمقدم کرتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ ان پر سخت محنت سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ اپنے آپ کو زندگی میں ایک فاتح کے طور پر دیکھنا اعتماد اور کامیابی کا باعث بنتا ہے۔ ایک شکار شکایت کرتا ہے کہ زندگی غیر منصفانہ ہے جبکہ ایک فاتح تسلیم کرتا ہے کہ زندگی ہر ایک کے ساتھ غیر منصفانہ ہے۔ فیصلہ آپ پر ہے کہ آپ اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں اور اس میں آنے والی اونچی نیچی لہروں کا کس طرح سامنا کرتے ہیں۔

Check Also

Falasteenion Ko Taleem Bacha Rahi Hai (2)

By Wusat Ullah Khan