School Ka Mustaqbil
سکول کا مستقبل
ہم 2024 میں داخل ہو چکے ہیں اور ہر سال کی طرح اس برس بھی پرانے وعدے، پرانی قسمیں اور پرانے عزم نئے انداز اور نئی ترنگ کے ساتھ کیے گئے کہ شاید اس برس کچھ انوکھا ہوگا، کچھ تو نیا ہوگا اور کچھ نہیں تو ایک آس اور امید تو ہمیشہ نئے سال سے رہتی ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک بدلتے سال میں اپنی اپنی حالتیں بدلنے کی دھن میں لگے ہیں۔
دنیا کے نقشے پر موجود جتنے بھی ممالک پر نظر ڈالی جائے، تمام ہی اپنے لوگوں کو ایک بہتر طرز زندگی دینے میں مصروف عمل نظر آتے ہیں۔ یقینا مملکت خداداد بھی صرف مسائل کا گڑھ نہیں ہے، یہاں بھی بہت کچھ اچھا ہو رہا ہے یا کم از کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ابھی تک ہم کسی بھی شعبے میں بہت بڑی اصلاحات تو نہ لا سکے مگر کچھوے کی چال ہی کی مانند سفر جاری و ساری ہے۔
آج ہم دنیا کے بدلتے ہوئے تعلیمی نظام اور بالخصوص اسکول کے مستقبل سے جڑے چند دلچسپ حقائق پیش کریں گے۔ اسکول کسی بھی بچے کے لیے ماں کی گود کے بعد ایک ایسی جگہ ہے جہاں سے بچہ سوچنا اور آگے بڑھنے کا سفر شروع کرتا ہے۔ یہ وہ درخت ہے جس کا پھل وہ ساری زندگی کھاتا ہے اور اگر وہ یہ درخت نہ لگا سکے تو اس کا پچھتاوا بھی زندگی بھر کا روگ بن جاتا ہے۔
دنیا بھر میں 16 اسکول، نظام اور اقدامات اگلی نسل کو بدلتی ہوئی دنیا کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ جدید ترین ادارے اور ان کا تربیتی انداز کلاس روم کے روایتی انداز کو کھلا چیلنج دے رہے ہیں۔ آج کی دنیا ترقی کے سر پٹ دوڑتے سفر میں چوتھے صنعتی انقلاب کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ جس تیزی سے ٹیکنالوجی پھیل رہی ہے، طلباء کو اس وقت چوتھے صنعتی انقلاب کے لیے ضروری ڈیجیٹل مہارتیں فراہم کرنا ضروری ہے۔
نئی نسل کو تیزی سے بدلتے ہوئے روزگار کے منظر نامے کے لیے تیار کرنے میں مدد کرنے کے لیے دنیا بھر میں نئے اسکول اور تدریس کے بارے میں نئے خیالات جنم لے رہے ہیں۔ موجودہ دور کے اساتذہ اور دیگر متعلقہ حکام کو نہ صرف تدریسی اور تعلیمی طریقوں پر نظر ثانی کی بہت ضرورت ہے بلکہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز، AI اور ڈیٹا کے ذریعے تبدیلی کی تیز رفتاری کی بلٹ ٹرین بھی پکڑنی ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ تعلیم اور تعلیم کے موجودہ ماڈلز اب بھی ان طریقوں پر مضبوطی سے چمٹے ہوئے ہیں جو تقریباً 200 سال یا اس سے زیادہ عرصے سے چل رہے ہیں۔
دنیا تعلیم تک رسائی میں بری طرح ناکام ہو رہی ہے۔ چوتھے صنعتی انقلاب کے لیے تعلیم کے نئے ماڈلز کی تعریف کرتے ہوئے، ورلڈ اکنامک فورم ایک رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ تعلیم اور تعلیمی نظام کو کس طرح تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں آٹھ "سیکھنے کے مواد اور تجربات میں اہم خصوصیات" کی نشاندہی کی گئی ہے اور دنیا بھر کے 16 اسکولوں، نظاموں اور اقدامات پر روشنی ڈالی گئی ہے جو اس راہ پر گامزن ہیں۔ ان میں سے چند کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے جو اس نئے دور کے تقاضوں کے مطابق ہیں۔ اسے ایجوکیشن 4.0 کا نام دیا گیا ہے۔
چین میں بچوں کا کھیل
اینجی پلے 2002 میں چین کے صوبہ زی جیانگ میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ ابتدائی بچپن کے نصاب کی پیروی کرتا ہے جو مکمل طور پر بچوں کی زیرقیادت کھیل کے ذریعے سیکھنے کو فروغ دیتا ہے۔ اینجی پلے پانچ باہم مربوط اصولوں پر مبنی ہے: محبت، خطرہ، خوشی، مشغولیت، اور عکاسی، اور بچے کی قابلیت پر بنیادی یقین۔ اس کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ کوئی بھی ترتیب یا جگہ سیکھنے کا ماحول بن سکتی ہے، اسکول یا کلاس روم کی چار دیواری یا کمرہ ہرگز ضروری نہیں۔
اینجی پلے میں سیڑھی، بالٹیاں اور چڑھنے والے کیوبز جیسے آلات کا استعمال کرتے ہوئے آوٹ ڈور کھیلوں کے لیے ہر روز کم از کم 90 منٹ مختص کیے جاتے ہیں۔ ماڈل کی کامیابی کی کلید یہ ہے کہ یہ کم سے کم لاگت والی اشیاء کا استعمال کرتا ہے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ یہ کم آمدنی والے خاندانوں کے لیے قابل رسائی ہے۔
ابتدائی طور پر، ژی جیانگ میں 14,000 بچوں کا اندراج کیا گیا۔ اس کے بعد سے یہ چین کے 34 سے زیادہ صوبوں کے 100 سے زیادہ سرکاری اسکولوں میں پھیل چکا ہے۔ اب انجی پلے کے پائلٹ پروجیکٹس امریکہ، یورپ اور افریقہ میں بھی ہیں۔
فن لینڈ اپنے تعلیمی نظام کے معیار کے لحاظ سے پوری دنیا میں اعلیٰ مقام پر ہے، جس کا شمار دنیا کے بہترین نظاموں میں ہوتا ہے۔
1958 میں قائم کیا گیا، جنوبی ٹیپیولا ہائی اسکول ملک کے بہترین اسکولوں میں سے ایک ہے۔ فن لینڈ کے قومی نصاب کی پیروی کرنے کے ساتھ ساتھ یہ انٹرپرینیورشپ، فعال شہریت اور حقیقی دنیا کی ایپلی کیشنز کے ساتھ سماجی بیداری کے ذریعے تدریسی تعاون پر خصوصی توجہ مرکوز کرتا ہے۔ اسکول کا ینگ انٹرپرینیورشپ پروگرام طلباء کو گروپس میں کام کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اپنا کاروبار بنائیں، پھر قومی مقابلوں میں اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ ذرا تصور کریں، یہ اسکول کا ماڈل بچوں کو کاروباری اور مستقبل کے لیڈر بنانے کی پہلی سیڑھی کا کام سرانجام دے رہا ہے۔
مستقبل کے سبز لیڈروں کی تشکیل گرین اسکول میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، جو 2008 میں بالی میں کھولا گیا تھا۔ اس کی انتہائی انوکھی طلبہ تنظیم 800 سٹوڈنٹس پر مشتمل ہے جن کی عمریں 3 سے 18 سال کے درمیان ہیں۔ اسکول کا یہ ماڈل 2021 میں نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ اور میکسیکو میں کاپی کیا جا چکا ہے۔
ایک پائیدار اسکول کے ماحول کو برقرار رکھنا اس اسکول کی اہم سرگرمیوں میں سے ایک ہے، اور 2017-2018 کے تعلیمی سال میں طلباء نے ہر ماہ 150 کلوگرام سے زیادہ خوراک پیدا کی۔ مطلب اس سکول کے بچے حقیقی زرعی پیداوار کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔ 2018 میں اس نے سنگا پور کے سب سے بڑے صاف توانائی فراہم کرنے والے ادارے Sunseap کے ساتھ مل کر اسکول کو بجلی اور دیگر سہولیات میں خود مختار ہونے کے لیے مدد بھی فراہم کی۔
بیلجیئم کے ایک استاد، سماجی کارکن اور کاروباری شخصیت کوین ٹیمرز نے کینیا میں اپنی نوعیت کا انوکھا اور دلچسپ تعلیمی نظام تشکیل دیا۔ ذرا سوچیں افریقہ جیسے غربت زدہ براعظم کہ ملک کینیا کے دور افتادہ پناہ گزین کیمپ میں جہاں خوراک اور صحت کہ شدید مسائل ہیں وہاں بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی خاطر ایک یورپین شخص نے محض محدود وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا تعلیمی نظام بنا ڈالا جس سے اس وقت چھ براعظموں کے اساتذہ منسلک ہیں۔
اس نے کینیا کے کاکوما پناہ گزین کیمپ میں ایک آؤٹ ریچ ورکرکے ساتھ مل کر ایک کراؤڈ فنڈنگ مہم شروع کی۔ اس نے پناہ گزین بچوں کے ساتھ رضاکار اساتذہ کو جوڑنے کے لیے 20 سے زیادہ لیپ ٹاپ فراہم کیے جس میں اس کا ذاتی لیپ ٹاپ بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ سولر پینل اور انٹرنیٹ کا سامان بھی کیمپ میں پہنچایا۔ اب چھ براعظموں میں 350 اساتذہ کیمپ میں بچوں کو انگریزی، ریاضی اور سائنس کے کورسز پڑھا رہے ہیں۔ کاکوما ماڈل اب انوویشن لیب اسکولوں کے نیٹ ورک کے ذریعے تنزانیہ، یوگنڈا، نائیجیریا، مراکش، ارجنٹائن، جنوبی افریقہ، برازیل اور آرکٹک کینیڈا تک پھیل رہا ہے۔
دنیا یقینا تیزی سے بدل رہی ہے اور اس دنیا کے چلنے کا رنگ اور ڈھنگ بھی۔ بہت سے معاملات اور شعبوں کے روایتی طور طریقے بھی اپنی چال ڈھال بدل رہے ہیں، ہمارے ملک میں بھی ٹیچرز کی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ اسی طرح دیگر شعبوں کے پیشہ ور افراد کی بھی کمی نہیں۔ کیا ہم کوئی ایسا ماڈل کاپی نہیں کر سکتے؟ کیا ہم کینیا کے پناہ گزین کیمپ سے بھی گئے گزرے ہیں کے شہروں اور دیہاتوں میں بسنے والے بچوں کو تعلیم جیسے بنیادی حق تک رسائی نہ دلا سکیں؟ ہم تعلیم کو تو نہیں بدل پا رہے کم از کم تعلیمی نظام ہی بدل کر دیکھ لیں۔