Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sondas Jameel
  4. The Man From Earth

The Man From Earth

دی مین فرام ارتھ

بند کمرے کی پرسکون فضا میں ہیٹر کی گرمائش کے گرد گھیرا بنائے چھ لوگ موجود ہیں، جو اپنے کولیگ جان اولڈمین کو الوداع کہنے آئے ہیں۔ جان جاب چھوڑ کر جارہا ہے۔ یہ ایک نارمل الوداعی بیٹھک ہے مگر اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں موجود یہ چھ لوگ مختلف شعبہ جات میں ایکسپرٹ ہیں جس میں بایولوجسٹ، انتھراپالوجسٹ، آرٹ، سائیکالوجی اور ہسٹری پروفیسر شامل ہیں۔

یہ نہیں جانتے کہ آج کی یہ شام جس رات میں ڈھلنے جارہی ہے وہ اپنے دامن میں کس قدر سنگین حیرانی لیے ہوئے ہے جو ان کی زندگیوں کا ناقابل یقین تجربہ بن کر مستقل رہنے والی ہے۔

پروفیسر اولڈمین کے رختِ سفر میں وان گوگ کی ایک نایاب پینٹنگ پر ایک پروفیسر کے متششک سوال اٹھانے سے شروع ہونے والا مکالمہ دھچکوں بھرے ٹریک پر تب اترتا ہے جب اولڈمین ان چھ پروفیسرز پر اپنی حقیقت عیاں کرنا شروع کرتا ہے۔

پروفیسر جان اولڈمین کہتا ہے کہ وہ چودہ ہزار سال سے اس زمین پر جی رہا ہے، وہ موت سے ماورا ایک انسان ہے جس کے جسم پر ہوا پانی اور خوراک میں موجود منفی کثافتوں کا اثر نہیں ہوا۔ جس کی بچپن کی ابتدائی یاداشتوں میں ڈرے سہمے انسانوں کے ساتھ غار میں پینٹنگ بنانے اور آگ کی دریافت سے آگ پر قابو پانے جیسے واقعات نقش ہیں۔

جس کی جوانی نے آئس ایج میں زمین پر برف کی چادر بچھتے اور پگھلنے کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا، جس نے دریاؤں کے دہانوں پہ پنپتی تہذیبوں کی پیدائش اور موت دیکھی اور پھر انہیں قدیم حوالہ کہتے سنا۔ جس نے ان گنت تہذیبوں میں رائج بے شمار زبانیں سیکھیں، جس نے چاروں سمت میں میلوں سفر کیے، لاکھوں لوگوں سے ملا۔ جس نے مصر سے بابل یونان سے روم کے قدیم ادواروں میں مختلف پیشے اپنائے۔

وہ بدھا کے ساتھ رہا، کولمبس کے جہاز میں گھوما۔ اس نے پودوں اور جانوروں کو ارتقائی ادوار سے گزرتا دیکھا، طاعون دیکھے قحط جھیلے غیر معمولی طور پر گھاؤ اور بیماری سہنے کی قوت مدافعت سے بھرے اس کے جسم نے چودہ ہزار سال پہ محیط قدیم اور جدید بیماریوں کا ذائقہ چکھا مگر موت کو نہیں چھوا۔

کمرے کی آب وہ ہوا میں پروفیسر اولڈمین تناؤ، حیرانی بے یقینی، دہشت اور سوالات کا غبار بھر چکا تھا۔ اپنی اپنی حیرانیوں سے بھرے پروفیسرز جن کی جانب سے سوالات اور شکوک و شبہات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔

چونکہ کمرے میں موجود سب لوگ انٹلکچولی اور علمی سطح پر اپنے اپنے شعبوں میں ماہر ہیں تو ان کے سوالات کی صحت دیدنی ہے۔ وہ سائنس مذہب تاریخ آرٹ اور فلسفہ پر گرفت رکھتے ہیں وہ اپنے سوالات میں ہر ممکن گہرائی اور باریکی پیدا کرکے پروفیسر اولڈمین کے اس دعوے کے بخیے ادھیڑنے اور اپنی حیرت کو ٹھکانے لگانے کے لیے کوششیں کرتے ہیں۔

تحمل سے لبریز پروفیسر اولڈمین کا لب و لہجہ ہر سوال کے جواب میں صدیوں کے فہم کو لاجک میں گھول کر یوں بیان کرتا ہے کہ ایمان صادق ہونے لگتا ہے کہ بقول شاعر یہی وہ لہجہ ہے جس نے کئی مزاجوں کے دشت دیکھے کئی رویوں کی خاک چھانی۔

یقین کی جڑیں جتنی بھی گہرائی میں پھیل جائیں شک کی مہین سی ہوا انہیں چھو لے تو ایمان کے قد آور درخت گر جاتے ہیں اجتماعی قبولیت پہ انفرادی تحقیق، تنقید اور ناقابل تردید انکار کس بے رحمی سے حملہ آور ہوتا ہے اس سب کا بیک وقت مشاہدہ پروفیسر ایڈتھ کے کردار میں ملتا ہے۔ پروفیسر ایڈتھ سخت قسم کی عیسائی خاتون ہے۔ اولڈمین عیسائیت کی حقیقت کھول کر رکھتا ہے تو اس خاتون کے وجود سے پینسٹھ سالہ ایمان کی رخصتی آنکھوں میں نمی بن کر تیرنے لگتی ہے، یہ سین فلم کا کلیجہ ہے۔

فلسفے کی بحث کو باریکی کے تقاضوں کے ساتھ فلم جیسے میڈیم میں کیسے اتارا جاتا ہے یہ فلم اس چیز کا ثبوت ہے فلم عملی طور پر دکھاتی ہے کہ کسی بھی چیز کا دعوہ کرنے والے کے کاندھوں پہ ثبوت کا وزن گرتا ہے اور ذہن کو متوقع رد اور تنقید جیسے مراحل سے گزارنے کے لیے پیش کرکے ثبوت صرف اسی کو پیش کرنے ہوتے ہیں۔

اسٹار ٹریک کی ایک قسط لکھتے ہوئے جیروم بکسبی کے تخیل میں اترے اس کردار کو بکسبی نے 1998 میں اپنے بستر مرگ پر مکمل کیا جسے اسکی وفات کے بعد 2007 میں فلم کی صورت میں پیش کیا گیا۔ ایک کمرے میں سوالات سے بھری اس بھاری فلم میں ڈسکشن ہے لمبے مکالمے ہیں تاریخ کی گتھیاں ہیں مذاہب پر بحث ہے اور اختتام میں چونکا دینے والا ٹوسٹ جو شاید اس فلم کو متنازع بھی بنا دیتا ہے۔

بند کمرے میں فلمائی اسّی منٹ کی یہ فلم خدا، مخلوق تہذیب فنون اور نجانے کس کس زمانے کو چھو کر نکلتی ہے اور کسی بھی حتمی فیصلے سے بےنیاز اپنا مدعا رکھ کر انجام پذیر ہوجاتی ہے۔

اختتام کے بعد بھی فلم ہفتوں دماغ میں چلتی ہے۔

Check Also

Netherlands

By Zaigham Qadeer