Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sondas Jameel
  4. Pasand Aur Kamyabi Ke Parameters

Pasand Aur Kamyabi Ke Parameters

پسند اور کامیابی کے پیرامیٹرز

قد چھوٹا، گھر چھوٹا، رنگ سانولا، وزن کم وزن زیادہ، بے ترتیب دانت، گنج پن، نمازوں اور اثاثوں کی کمی وغیرہ جیسے نقص کی نشاندھی سے اپنی ذات یا کسی دوسرے کی ذات کو بچانا ہے تو اپنے ہم سفر چُننے کا فیصلہ ماؤں کے سپرد مت کیجیے۔

خود کوشش کیجیے اور کوشش میں رائج حسن، ذہانت، کامیابی کے پیرامیٹرز کی لالٹین سے وہ تلاش مت کریں جس کے ساتھ اپنی کمیاں خوبیاں دکھ اور خوشیاں ساری زندگی سانجھی کرنی ہے۔

حسن ڈھل جاتا ہے، کیا ڈھلتا حسن دیکھنا برداشت کر سکتے ہیں؟ عہدے چھن جاتے ہیں، کیا بغیر عہدے کے کسی کے پہلو میں رہنا پسند کرسکتے ہیں؟

اگر جواب ہاں میں ہے اور یہ وقتی پیرامیٹرز فوری پورے چاہیے تو آن ڈیمانڈ رشتے کا اشتہار نکلوا دیجیے، ایڈ دیں، کمپین چلائیں، رشتہ سنٹروں کے چکر لگائیں سر توڑ کوشش کریں کہ یہ خوبیاں جس میں ہوں اسی سے رشتہ کریں کیونکہ یہ خواہش انسانی ہے کہ ٹلے نہیں ٹلتی۔

کتابیں جو بھی کہتی ہوں ذہین دماغ کے بارے میں مگر حسن سب سے پہلی شرط ہے شادی کے لیے، حسین چہرے کی خواہش کس انسان نے نہیں کی؟ عامیانہ سے عامیانہ خدوخال رکھنے والا دل بھی پہلو میں شربتی بدن کو صبح شام لیٹا دیکھنا چاہتا ہے، اور پھر ایسے بدن کہ توہین اور بے قدری کی خواہش بھی پوری چاہتا ہے۔ انسانی خواہش کی نفسیات، فینٹسی کی لتھڑی تہوں کو سمجھنے میں کئی فرائڈ پاگل ہوئے مگر یہ ابھی تک معمہ ہے۔

کوئی شے دیرپا انسان کو متاثر نہیں رکھ سکتی یہاں تک کہ ذہانت بھی نہیں، اموشنل انٹیلیجنس، انٹلکچول ذہن بھی نہیں مگر دل سے اترنے کا سب سے کم ترین دورانیہ حسن کا ہے۔

دنیا کی بیشتر حسین عورتوں اور مردوں کو طلاق ہوئی ہے اور طلاق بھی ہاتھا پائی والی جس میں"بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم" والے آداب ترکِ تعلق کا کوئی لحاظ نہ رکھا گیا، جی بھر بھر کے ایک دوسرے کے حسن، عادات و خصائل کی توہین کی گئی ان گنت مثالوں میں سے کیس اسٹڈی کے طور پر خوبرو جونی ڈیپ اور حسن کی ایوارڈ یافتہ امبر ہرڈ سامنے موجود ہیں۔ آپ کیسی بھی غیر ملکی اعلی تہذیب کے علم بردار ہوں علیحدگی میں بدتہذیبی عین فطری ہے۔

بات ساری زندگی کے لیے ساتھی چننے کی ہورہی تھی، اس متعلق فیصلہ سازی کے لیے رائج پیرامیٹرز کی ہو رہی تھی، اپنا یہ فیصلہ ماؤں اور بہن بھائیوں پر چھوڑنے کی ہو رہی تھی ہمارا معاشرہ ایسا ہے کہ جہاں پارٹنر خود تلاش کرنے کی آب و ہوا حبس زدہ ہے، مذہبی ذہن کو مذہبی ذہن مل جاتے، سفید چہروں کے خواہشمندوں کو سفید چہرے باآسانی مل جاتے، کتابی طبیعت کو کتابی طبیعت ملنا مشکل، کافروں اور انکاریوں کو انکاری پارٹنر ملنا تو بلیک ھول میں چاندی کا چمچ ملنے جتنی غیر پریکٹیکل بات ہے۔

کچھ لوگ جیب میں اینچی ٹیپ لیے اس طرح محبت ڈھونڈتے ہیں کہ ان کی آنکھ میں قلوپطرہ کے حسن کی ضد ہوتی، چال میں کسی بالی وڈ ہیروئن کی ریمپ واک ہوتی، باتوں میں شہد کے چھتے کا گمان اور پرس میں ہر بنک کے اے ٹی ایم کار کے ملنے کی شرط ہوتی۔

اپنی شرطوں پہ زمینی پلاٹ پسند کیے جاتے، کپڑے سلوائے جاتے، جوتے لیے جاتے بال کٹوائے جاتے اپنی شرطوں پر محبت نہیں ڈھونڈی جاتی، مگر لوگ ڈھونڈتے ہیں مل بھی جاتی ہوگی دنیا اتنی بڑی ہے، لوگ اتنے زیادہ ہیں مگر اخیر میں سوال یہی کہ دیرپا چلنے کی یا چند سال ہی ٹک جانے کی کیا گارنٹی ہے؟ واپسی کی ڈیمانڈ تو یہاں ممکن ہی نہیں کلیم کس سے کرنا ہوتا آخر میں پھر بلیم بچتا جو کہیں نہ کہیں ماؤں کو دل ہی دل میں کیا جاتا۔

اگر کوئی باہمی ذہنی فریکوئنسی والا مل نہیں رہا، داؤ پڑ نہیں رہا تو شادی کی اس تاش میں اپنے پتے بچا کے رکھنے میں بھی حرج نہیں، مگر بازی نہ کھیلنے کے پچھتاوے کی کسک کسی نہ کسی عمر میں جکڑنے کو بھی تیار ہے ایسے میں کیا کیا جائے کہ اپنے تئیں کوشش کی جائے کہ بازی خود کھیلی جائے، چال چل لی جائے مگر چلنے سے پہلے دماغ کو فیصلے میں تھکایا جائے، سجے ہوئے مشوروں کے بوفے سے ڈھیر سارا نہ اٹھا کے کھایا جائے، آپ اس دنیا میں زندہ ہیں اور شعور سونپ دیا گیا ہے تو آپ کا بڑا نقصان اور گھاٹا پہلے ہی ہو چکا ہے۔

Check Also

Muhib e Watan Bangali

By Syed Mehdi Bukhari